واجب تعالی کے وجود کی نسبت مکتوب نمبر 14دفتر سوم

ایک سوال کے جواب میں جو واجب تعالی کے وجود کی نسبت کیا گیا تھا۔ میرشمس الدین علی کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ 

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفٰى سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔

آپ کا صحیفہ شریفہ جو آپ نے ازروئے کرم وشفقت کے ارسال کیا تھا۔ اس کے مطالعہ سے بہت محظوظ اور متلذذ ہوا۔ الله تعالی آپ کو جزائے خیر دے۔ آپ نے  لکھا تھا کہ جب حق تعالی کی ذات اپنی ماہیت میں موجود ہے۔ نہ کہ وجود میں خواہ عین یازائد پس واجب الوجود (جووجوب اور وجود کے اعتبار کے بغیر الله تعالی کی ذات ہے) اورمتمنع الوجود کے درمیان تقابل کس طرح متحقق ہوگا اور واجب الوجود کا اطلاق وجوب وجود سے معرا ذات پر کس طرح ہو سکے گا اور عبادت کا استحقاق جووجوب وجود پر وابستہ ہے کس طرح ثابت ہوا اور واجب الوجود کا اطلاق عدیم الوجوب والوجود ذات کے اعتبار سے ہوا۔ 

میرے مخدوم! ان سوالوں کا جواب دفتر ثانی کے مکتوبات میں سے کسی مکتوب میں جو غالباً فقیرزادوں میں سے کسی فقیرزادہ کے نام لکھا ہے۔ مفصل طور پر درج ہو چکا ہے۔ اگر آپ اس کا مطالعہ فرمائیں گے تو بہت محظوظ ہوں گے۔ خلاصہ یہ کہ واجب جل شانہ کی ماہیت اپنی خودی سے موجود ہے۔ نہ کہ وجود کے ساتھ اور وجود کا اثبات اور وجوب کا اطلاق اس بارگاه میں عقل کی منتزعات (اپنے پاس سے بنائی چیز ) کی قسم سے ہے۔ وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَى

مثال اعلے اللہ تعالی کے لیے ہے اور جس طرح وجوب وجود منتزعات کی قسم سے ہے۔ امتناع عدم بھی اس بارگاہ میں منتزعات میں سے ہے لیکن جہاں ذات بحت ہے وہاں جسطرح وجوب وجود کی نسبت نہیں۔ امتناع عدم کی نسبت بھی نہیں جو اس کے مقابل ہے۔ جب وجوب وجود کی نسبت پیدا ہوئی تو امتناع عدم کی نسبت بھی جو اس کے مقابل ہے۔ ظاہر ہوگئی اور عبادت کے استحقاق کی نسبت بھی جو وجوب وجود پرمتفرع ومشتمل ہے۔ ظہور میں آ گئی۔ كان الله و لم يكن معه شیئا و إن كان من النسبة والاعتبارات فاذا ظهرت النسبة ظهر التقابل اللہ تعالی تھا اور اس کے ساتھ کوئی شے نہ تھی اور نہ ہی کوئی نسبت اعتبار تھا، پس جب نسبتیں ظاہر ہوگئیں تو تقابل بھی ظاہر ہوگیا) والسلام اولا و آخرا 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ43 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں