اس بیان میں کہ ممکنات کا خلق اور نمود اور وجود مرتبہ وہم میں ہے جس نے اتقان اور استحکام حاصل کرلیا ہے۔ خواجہ صلاح الدین احراری کی طرف صادر فرمایا ہے۔
كَانَ اللَّهُ وَلَمْ يَكُنْ مَعَهُ شَيْءٌ ( اللہ تعالیٰ تھا اور کوئی چیز اس کے ساتھ نہ تھی)جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے پوشیدہ کمالات کو ظاہر کرے تو حق تعالیٰ کے اسماء میں سے ہر ایک اسم نے ایک ایک مظہر طلب فرمایا تا کہ اپنے کمالات کو اس مظہر میں جلوہ گر کرے۔ عدم کے سوا اور کوئی شے وجود اور توابع وجود کے مظہر بننے کے قابل نہیں کیونکہ شے کا آئینہ اور مظہر اس شے کے مبائن (ضد، مخالف)اور مقابل ہوتا ہے اور وجود کے مبائن اور مقابل اعدم ہی ہے۔ پس حق تعالیٰ نے اپنی کمال قدرت سے عالم عدم میں سے ہر ایک اسم کا مظہر تعین فرمایا اور اس کو مرتبہ حس و وہم میں جب چاہا اور جس طرح چاہا پیدا کیا خلق الأشياء متى شاء وکما شاء (اشیاء کو جب چاہا اور جسے چاہا پیدا کیا اور دائمی معاملہ اس پر وابستہ کیا۔
جاننا چاہیئے کہ عدم خارجی کے منافی ثبوت خارجی ہے نہ وہ ثبوت جو مرتبہ حس و وہم میں پیدا ہو کیونکہ اس میں منافات کی بو بھی نہیں اور عالم کا ثبوت مرتبہ حس ووہم میں ہے نہ مرتبہ خارج میں تا کہ اس کے منافی ہو۔ بس جائز ہے کہ عدم مرتبہ حس و وہم میں ثبوت پیدا کرلے اور حق تعالیٰ کی صنعت سے وہاں اس کو اتقان و رسوخ حاصل ہو جائے اور اس مرتبہ میں ظلیت و انعکاس کے طور پر حی(زندہ) و عالم(جاننے والا) وقادر(قدرت والا) ومر ید(اردا کرنے والا) بینا (دیکھنے والا) گویاوشنوا(سننے والا) ہو اور مرتبہ خارج میں اس کا کوئی نام و نشان نہ ہو اور خارج میں حق تعالیٰ کی ذات و صفات کے سوا کوئی چیز ثابت و موجود نہ ہو اور اس لحاظ سے اس کو الآن كما كان کہہ سکیں۔ اس کی مثال نقطہ جوالہ (تیزی سے گردش کرنے والا نقطہ)اور دائرہ موہوم کی سی ہے کہ موجودصرف وہی نقطہ ہے اور دائرہ کا خارج میں نام و نشان نہیں ۔ ہاں اس دائرہ نے مرتبہ حس و وہم میں ثبوت پیدا کیا ہے اور اس مرتبہ میں ظلیت کے طور پر اس کو نور اور روشنی حاصل ہے۔ اس تحقیق کے ساتھ ان مقدمات مبسوط سے استغنا حاصل ہو جاتی ہے جو حضرت شیخ محی الدین اور اس کے تابعین نے عالم کی تکوین میں فرمائے ہیں اور تنزلات کا بیان کیا ہے اور تعینات کوعلمی و خارجی بنائے ہیں اور حقائق و اعیان ثابتہ (ممکنہ حقائق) کو حق تعالیٰ کے مرتبہ علم میں ثابت کیا ہے اور ان کےعکسوں کو خارج میں کہ ظاہر وجود ہے۔ مقر ر رکھا ہے اور ان کے آثار کو خارجی کہا ہے جیسے کہ ان کے کلام کو دیکھنے والے اور ان کی اصطلاح پر اطلاع پانے والے منصف پر پوشیدہ نہیں ہے۔
اور اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کے سوا کوئی چیز کیا اعیان(ذوات) اور کیا اعیان کے آثار موجود نہیں بلکہ ان کا ثبوت مرتبہ حس و وہم میں ہے اور اس سے محذور لازم نہیں آتا۔ کیونکہ یہ ایسا موہوم نہیں جو وہم کے اختراع سے ثابت ہوا ہے تا کہ وہم کے اٹھ جانے سے یہ بھی اٹھ جائے بلکہ اس کا ثبوت مرتبہ وہم میں حق تعالیٰ کی صنعت سے ہے اور اس مرتبہ میں صفات و قرار اور اتقان و استحکام رکھتا ہے۔ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ( اس الله تعالیٰ کی صنعت ہے جس نے تمام اشیاءکو مضبوط کر دیا ہے اس بیان سے واضح ہوا کہ ممکنات کے حقائق عد مات ہیں جنہوں نے حق تعالیٰ کے مرتبہ علم میں تمیز تعین پیدا کیا ہے اور حق تعالیٰ کی صنعت سے دوبارہ مرتبہ حس و وہم میں ثابت ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض اسماء الہی جل شانہ کے آئینے اور مظہر ہیں اور مرتبہ میں ظلیت اور انعکاس کے طور پرحی و عالم وقادر مرید و بینا وشنواو گویا ہو گئے ہیں اور اور شیخ اس کے تابعداروں کی تحقیق میں ممکنات کے حقائق اسماء الہی کی علمیہ صورتیں ہیں جو حضرت وجود کے تنزلات خمسہ میں سے ایک تنزل ہے۔ حاصل یہ کہ اس فقیر کی سمجھ میں ممکنات کی نمائش کو خارج میں ثابت کیا ہے اور کہا ہے کہ صورعلمی متکثره (بکثرت علمی صورتیں)جو ممکنات کی حقائق ہیں اور جن کو اس نے اعیان ثابتہ سے تعبیر کیا ہے حق تعالیٰ کے ظاہر وجود کے آئینہ میں ( کہ جس کے سوا خارج میں کوئی موجود ہیں) منعکس ہو کر خارج میں نمودار ہوئی ہیں اور خارج میں دکھائی دیتی ہیں لیکن در حقیقت ایک ذات حق تعالیٰ کے سوا خارج میں کوئی موجود نہیں اور فرماتا ہے کہ علمیہ صورتوں میں سے ہر ایک صورت کو کسی وقت ظاہر وجود کے ساتھ جو ان صورتوں کے لیے آئینہ کی طرح ہے ایک مجہول الکیفیت نسبت پیدا ہو جاتی ہے جو خارج میں ان کے نمودار ہونے کا سبب ہوتی ہے اور کہتا ہے کہ یہ نسبت مجہول الکیفیت کسی کو معلوم نہیں ۔ حتی کہ انبیاء علیہم الصلوة والسلام کو بھی اس بھید سے اطلاع نہیں دی اور خارج میں ان صورتوں کے اس اظہار کو جو اس مجہول الکیفیت نسبت کے حاصل ہونے کے بعد ہے خلق کہا ہے اور اشیاء کی ایجاد سمجھا ہے اور اس پہلی تحقیق کی رو سے جس کی طرف اس فقیر نے ہدایت پائی ہے جس طرح اشیاء کا خارج میں وجود نہیں، اسی طرح اس میں ان کا نمود بھی نہیں ۔ اگر نمود ہے تو مرتبہ وہم میں ہے اور اگر ثبوت ہے تو وہ بھی حق تعالیٰ کی صنعت سے مرتبہ وہم ہی میں ہے۔ غرض اس کا نمود وثبوت ایک ہی مرتبہ میں ہے نہ یہ کہ اس کا نمودایک جگہ ہے اور اس کا ثبوت دوسری جگہ مثلا دائرہ موہومہ جو نقطہ جوالہ سے پیدا ہے جس طرح اس کا ثبوت مرتبه وہم میں ہے نہ کہ خارج میں اسی طرح اس کا نمود بھی اس مرتبہ میں ہے اس لیے کہ اس دائرہ موہوم کا نشان صرف وہم ہی میں ہے۔ خارج میں کچھ بھی ثابت نہیں نمودبھی اسی مرتبہ وہم میں ہے کیونکہ خارج میں اس کا کوئی نشان نہیں تا کہ نمودار ہو۔
حاصل کلام یہ ہے کہ نمودوہمی کو نمود خارجی سمجھتے ہیں جس طرح مثالی صورتوں کو عالم مثال میں بیداری کے وقت حس باطنی کے ساتھ دیکھیں اور خیال کریں کہ ان صورتوں کو عالم شہادت میں حس ظاہر کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ اس قسم کے اشتباه بہت واقع ہوتے ہیں کہ ایک مرتبہ کو دوسرے کے ساتھ مشتبہ پاتے ہیں اور ایک کا حکم دوسرے پر کر دیتے ہیں پس صورت مذکورہ بالا میں وہ دائرہ موہومہ جو خیال میں جما ہوا ہے خیال کی آنکھ سے اسی مرتبہ میں کہ جس میں منقش ہے دیکھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس کو خارج میں سر کی آنکھ سے دیکھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ کیونکہ خارج میں جو نقطہ جوالہ کامحل ہے اس دائرہ کا کوئی نام و نشان نہیں تا کہ دیکھا جائے
اسی طرح شخص کی صورت ہے جو کہ آئینہ میں منعکس ہوتی ہے که خارج میں صورت کا نہ ثبوت ہے نہ نمود بلکہ اس کا ثبوت ونمود دونوں مرتبہ خیال میں ہیں والله سبحانه أعلم۔ پس جس چیز کو شیخ قدس سرہ نے خارج جانا ہے اور اس میں انعکاس کے طور پر اشیاء کا نمود ثابت کیا ہے وہ خارج نہیں بلکہ مرتبہ وہم ہے جس نے حق تعالیٰ کی صنعت سے ثبات وقرار پیدا کیا ہے اور خارج کا وہم گزرتا ہے جو کچھ ہمارا مشہود اور محسوس اور معقول اور متخیل ہے سب دائرہ و ہم میں داخل ہے۔ موجود خارجی جل شانہ ہمارے افہام سے برتر ہے اس مقام میں مرائیت یعنی آئینہ ومظہر ہونا کیا گنجائش رکھتا ہے اور وہ کون سی صورت ہے جس میں حق تعالى منعکس ہوسکتا ہے کیونکہ آئینے اور صورتیں سب مراتب ظلال میں ہیں جو دائرہ وہم وحس سے تعلق رکھتے ہیں ( یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے بھلائی ہمارے نصیب کر)
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ171ناشر ادارہ مجددیہ کراچی