نسبت کے اقسام اربعہ

حضرت شاہ عبدالعزیزؒ نے نسبت کی چارقسمیں بیان فرمائی ھیں
۱۔انعکاسی۔مرید جب ذکرکرتاھےتوشیخ کےقلب کااثر مریدپرپڑتا ھےاور اسکےقلب میں اثرپیداھوتاھےمگریہ اثربالکل ابتدائی ھوتاھےاس حالت میں جورونادھونااور انابت ھوتی ھےسب شیخ کےتوجہ کااثرھوکرتی ھے
مثال ۔جیسےکسی نےوافرمقدار میں عطرلگارکھاھےاب جواسکی مجلس میں بیٹھےگااثرمحسوس کرےگا مگر یہ تاثراس وقت تک ھےجب تک کہ شیخ کےمجلس میں ھے معاصی خاص کر بدنظری سے یہ نسبت جلدی ضائع ھوجاتی ھے
۲۔شیخ اپنےقلب کی نورانیت سےدوسرے طالب کےاندرایک نورانی کیفیت پیداکرے اس کیفیت کاباقی رکھنا مرید کاکام ھےاگرذکروشغل پرمداومت کرے گا کیفیت باقی رھےگی ورنہ ختم ھوجاوےگی
مثال۔جیسےکوئی اپنے چراغ میں تیل ڈالےاوراور شیخ کےلو سے لولگاکرچراغ روشن کرےیہ چراغ شیخ کےبعد بھی جلتارھےگا جتنازیادہ تیل صاف ھوگا روشنی زیادہ ھوگی بشرطیکہ کوئ تندوتیزھوا اسکو ضائع نہ کرےیہ نسبت پہلی کی نسبت اونچی ھےاگرمعمولات کےساتھ پرہیز کرے تو معمولی لغزش[معصیت] کےساتھ بھی باقی رھےگی ھاں اگربڑی معصیت سرزد ھوتو پھر ختم ھوجاوےگی
۳ ۔نسبت اصلاحی۔
یہ پہلی دونسبتوں سےاونچی ھے اسکا حاصل یہ ھے کہ شیخ اپنےنورانیت کاوافر حصہ مرید کیلئے فراھم کرتاھےلیکن اس میں تدریجی ترقی ھوتی ھے پہلےاخلاق پہر آھستہ آھستہ ترقی ھوتی ھے
مثال۔کوئی شخص نہرکھودے اور اسکادہانہ بڑھاکر دریاکےدہانےسے ملادےیہ نہرمعمولی خس وخاشاک سے بندنہ ھوگااگرلغزش ہوجاے توبہہ جاوےگی۔
۔مثال اسی وجہ سے بعض صحابہؒ سے کمزوریوں کاصدورھوا مگرنبیﷺ کی صحبت کی برکت سےسب کچھ بھہ گیا
اس نسبت میں سالک اپنےنفس کی تھذیب کرلیتاھے
۔۴۔اتحادی۔شیخ مریدکےقلب کےانداترجاوےاور ’تومن شدم من توشدی‘کامصداق بن جاوےجوشیخ کےقلب میں آوے وھی مرید کے قلب میں اس نسبت میں شیخ اپنےروح کومریدکےروح سے متصل کرلیتاھےیہ سب سے قوی نسبت ھے
مثال۔ابوبکرصدیقؓ کی نسبت محمدالرسول اللہﷺ سے اتحادی تھی ھرموقع پر ابوبکرؓ کی راے آپﷺ کےتائےکےمطابق ھوتی
مثال۔خواجہ باقی باللہؒ اور نانبائ کاواقعہ۔ کہ کسی خدمت پرخواجہؒ خوش ھوے اورنانبائ نےعجیب مطالبہ کیاکہ اپنےجیسابنادو
تو جب خواجہؒ نے اپنےروح کوانکےروح سے متحد کرلیا تو نانبائ برداشت نہ کرسکا اور تین بعد دنیاسے چلاگیا کیونکہ اس عالم فانی میں کمالات عطاکرنے کاقانون تدریجاھے


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں