آنحضرت ﷺ کی متابعت کے سات درجے مکتوب نمبر54دفتردوم

 اس بیان میں کہ آنحضرت ﷺ کی متابعت کے بہت سےمرتبے اور درجے ہیں۔ اور وہ سات درجے ہیں اور ہر ایک درجہ کی تفصیل میں سید شاہ محمد کی طرف صادر فرمایا ہے۔ 

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفٰى سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔

آنحضرت ﷺکی متابعت جو دینی اور دنیاوی سعادتوں کا سرمایہ ہے۔ کئی در جے اور مرتبے رکھتی ہے۔ 

متابعت پہلا درجہ عوام اہل اسلام کے لیے ہےیعنی تصدیق قلبی کے بعد اور اطمینان نفس سے پہلے جو درجہ ولایت سے وابستہ ہے، احکام شرعیہ کا بجا لانا اور سنت سنیہ کی متابعت ہے اور علماء ظاہر اور عابد زاہد جن کا معاملہ ابھی تک اطمینان نفس تک نہیں پہنچا۔ سب متابعت کے اس درجہ میں شریک ہیں اور اتباع کی صورت کے حاصل ہونے میں برابر ہیں۔ چونکہ اس مقام میں نفس ابھی کفروانکاری پر اڑا ہوا ہوتا ہے، اس لیے یہ درجہ متابعت کی صورت پرمخصوص ہے۔ متابعت کی  یہ صورت متابعت کی حقیقت کی طرح آخرت کی نجات اور غلامی کا موجب ہے اور دوزخ کے عذاب سے بچانے والی اور جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری دینے والی ہے۔ اللہ تعالی نے کمال کرم سے نفس کے انکار کا اعتبار نہ کر کے تصدیق قلبی پر کفایت فرمائی ہے اور نجات کو اس تقدیر پر وابستہ کیا ہے۔ بیت 

مے توانی کہ دہی اشک مراحسن قبول اے که در ساختۂ قطره بارانی را

. ترجمہ  وہ ذات جس نے بارش کے قطرے کو موتی بنایا  میرے آنسوؤں کو بھی حسن قبولیت  بخشے گا

 متابعت کا دوسرا درجہ۔ آنحضرت ﷺکے اقوال و اعمال کا اتباع ہے جو باطن سے تعلق رکھتی ہے۔ مثلا تہذیب اخلاق اور بری صفتوں کا دور کرنا اور باطنی امراض اور اندرونی بیماریوں کا رفع کرنا وغیرہ جو مقام طریقت کے متعلق ہیں ۔ اتباع کا یہ درجہ ارباب سلوک کے ساتھ مخصوص ہے۔ جو طریقہ صوفیہ کوشیخ مقتدا سے اخذ کر کے سیرالی اللہ کی وادیوں اور جنگلوں کوقطع کرتے ہیں۔ 

متابعت کا تیسرا درجہ ۔ آ نحضرت ﷺکے ان احوال و اذواق ومواجید کی اتباع ہے۔ جو مقام ولایت خاصہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ درجہ ان ارباب ولایت کے ساتھ مخصوص ہے جو مجذوب سالک یا سالک مجذوب ہیں۔ جب مرتبہ ولایت ختم ہو جاتا ہے اور طغیان وسرکشی سے ہٹ جاتا ہے تو اس وقت جو کچھ متابعت کرتا ہے۔ متابعت کی حقیقت ہوتی ہے۔ اگر نماز ادا کرتا ہے تو متابعت کی حقیقت بجالاتا ہے اور اگر روزہ ہے یا زکوۃ اس کا بھی یہی حال ہے۔ غرض تمام احکام شریعت کے بجالانے میں متابعت کی حقیقت حاصل ہوتی ہے۔

 سوال:- نمازوروزوں کی حقیقت کے کیا معنی ہیں۔ نماز و روزه افعال مخصوصہ ہیں۔ اگر یہ افعال فرمان کے بموجب ادا ہو جائیں تو حقیقت پائی جائے گی۔ پھر صورت وحقیقت کے کیا معنی؟

 جواب:- مبتدی چونکہ نفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) (برائی کی طرف بہت امر کرنے والا)  رکھتا ہے جو ذاتی طور پر آسمانی احکام کا منکر ہے۔ اس لیے احکام شرعی کا بجا لانا اس کے حق میں باعتبار صورت کے ہے اورمنتہی کانفس چونکه مطمئن ہو جاتا ہے اور رضا و رغبت سے احکام شرعی کو قبول کر لیتا ہے، اس سے احکام شرعی کا صادر ہونا باعتبار حقیقت کے ہے۔ 

مثل منافق و مسلم دونوں نماز کو ادا کرتے ہیں۔ منافق چونکہ باطن کا انکار رکھتا ہے، اس لیے نماز کی صورت بجا لاتا ہے اور مسلمان باطنی اتباع کے باعث نماز کی حقیقت سے آراستہ ہے۔ پس صورت و حقیقت باعتبار اقرار اور انکار باطن کے ہے۔ 

مذکورہ بالا درجہ یعنی کمالات ولایت خاصہ کے حاصل ہونے کے بعد (جو اتباع کا تیسرا مرتبہ ہے) نفس کے مطمئن ہونے اور اعمال صالحہ کی حقیقت کے بجالانے کا درجہ ہے ۔

 متابعت کا چوتھادرجہ ۔ پہلے درجہ میں اس متابعت کی صورت تھی اور یہاں اتباع کی حقیقت ہے۔ اتباع کا یہ چوتھا درجہ علمائے راسخین شکر اللہ تعالی سعیھم کے ساتھ مخصوص ہے جو اطمینان نفس کے بعد متابعت کی حقیقت کی دولت سے متحقق ہیں۔ اگر چہ اولیاء اللہ کوبھی قلب کی تمکین کے بعد تھوڑا سا اطمینان نفس حاصل ہوتا ہے لیکن کمال اطمینان نفس کو کمالات نبوت کے حاصل کرنے میں ہوتا  ہے۔ جن کمالات سے علماء راسخین کو وراثت کے طور پر حصہ حاصل ہوتا ہے۔ پس علماء راسخین نفس کے کمال اطمینان کے باعث شریعت کی حقیقت سے جو اتباع کی حقیقت ہے متحقق ہوتے ہیں اور دوسروں کو چونکہ یہ کمالات حاصل نہیں ہوتے ، اس لیےکبھی شریعت کی صورت سے اورکبھی اس کی حقیقت سے متحقق ہوتے ہیں ۔ علماء راسخیں کا میں ایک نشان بتاتا ہوں تا کہ کوئی ظاہر دان رسوخ کادعوی نہ کرے اور اپنے نفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا)    کو مطمئنہ خیال نہ کرے۔ 

 راسخ العلم (مضبوط  علم والےجن کو علم میں رسوخ ہو)وہ شخص ہے جس کو کتاب وسنت کی متشابہات کی تاویلات سے بہت سا حصہ حاصل ہو اور حروف مقطعات کے اسرار کو جو قرآنی سورتوں کے اول ہیں، بخوبی جانتا ہو۔ متشابہات کی تاویل پوشیده اسرار میں سے ہے تو خیال نہ کرے کہ یہ تادیل بھی اسی طرح ہے جس طرح ید (ہاتھ)کی تاویل قدرت سے اور وجہ(چہرہ) کی تاویل ذات سے کرتے ہیں کیونکہ اس کا تعلق علم ظاہر سے ہے۔ اسرار کے ساتھ اس کا کچھ واسطہ نہیں۔ ان اسرار کے مالک انبیاء علیہم الصلوة والسلام ہیں اور ان رموز و اشارات سے انہی بزرگوں کے ساتھ معاملہ کیا جاتا ہے یا وہ لوگ جن کو وراثت و تبعیت کے طور پر اس دولت سے مشرف فرمائیں۔ 

متابعت کا یہ درجہ جونفس کے اطمینان اور صاحب شریعت کی متابعت حقیقت تک پہنچنے پر موقوف ہے۔کبھی فنا اور سلوک و جذبہ کے وسیلہ کے بغیر حاصل ہو جاتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ احوال و مواجید اور تجلیات وظہورات میں سے کچھ بھی درمیان نہیں آتا اور یہ دولت حاصل ہو جاتی ہے لیکن دوسرے راستے کی نسبت ولایت کے راستہ سے اس دولت تک پہنچنا آسان اور اقرب ہے اور وہ دوسرا راستہ اس فقیر کے خیال میں سنت سنیہ کی متابعت اور بدعت کے اسم و رسم( نام و نشان) سے اجتناب کرنا ہے۔ جب تک بدعت حسنہ سے بدعت سیئہ کی طرح پر ہیز نہ کریں تب تک اس دولت کی بُوروح کے دماغ میں نہیں پہنچتی۔ آج یہ بات مشکل معلوم ہوتی ہے کیونکہ تمام جہان در یائے بدعت میں غرق ہے اور بدعت کے اندھیرے میں پھنسا ہوا ہے۔ کس کی مجال ہے کہ بدعت کو دور کرنے کا دم مارے اور سنت کے زندہ کرنے کا دعوی کرے۔ 

اس زمانہ کے اکثر علماء بدعتوں کو رواج دیتے اور سنتوں کو محو کر تے ہیں ۔ شائع اور پھیلی ہوئی بدعتوں کو تعامل(بتکلف عمل بنا لینا) جان کر جواز بلکہ استحسان کا فتوی دیتے ہیں اور لوگوں کی بدعت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر گمراہی شائع ہو جائے اور باطل متعارف و مشہور ہو  جائے تو تعامل ہو جاتا ہے مگر یہ نہیں جانتے کہ یہ تعامل احسان کی دلیل نہیں جوتعامل معتبر ہے وہوہ ہے جو صدر اول سے آیا ہے یا تمام لوگوں کے اجماع سے حاصل ہوا ہے جیسے کے فتاوی غیاثیہ میں مذکور ہے۔ 

شیخ السلام شہید رحمته الله فرماتے ہیں کہ ہم بلخ کے مشائخ کے استحسان پرفتوی نہیں دیتے بلکہ ہم اپنے متقدمین اصحاب کے استحسان کے موافق فتوی دیتے ہیں کیونکہ ایک شہر کا تعامل جواز پر دلالت نہیں کرتا بلکہ وہ تعامل جواز پر دلالت کرتا ہے جو صدر اول سے استمرار ( مسلسل)کے طور پر ہوتا چلا آیا ہے تا کہ نبی ﷺکی تقریر(حدیث) پر دلیل ہو اور لوگوں کا فعل حجت نہیں ہو سکتا۔ ہاں جب تمام شہروں میں بہت لوگوں سے بطریق اجماع ثابت ہو تو اس وقت جائز ہوگا کیونکہ اجماع حجت ہے ۔ کیا نہیں جانتے کہ اگر وہ شراب کی بیع اور سود پر تعامل کریں تو اس کے حلال ہونے کا فتوی نہ دیا جائے گا اور اس بات میں کچھ شک نہیں کہ تمام مخلوقات کے تعامل اور تمام شہروں اور قصبوں کے عمل کا علم انسان کی طاقت سے خارج ہے۔ 

باقی رہا تعامل صدر اول کا جو درحقیقت رسول اللہ ﷺکی تقریر (برقرار)ہے اور سنت سنیہ کی طرف راجع ہے۔ اس میں بدعت کہاں اور بدعت حسنہ کجا۔ اصحاب کرام کے لیے تمام کمالات کے حاصل ہونے میں حضرت خیر البشرﷺ کی صحبت کافی تھی اور علماء سلف میں سے جو لوگ اس رسوخ کی دولت سے مشرف ہوئے ہیں، بغیر اس بات کے کہ طریقہ صوفیا کو اختیار کریں اور سلوک و جذبہ سے مسافت کو قطع کریں۔ وہ لوگ سنت سنیہ کی متابعت اور بدعت نا مرضیہ سے پورے طور پر دیکھنے کی بدولت اس رسوخ فی العلم کی دولت سے سرفراز ہوئے ہیں۔ اللهم ثبتنا على متابعة السنة وجنبنا عن ارتكاب البدعة بحرمة صاحب السنۃ  عليه وعلى اله الصلوة والسلام (ياللہ تو صاحب السنت ﷺکے طفیل ہم کو سنت کی متابعت پر ثابت رکھے اور بدعت کے بجالانے سے بچا)

متابعت کا پانچواں درجہ آنحضر ت ﷺ کے ان کمالات کا اتباع ہے جن کے حاصل ہونے میں علم و عمل کا دخل نہیں بلکہ ان کا حاصل ہونا الله تعالی کے فضل و کرم پر موقوف ہے۔ یہ درجہ نہایت ہی بلند ہے۔ اس درجہ کے مقابلہ میں پہلے درجوں کی کچھ حقیقت نہیں۔ یہ کمالات اصل میں اوالعزم پیغمبروں کے ساتھ مخصوص اور دوسروں کو تبعیت و  وراثت کے طور پر  حاصل ہیں  جس کو چاہیں اس دولت سے مشرف فرمائیں۔ 

متابعت کا چھٹا درجہ آنحضرت ﷺکے ان کمالات کا اتباع ہے جو آنحضرت ﷺکے مقام محبو بیت کے ساتھ مخصوص ہیں جس طرح پانچویں درجہ میں کمالات کا فیضان محض فضل و احسان پر تھا، اس چھٹے درجے میں ان کمالات کا فیضان محض محبت پر موقوف ہے جوتفضل و احسان سے برتر ہے۔ متابعت کا یہ درجہ بھی بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ پہلے درجہ کے سوا متابعت کے یہ پانچ درجے مقامات عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالی کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے)  کے ساتھ تعلق کئے ہیں۔ ان کا حاصل ہونا صعود پر وابستہ ہے۔ 

متابعت کا ساتواں درجہ وہ ہے جو نزول و ہبوط سے تعلق رکھتا ہے۔متابعت کا یہ ساتواں درجہ پہلے تمام درجات کا جامع ہے کیونکہ اس مقام نزول میں تصدیق قلبی بھی ہے۔تمکین قلبی  بھی ہے اورنفس کا اطمینان بھی اور اجزاء قالب کا اعتدال بھی جوطغیان وسرکشی سے باز آ گئے ہوتے ہیں۔ پہلے درجے گویا اس متابعت کے اجزاء ہیں اور یہ درجہ ان اجزاء کا کل ہے۔ اس مقام میں تابع اپنے متبوع کے ساتھ اس قسم کی مشابہت پیدا کر لیتا ہے کہ تبعیت کا نام ہی درمیان سے اٹھ جاتا ہے اورتابع دمتبوع کی تمیز دور ہو جاتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویاتابع متبوع کی طرح جو کچھ لیتا ہے، اصل سے لیتا ہے۔ گویا دونوں ایک چشمہ سے پانی پیتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی طرح ہم آغوش و ہمکنار اور ایک بستر پر ہیں اور شیر شکر کی طرح ہیں ۔ معلوم نہیں ہوتا کہ تابع کون ہے اور متبوع کون اور تبعیت کسی کے لیے ہے۔ نسبت کے اتحاد میں تغائیر کی نسبت کچھ گنجائش نہیں۔ 

عجب معاملہ ہے اس مقام میں جہاں تک غور کی نظر سے مطالعہ کیا جاتا ہے۔ تبعیت کی نسبت کچھ نظرنہیں آتی اور تابعیت و متبوعیت کا امتیاز ہرگز مشہود نہیں ہوتا۔ البتہ اس قدرفرق ہے کہ اپنے آپ کو اپنے نبی ﷺ کاطفیلی اور وارث جانتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ تابع اور ہوتا ہے اورطفیلی و وارث اور اگر چہ تبعیت کی قطار میں سب برابر ہیں لیکن جس میں بظاہرمتبوع کا پردہ درکار ہے اورطفیلی و وارث میں کوئی پردہ درکارنہیں۔تابع  پس خورده کھانے والا ہے اور طفیلی ضمنی ہم نشین غرض جو دولت آئی ہے، انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے واسطے سے آئی ہے اور یہ امتوں کی سعادت ہے کہ انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے طفیل اس 

دولت سے حصہ پاتے ہیں اور ان کا پس خورده تناول کرتے ہیں۔ بیت 

در قافلہ کہ اوست دانم نرسم

ایں بس کہ رسد زدو ربانگ جرسم

ترجمہ   جس قافلہ میں یار ہے  اس تک  میں جا نہیں سکتا میں

 بس دور سے قافلے کی گھنٹیوں کی آواز سنتا ہوں 

کامل تابعدار وہ شخص ہے جو متابعت کے ان ساتوں درجوں سے آراستہ ہو اور وہ شخص جس میں متابعت کے بعض درجے ہیں اور بعض نہیں۔ درجوں کے اختلاف کے بموجب مجمل طور پر تابع ہے۔ علماء ظاہر پہلے درجہ پرہی خوش ہیں۔ کاش یہ لوگ درجہ اول کوہی سرانجام کر لیں۔ انہوں نے متابعت کو صورت شریعت پر موقوف رکھا ہے۔ اس کے سوا کوئی اور امرخیال نہیں کرتے اور طریقہ صوفیاء کو جو درجات متابعت کے حاصل ہونے کا واسطہ ہے۔ بیکار تصور کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر علماء ہدایہ اور بزدوی(فقہ حنفی کی کتابیں) کے سوا کسی اور امر کو اپنا پیر ومقتدا نہیں جانتے۔ بیت 

چوآں کرمے کہ درسنگ نہاں است زمیں و آسمان اوہماں است

ترجمہ: وہ کیڑا جو کہ پتھر میں چھپا ہے  اس کا زمیں و آسمان وہی پتھر ہے ۔

حققنا الله سبحانه وإياكم بحقيقة المتابعة المرضیۃ المصطفويه على صاحبها الصلوة والسلام والبركة والتجية وعلى جميع إخوته من الأنبياء الكرام والملئكة العظام وجميع اتباعهم إلى يوم القيام. (الله تعالی ہم کو اور آپ کو حضرت محمد مصطفے ﷺکی پسندیدہ متابعت کی حقیقت سے واقف کرے۔ رسول الله ﷺاور ان کے بھائی تمام پیغمبروں اور فرشتوں اور تمام تابعداروں پر قیامت تک الله تعالی کی طرف سے صلوۃ والسلام و برکت و تحفے نازل ہوں۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ191 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں