حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :
جان لیجیئے کہ انسان دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جنہیں ابتلاو آزمائش ، آلام و مصائب سے دوچار رہنا پڑتا ہے
منعم علیہ(جن پر نعمت ہوئی ہے)کی زندگی بھی تیرگی اورتکدر سے کلیتاً خالی نہیں ہوتی۔ وہ نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے تو اچانک اسے مصیبتوں، بلاؤں ، بیماریوں نفس مال، اولاد اور اہل و عیال کی پریشانیوں میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ اس کی زندگی بوجھ بن جاتی ہے۔ اور راحت و سکون غارت ہو جاتا ہے۔ مصائب و آلام کے جھکڑ چلتے ہیں تو سب نعمتیں، راحتیں اور آسائشیں قصہ پارنیہ بن جاتی ہیں۔ جب مال و دولت کی فراوانی ہوتی ہے۔ حشم وخدام حاضر باش ہوتے ہیں ، دشمن سے ہر طرح کا امن و سکون ہو تا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ دنیاراحت و سکون کا گھر ہے۔ اس میں دکھ اور پریشانی کا وجود ہی نہیں لیکن جب دردو آلام گھیر لیتے ہیں۔ پریشانیوں میں مبتلا ہوتا ہے تو اسے یوں لگتا ہے گویادنیادار المحن ہے۔ یہاں نعمت کا نام و نشان تک نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ الله تعالی کی معرفت سے محروم ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ مالک حقیقی جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ دنیا تغیر پذیر ہے۔ کبھی دھوپ، کبھی چھاؤں۔ کبھی شیرینی اورکبھی تلخی۔ وہ اس حقیقت سے ناواقف ہوتا ہے کہ تونگر اور درویش بنانا اس کا کام ہے۔ وہی بلندی و پستی، عزت وذلت زندگی اور موت۔ تقدیم و تاخیر کا مالک ہے۔ اگر وہ اس حقیقت سے واقف ہوتا تو فانی اور تغیر پذیر دنیا سے دل نہ لگاتا۔ کبھی ان سے فریفتگی اور دلبستگی کا اظہار نہ کرتا۔ نہ حالت ابتلاء میں فراخی سے مایوس ہو تا اور نہ حالت تو نگری میں غافل اور جرات مند ہو تا۔ چونکہ وہ دنیا کی بے ثباتی سے ناواقف ہے اس لیے اس کا گرویدہ ہے۔ اور دائمی بےتکدر زندگی کا طالب ہے۔ وہ یہ بات بھول گیا ہے کہ دنیا غم و اندوه، تکلیفوں اور پریشانیوں کا گھر ہے۔ یہ سر تا سربلا اور اس کی نعمتیں عارضی ہیں۔ اس کی مثال صبر کے درخت جیسی ہے۔ جس کا میوہ پہلے ترش ہوتا ہے لیکن بعد میں شہد کی طرح میٹھا جاتا ہے۔ اور انسان حلاوت حاصل کر ہی نہیں سکتاجب تک ترشی کا گھونٹ پی نہ لے۔ شہد کھانے کیلئے زہریلی مکھیوں کے ڈنگ پر صبر کرنا پڑتا ہے۔
جو دنیا کی مصیبتوں پر صبر کر تا ہے اس پر اللہ تعالی کی نعمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ کیونکہ مزدور کو مزدوری صرف اس وقت دی جاتی ہے جب اس کی پیشانی عرق آلود ہوتی ہے۔ جسم تھک کر چور ہو جاتا ہے۔ روح میں کرب اور سینے میں تنگی محسوس کرتا ہے۔ طاقت جواب دے جاتی ہے۔ ابنائے جنس کی خدمت کی ذلت اٹھاتا ہے اور محنت و مشقت سے کمر دوہری ہو جاتی ہے۔
دنیااولین تلخ ہے۔ جیسے شہد کا چھتا۔ وہ اوپر سے تلخ ہو تا ہے۔ اس تلخی اور ترشی پر صبر کیے بغیر شہد کی مٹھاس ہاتھ نہیں لگتی۔ بندہ مومن جب تک امرونہی کی تلخیوں کو خندہ پیشانی سے قبول نہیں کرتا۔ خدائی فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتا۔ اپنا آپ اللہ تعالی کے حوالے نہیں کر دیتا۔ تکالیف کو برداشت نہیں کرتا۔ خواہشات اور جھوٹی تمنائیں ترک نہیں کرتا۔ اس وقت تک نعمتہائے خداوندی اور غلبہ وارجمندی کا مستحق نہیں بن سکتا۔ اور جوان تلخیوں کوبرداشت کرتا ہے، عیش وطرب، نازونعم ، اور دولت و ثروت سے مالا مال ہوتا ہے۔ ایک شیر خوار بچے کی مانند اسے اپنی ضروریات کیلئے خود تگ و دو نہیں کرنا پڑتی غیب سے اس کی کفالت کے سامان ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالی اپنے اس بندے کو بے منت غیر اپنی نعمتوں سے نواز تا ہے خود اس کی نگہداشت فرماتا ہے۔ عاقبت بد سے بچاتا ہے اور چھتے کی تلخی برداشت کرنے والے کی طرح اسے اپنی نعمتوں سے حظ وافر عطا کر تا ہے۔
منعم علیہ کو چاہیئے کہ اللہ تعالی کی تدبیر اور استدراج سے غافل نہ رہے دولت دنیا پر غرور نہ کرے۔ دنیاوی نعمتوں کو پائیدار نہ سمجھے۔ شکر سے غافل نہ ہو کہ سب نعمتیں چھن جائیں۔ نعمت گویا شکار ہے جس پر قابو پانے کیلئے شکر ضروری ہے۔ نبی کریم کا ارشاد ہے۔
النعم وحشية؛ فقيدوها بالشكرنعمت دشت کاوحشی جانور ہے اسے شکر کے ذریعے شکار کرو“
نعمت اگر دولت و ثروت کی صورت میں ہو تو شکر یہ ہے کہ انسان والی نعمت اور فضل و احسان کے مالک خدائے بزرگ و برتر کی وحدانیت کا اقرار کرے تمام حالات، قلت و کثرت، قبض و بسط اور جمع و تفرقہ میں تحدیث نعمت کرے اور اس حقیقت پر یقین رکھے کہ مولائے کریم اپنے فضل و کرم میں اور اضافہ فرمائے گا۔ اللہ تعالی کی عطا کردہ ان نعمتوں پر ملکیت نہ جتلائے۔ مالی حقوق و فرائض کو پس پشت نہ ڈالے۔ احکام خداوندی کی پاسداری کرے یعنی زکوة گناہوں کا کفارہ ، نذر و نیاز، صدقہ، غرباء کی مدد ضرورت مندوں کی اعانت مصیبت زدوں کی خبر گیری جیسے دوسروں کے حقوق کا خیال رکھے جبکہ احوال تبدیل ہو جائیں اور حسنات سیئات میں بدل جائیں لیکن کشائش و فراخی کی جگہ غربت و افلاس لے لے اور لوگ مشکلات کا شکار ہوں تو ان کی خبر گیری کرے۔
اگر نعمت اعضائے جسمانی کی تندرستی کی صورت میں ہو تو اس کے شکر کی صورت یہ ہے کہ انسان اعضائے جسمانی کو اللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری میں صرف کرے۔ اپنے آپ کو حرام چیزوں اور گناہ کے کاموں سے بچائے۔ نافرمانیوں اور معصیت شعاریوں سے دور رہے شکر نعمتوں کے چھن جانے اور ہاتھ سے چلے جانے کے لئے قید ہے گویا شکر پانی ہے اور نعمت درخت ہے۔ اور یہ پانی اس کی شاخوں اور بچوں کی نمی کو بر قرار رکھ سکتا ہے۔ اس سے اس پر پھولوں کی زیبائش ہے۔ ذائقہ کی حلاوت ہے اور اسی پانی کی وجہ سے درخت سلامت ہے۔ نعمت کے اس درخت کی گٹھلی میں جو لذت ہے۔ چبانے میں جو سہولت ہے وہ سب اسی شکر کے پانی کی وجہ سے ہے۔ اس درخت کا پھل تندرستی کا ضامن اور جسم کی نشو و نما کاذریعہ ہے۔ پھر شکر کی وجہ سے انسان کے تمام جوارح میں برکت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اطاعت و فرمانبرداری ذکر و اذ کار اور عبادت و ریاضت میں مشغول ہو جاتا ہے۔ شکر ہی کی وجہ سے انسان آخرت میں جنت النعیم میں داخل ہو تا ہے اور اسی کی بدولت انبیاء و صدیقین ، شہداء و صالحین کی معیت حاصل کر تا
ہے۔ اور یہی لوگ بہترین دوست ہیں۔ اگر انسان ان نعمتوں پر شکر بجانہ لائے اورمال و دولت کی کثرت، دنیا کی زیب و زینت پر اترانے لگے۔ اس سے دھوکہ کھا جائے۔ اس سراب کی چکا چوند سے ،بجلی کی اس چکا چوند سے دولت کے سانپ اور بچھووں کی نرم ملائم جلد کی خوبصورتی سے مفتون ہو جائے۔ اس زہر قاتل سے آنکھیں بند کرلے۔ اس کے مکر و فریب دام تزویر سے غافل وبے خبر ہو جائے تو اسے بربادی۔ فقر وفاقہ دنیا میں ذلت ورسوائی اور آخرت میں عذاب جہنم کا مژدہ سنادو۔
رہا وہ آدمی جو مبتلاۓ بلا و مصیبت ہے۔ توکبھی مصیبت کسی جرم اور معصیت کی عقوبت و سزا ہوتی ہے اورکبھی خطاو لغزش کے لیے ذریعہ بخشش ایک تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندے کو مصیبت میں مبتلا کر کے آخرت میں اعلی درجات اور بلند روحانی مناصب پر فائز فرماتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ میرا بنده احوال و مقامات کے حامل اولی العلم بندوں کے مقام تک رسائی حاصل کرے اور میرے خصوصی لطف و کرم کا مستحق ٹھہرے اور یہ بھی ان لوگوں میں شامل ہو جائیں جن پر رب ارض و سماء کی خصوصی عنایت ہو چکی ہیں اور جنہیں ان کے مولانے مصائب و آلام کے میدانوں میں اپنے لطف و کرم کی سواریوں پر سوار کر کے سیر کرائی ہے اور حرکات و سکنات میں اپنی نگہداشت میں رکھ کر اور لطف و کرم فرما کر انہیں راحت و آسائش بخشی۔ ایسے لوگوں کو مبتلائے مصیبت اس لیے نہیں کیا جاتا کہ وہ ہلاک ہو جائیں اور دوزخ میں پڑےسڑتےر ہیں۔ بلکہ مصائب و آزمائش کے ذریعے اللہ انہیں بزرگی عطا فرماتا ہے اور انہیں درجات عالیہ سے نواز تا ہے۔ ان کے ایمان کی حقیقت کو عیاں کر تا ہے۔ انہیں شرک ، دعاوی(دعوے) اور نفاق جیسی روحانی آلائش سے پاک و صاف فرماتا ہے۔ ان مصائب کی بھٹی میں ڈال کر انہیں کندن بناتا ہے اور پھر اسرار و علوم اور انوار و تجلیات سے ان کے سینوں کو مالا مال کر تا ہے۔ جب ان کا ظاہر اور باطن صاف و شفاف اور اجلے ہو جاتے ہیں تو انہیں دنیا و آخرت میں اپنا مقرب بارگاه حاضر باش اور جلیس و ہم نشین بنا لیتا ہے۔ یعنی دنیامیں دلی قرب بخشتا ہے اور آخرت میں جسمانی نبی کریم کاارشادگرامی ہے۔ الفقراء الصبر جلساء الرحمن يوم القيامة، صابر فقیر قیامت کے دن اللہ کے ہم نشین ہو گئے“
اللہ تعالی اپنے بندے کو مصائب و آلام میں مبتلا کر کے ان کے دلوں سے میل کچیل دور کرتا ہے۔ انہیں شرک، تعلق باللہ، اسباب پر بھر وسے، جھوٹی آرزوؤں، اور ارادوں سے پاک و صاف فرماتا ہے۔ مصائب د عاوی اور خواہشات نفسانی کے لیے بھٹی کا کام دیتے ہیں کہ سب غش و غل جل کر سونا اپنے اصل رنگ میں سامنے آجاتا ہے۔ انہی مصائب کے ذریعے انسان کے اندر سے یہ خرابی دور ہو جاتی ہے کہ وہ اللہ تعالی کی اطاعت محض اس لیے کرے کے اسے بلند درجات ، اعلى منازل اور آخرت میں جنت الفردوس کے ابدی نعمتیں میسر ہوں۔
رہا یہ مسئلہ کہ یہ کیونکر معلوم ہو کہ یہ مصیبت گناہوں کی سزا ہے۔ خطاؤوں کی بخشش کا ذریعہ ہے یابلندی درجات کا سبب ہے تو جب بندہ مصیبت پر صبر نہیں کر رہا۔ لوگوں کے سامنے اللہ تعالی کا شکوہ کر رہا ہے تو سمجھ لو کہ اسے گناہوں اور اللہ کی نافرمانیوں کی سزادی جارہی ہے۔اگر وہ مصائب و آلام کو صبر سے برداشت کر رہا ہے۔ شکوہ و شکایت کی زبان دراز نہیں کر رہا۔ دوستوں اور پڑوسیوں کے سامنے مصائب کارونا نہیں رورہا اور احکام خداوندی کی ادائیگی اور فرمانبرداری سے ملول نہیں ہوا تو سمجھ لودردو آلام کفارہ سیئات ہیں۔ اللہ تعالی اپنے بندے کو اس دنیامیں تکلیف دیکر خطاؤں سے اسے پاک کرنا چاہتا ہے۔
اگر مبتلائے مصیبت تسلیم ورضا کا پیکر ہے۔ ارض و سماء کے خالق اور اللہ کے فعل سے وہ طمانیت اور سکون محسوس کر رہا ہے اور آزمائش میں اپنے آپ کو فنا کر دیا ہے یہاں تک کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مصیبت دور ہو جائے اور اطاعت پر کمر بستہ ہے تو سمجھ لو کہ اسے اعلی درجات عطا کرنے کے لیے مصائب سے دوچار کیا گیا ہے۔
آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 138 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام