انسان کی جامعیت کے بیان میں جو عالم امر اور عالم خلق کے دس اجزا سے مرکب ہے اور عرش مجید پر قلب انسان کی ترجیح کے بیان میں سیادت پناہ میر شمس الدین علی خلخالی کی طرف صادر فرمایا ہے۔
الحمد لله وسلام على عبادہ الذين اصطفى (اللہ تعالی کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) آدمی ایک ایسا نسخہ جامع ہے جو اجزاءعشرہ یعنی اربعہ عناصر اورنفس ناطقہ(نفس انسانی) اور قلب و روح سر خفی واخفی سے مرکب ہے اور دوسرے قویٰ و جوارح ( اعضاء) جو انسان میں ہیں انہی اجزاء میں شامل ہیں۔ یہ اجزا ایک دوسرے کے متضاد اورمخالف ہیں ار بعہ عناصر کا ایک دوسرے کی ضد ہونا تو ظاہر ہے۔ اسی طرح عالم خلق اور عالم امر کی ضدیت بھی معلوم ہے اور عالم امر کے پنجگانہ لطائف میں سے ہر ایک الگ الگ امر کے ساتھ مخصوص ہے اور علیحدہ علیحدہ کمال کی طرف منسوب ہے اورنفس ناطقہ خود اپنی خواہش و ہوا کا طالب ہے غرض ان میں کوئی بھی دوسرے کے ساتھ نہیں ملا۔ حق تعالی کی عنایت نے اپنی قدرت کاملہ کے ساتھ ہر ایک کی سرعت یعنی تیزی اور غلبہ کو توڑ کر جمع فرمایا ہے اور ایک کو خاص مزاج اور ہیئت وحدانی(تمام لطائف اورجسم) عطا فرمائی ہے۔ مزاج خاص اور ہیئت وحدانی عطا فرما کر اپنی حکمت بالغہ سے اس کو ایسی صورت بخشی ہے جو اجزا متضاده مفرقہ(متضاد و الگ) کی حفاظت کر سکے۔ اس مجموعہ کو انسان کے ساتھ مسمی کرکے جامعیت اور ہیئت وحدانی کے اصل ہونے کے اعتبار سے خلافت کے شرف استعداد سے مشرف فرمایا ہے۔ یہ خلافت کی دولت انسان کے سوا کسی اور کو میسر نہیں ہوئی۔ عالم کبیر اگر چہ بڑا ہے۔ لیکن جامعیت سے خالی اور ہیئت وحدانی سے بے نصیب ہے یہ ماجرا تمام افراد انسانی میں ثابت ہے اور تمام خاص و عام انسان اس میں شریک ہیں۔
جاننا چاہے کہ عالم کبیر کے اجزا میں سے زیادہ اشرف جزوعرش مجید ہے اور تجلی جواس کے ساتھ مخصوص ہے۔ دوسرے تمام اجزا کی تجلیات سے برتر ہے کیونکہ وہ تجلی جامع ہے اور وہ ظہور و جوبی اسماء و صفات کا جمع کرنے والا ہے۔ نیز وہ تجلی دائمی ہے۔ پوشیدگی کی گنجائش نہیں رکھتی اور انسان کامل کا قلب عرش کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے اور اس کو عرش اللہ بھی کہتے ہیں۔ اس تجلی عرشی سے نصیب وافر اور حظ کامل رکھتا ہے۔
حاصل کلام یہ کہ تجلی عرشی کلی ہے اورتجلی قلبی جزئی، لیکن قلب میں ایک اور زیادتی ہے جو عرش میں نہیں اور وہ متجلی یعنی جلوہ گر ہونے والے کا شعور ہے اور نیز قلب ایک ایسا مظہر ہے جو اپنے ظاہر کے ساتھ گرفتاری رکھتا ہے۔ بخلاف عرش کے جو اس گرفتاری سے خالی ہے۔ اسی شعور اور گرفتاری کے باعث قلب کی ترقی ممکن بلکہ واقع ہے۔ المرء مع من احب (آدی اسی کے ساتھ ہے جس سے اس کو محبت ہے) کے موافق قلب اسی کے ساتھ ہے جس کے ساتھ وہ گرفتاری رکھتا ہے اور جس کی محبت پر فریفتہ ہے۔ اگر اسماء و صفات کا حب ہے تو اسماء وصفات کے ساتھ ہے اور اگرذات تعالی و تقدس کامحب ہے تو وہاں کی معیت اس کو حاصل ہے اور اسماء و صفات کی گرفتاری سے آزاد ہے۔ برخلاف عرش مجید کے کہ اسماء و صفات سے خالی تجلی اس کے حق میں غیر واقع ہے۔ والسلام
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ38 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی