اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات مکتوب نمبر2دفتردوم

اس بیان میں کہ حق تعالی کی ذات و صفات کا مرتبہ وجود اوروجوب کے اعتبار سےبرتر ہے ، میر شمس الدین خلخائی کی طرف صادر فرمایا ہے

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالی کا حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) 

 آپ کا مبارک خط جو محبت و اخلاص سے صادر فرمایا ہے،پہنچا۔ بڑی خوشی حاصل  ہوئی دینی بھائیوں کا زیادہ ہونا آخرت میں بہت سی امیدوں کا سبب ہے۔

 اللهم اكثر إخواننا في الدين وثبتنا وإياهم على متابعة سيد المرسلين عليه وعليهم من الصلوات افضلها ومن التثليمات اکملها (يا اللہ توہمارے دینی بھائیوں کو زیادہ کر اور ہم کو اور ان کو حضرت سید المرسلینﷺ کی متابعت پر ثابت قدم رکھ)

از ہر چہ  می رود سخن دوست خوشتر است(جس طرح ہو ذکر اس کا خوب ہے)

 اے محبت کے نشان والے واجب الوجود تعالی و تقدیس کی صفات  سبعہ (حیات، علم، قدرت،ارادہ، سمع، بصر، کلام) یا ثمانیہ(علمائے ماتریدیہ صفات سبعہ کے ساتھ تکوین بھی شمار کرتے ہیں) مختلف قول کے موافق جو صفات حقیقیہ ہیں، خارج میں موجود ہیں اور اہل حق شكر الله تعالی سعیہم کے .سوا باقی تمام مخالف فرقوں میں سے کوئی فرقہ بھی حق تعالی کی صفات کے وجود کا قائل نہیں ہوا۔ 

حتی کہ اہل حق میں سے متاخرین صوفیہ نے بھی وجود صفات کا انکار کیا ہے اور صفات کی زیادتی کوعلم کی طرف راجع کرتے اور کہتے ہیں۔ 

بیت: ازروےتعقل ہمہ غیراند صفاتتو از روئے تحقق ہمہ عین ذات

 ترجمہ بیت: عقل تو کہتی ہے کہ صفات غیرسے ہیں حق یہ کہ صفات   ذات اقدس کے  ساتھ ہیں

حق یہ ہے کہ اہل حق کی بات برحق ہے۔ مشکوۃ نبوت سے مقتبس اور کشف وفراست کے نور سے موید ہے۔ حاصل کلام یہ کہ وہ اشکال جومخالف صفات کے وجود میں رکھتی ہیں، قوی ہے کیونکہ صفات اگر موجود ہوں تو دوامر سے خالی نہیں۔ ممکن ہوں گی یا واجب۔ امکان حدوث کومستلزم ہے کیونکہ ان کے نزدیک جوممکن ہے حادث ہے اور واجب کے متعدد ہونے کا قائل ہونا توحید کے منافی ہے اور نیز امکان کی صورت میں حق تعالی کی ذات سے صفات کا الگ ہونا لازم آتا ہے اور یہ بات حق تعالی کے لیے جہل وعجز کے جواز کا موجب ہے۔ 

اس اشکال کاحل جو بھی اس فقیر پر ظاہر ہوا ہے، یہ ہے کہ حضرت سبحانہ وتعالی بذات خود موجود ہے نہ کہ وجود کے ساتھ۔ خواہ وہ وجود عین ہو یا زائد اورحق تعالی کی صفات اس کی ذات کے ساتھ موجود ہیں نہ کہ وجود کے ساتھ۔ کیونکہ اس مقام میں وجود کی گنجائش نہیں۔ 

شیخ علاؤالدولہ نے اس مقام کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ فوق عالم الوجود عالم الملك الودود(عالم وجود کے اوپر مالک ودو کا عالم ہے)

پس امکان وجوب کی نسبت بھی اس مقام میں متصورنہیں کیونکہ امکان ووجوب ماہیت اور وجود کی درمیانی نسبت کا نام ہے لیکن وہاں نہ وجودہے نا امکان اور نہ وجوب یہ معرفت نظر وفکر کے طور سے ماوراء ہے۔ دائرہ عقل میں محبوس لوگ اس معرفت کو کیا پا سکتے ہیں اور انکار کے سوا ان کے حصہ میں کیا آ سکتا ہے۔ الأمن عصمه الله تعالى (مگر جس کواللہ تعالی محفوظ ر کھے) عرض دیگر یہ ہے کہ سیادت پناه میرمحب اللہ کچھ مدت سے یہاں تھے اب ان حدودکی طرف جانا چاہتے ہیں۔ ان کی صحبت و خدمت کو غنیمت جانیں۔ والسلام علیکم على من لدیکم

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ26 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں