واحدیت ( تنزلات ستہ کا مرتبہ ثالثہ )

واحدیت ( تنزلات ستہ کا مرتبہ ثالثہ )

(واحدیت ، لاھوت ذات حق کا ایک مرتبہ ہے جس میں بالفعل کثرت کا اعتبار کیا گیا ہے۔ یہاں کثرت سے مراد اسماء وصفات اورمعلومات الہیہ کی کثرت ہے ۔)

تنزل ثانی

تنزل ثانی یعنی دوسرا ظهور(یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ظہور، مجمل سے مفصل ، وحدت سے کثرت اور باطن سے ظاہر کی طرف ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس ہو تو اس کو خفا یا بطون کہتے ہیں۔)اس حقیقت کا تعین ثانی(تعین کی دو قسمیں ہیں ۔1

تعین ذاتی : یہ کبھی نہیں بدلتا، ہر حال میں قائم ودائم رہتا ہے ۔ مثلاً زید کی شخصیت یا ذات زید ، کہ جو بچپن میں تھی وہی جوانی میں ہوتی ہے اور وہی بڑھاپے میں رہتی ہے۔ ان تینوں حالتوں میں ذات زید برابر قائم ہے۔

تعین با عتبار اسم وصفات : یہ بدلتا رہتا ہے، اس کو دوام و قیام نہیں مثلاً بچپن، جوانی اور بڑھاپا۔ یہ زید کے صفاتی تعینات ہیں، کبھی زید بچہ ہے، کبھی جوان اور کبھی بوڑھا  ) ہے ۔ اس مرتبہ میں ذات نے اپنی ہر صفت اور ہر قابلیت کو علیحدہ علیحدہ جانا ، چنانچہ ذات یہاں تمام اسماء وصفات کی جامع ہے (حیات علم ،ارادہ، قدر، سماعت،بصارت اور کلام  سات صفات کی جامعیت کو الہیت کہتے ہیں جو واحدیت کا دوسرا نام ہے اور انہی سات صفات کے جامع کو اللہ کہتے ہیں ، جس کا دوسرا نام واحد ہے و الھکم اله واحد سے اس طرف اشارہ ہے ۔ امہات الصفات انہیں اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ یہی صفات بسیط ہیں جو صرف ایک معنیٰ پر دلالت کرتے ہیں۔ باقی دوسری صفات ، صفات مرکبہ ہیں جو امہات الصفات کے مختلف اجتماعات اور ان کے گوں ناگوں گرہ کھانے یا ایک دوسرے کے ساتھ شرط ہونے کے نام ہیں)، خواہ یہ اسمائے کلی ہوں یا اسمائے جزئی یوں(اسمائے الہی کلی  اٹھائیس ہیں جنہیں ارباب اوران کے تحت مراتب کونیہ میں اسمائے کونی بھی اٹھائیس ہیں جو مربوبات کہلاتے ہیں ) ہر اسم دوسرے اسم سے جدا ہوا ۔ اسم عبارت ہے ایک ذات سے جو ایک صفت سے متصف ہے مثلاً ذات کو صفت سماعت کے ساتھ سمیع کہتے ہیں اور صفت کلام کے ساتھ کلیم ۔ اب اگر کہا جائے کہ اللہ تو ایک اسم ذات ہے(اللہ خدا کا اسم ذات ہے۔ کسی اور ہستی پر اس کا اطلاق نہ درست ہے نہ ممکن ۔ فارسی کے ” خدا ” یا انگریزی کے   کی طرح اہم نکرہ نہیں کہ معبود واحد کے علاوہ دوسروں کے لیے بھی بولا جا سکے ۔ اس کی نہ جمع آتی ہے نہ تانیث ۔ نہ اس کا ترجمہ کسی زبان میں ممکن ہے ۔ اکثر علماء وصوفیہ اس پر متفق  ہیں کہ یہ اسم جامد ہے ۔ کسی لفظ سے مشتق نہیں۔ہے۔   یہ اسم جملہ اسماء کا جامع تمام اسماء پر مقدم ہے اور تمام اسماء اس کے مظاہر کی  تجلی ہیں ۔ یہ اسم جامع  ہر اسم میں شامل ہے، جس طرح حقیقت واحدہ کا اشتمال اپنے انواع کے افراد پر ہوتا ہے جیسے انسان کا استعمال زید عمرو ، بکر اور ہر فرد بشرپر ، اسی طرح اللہ اسم ذات مشتمل ہے حی ، علیم ، قدیر ، سمیع اور بصیر وغیرہ پر ۔)، اس میں ذات، صفت سے متصف کہاں ؟ توجواب دیا جائے گا کہ جمیع کمالات کی صفت سے متصف ہے کیونکہ اللہ اس ذات کا نام ہے جو تمام صفات و کمالات کی جامع ہے اور نقصان وزوال سے منزہ

حق کے لیئے کمال کا ثبوت دو طرح سے ہے ۔ کمال ذاتی اور کمال اسمائی ۔

کمال ذاتی :ِ ذات کے کمال سے مراد ، ذات کا ظہور ، ذات کے لیے ، ذات کے ساتھ اور ذات میں، بلا امتیاز غیر وغیریت ہے یعنی ایک کمال اس کا بحیثیت ذات ہے جو عبارت ہے موجود بالذات کے ثبوت سے نہ کہ موجود بالغیر کے ثبوت سے۔ پس ذات اس کی فی نفسہ کامل ہے اور وہ بالذات واجب الوجود ہے بلکہ عین وجود ہے جو اپنے آپ بالذات موجود ہے ۔ کمال ذاتی کے لیے استغنائے مطلق لازم ہے کہ وہ اپنے وجود اپنی بقا اور اپنے دوام میں مستغنی ہے ۔ لہذا اس کمال میں وہ ساری کائنات سے بے نیاز مطلق ہے ۔
کمال اسمائی ۔ اس سے مراد اسمائے حسنیٰ کی حیثیت سے حق تعالیٰ کا کمال تفصیلی  ہے یعنی ذات کا صفات سے متصف ہونا یہ علم میں اعیان ثابتہ کے ثبوت کے بعد ہی ممکن ہے کیونکہ معلوم کے بغیر علم کا، مقدور کے بغیر قدرت کا اور مخلوق کے بغیر خلق کا ظہور نہیں ۔ جب اس حقیقت کے علم میں عالم ثابت ہوئے تو حق تعالٰی کے علم نے ان صورعلمیہ کے ساتھ علاقہ پایا۔ لہذا معلومات الہیہ کے سبب اسم علیم کا ظہور ہوا اور اعیان ثابتہ اپنی تمام قابلیتوں کے ساتھ بغیرکسی تغیر کے علم میں آئے یعنی علم نے ان میں کوئی تبدیلی نہ کی کیونکہ علم معلوم کے تابع ہے۔ اس طرح یہ صورعلمیہ مقدوراور مراد ہوئے ، قدرت اور ارادے کا ان سے تعلق ہوا ۔ اب اس حقیقت کے نام جو قادر ” اور ” مرید ” ہیں ظہور میں آئے ۔ اسی پر دوسرے اسماء کو بھی قیاس کرلو ۔
اس مرتبہ میں ہر صفت دوسری صفت سے علیحدہ ہے اور بہ اعتبار امتیاز علمی ذات سے بھی جدا ہے کیونکہ اس حقیقت نے اپنی تمام قابلیتوں پر نظر ڈالی اور ہر ایک قابلیت کو جدا جدا جانا .

اس نے قابلیتوں کی یافت تین طرح سے کی :

1۔ ایک وہ قابلیات ہیں جن کا ظہور مظاہر پر موقوف نہیں جو تین عالم ہیں۔ ان کوصفات ذاتی کہتے ہیں مثلا حیات ، علم، ارادہ ، قدرت ، سماعت ، بصارت ، کلام، بقا، قبولیت، وجوب ، غنا، قدوسیت، صمدیت ، قَدِم –
2۔ دوسری وہ قابلیات ہیں جو فعلیت کی صلاحیت رکھتی ہیں اور جن کا ظہور مظاہر پر موقوف ہوتا ہے۔ ان کو صفات افعالی کہتے ہیں مثلاً خالقیت یعنی پیدا کرنا ، رزاقیت یعنی رزق پہنچانا ، احیاء اور امانت یعنی جلانا اور مار ڈالنا ۔
3- تیسری وہ قابلیات ہیں جو اثر قبول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ، ان کو صفات انفعالی کہتے ہیں مثلاً مخلوقیت، مرزوقیت ،حیات ،موت –
صفات ذاتی اور صفات افعالی کو حقائق الہیہ کہتے ہیں کیونکہ ہر صفت کے ساتھ ذات الہی کا ایک (الگ) نام ہے اور صفات انفعالی کو حقائق کونیہ، اعیان ثابته، صورعلمیہ ماہیات، حقائق عالم ، عالم معانی ، امہات عالم ، آئینہ ہائے وجود اورعدم کہتے ہیں اور یہ مرتبہ مظہر وحدت کا ہے کیونکہ تفصیل مظہر اجمال کی ہے ۔

تنزلات ستہ کے ان پہلے تین مراتب یعنی احدیت ، وحدت اور واحدیت کو مراتب حقی ، مراتب الہیہ یا حقائق الہیہ کہتے ہیں اور ان کے متقابل عالم یعنی بالترتیب عالم هاهویت، عالم یاھوت اور عالم لاھوت کو مشترکہ طور پر عالم امر کہا جاتا ہے۔ یہ مراتب اظہار حق کے مراتب ہیں اور مخلوق یا تخلیق کے عمل سے بالاتر ہیں۔ تخلیق کے مراتب ان کے بعد شروع ہوتے ہیں اور انہیں مراتب کونیہ یا مراتب خلقی کہتے ہیں اور ان کے متقابل عوالم کو عالم خلق کہا جاتا ہے جن میں عالم جبروت ، ملکوت اور ناسوت شامل ہیں ۔

پھر اس مرتبہ کی بھی دو نسبتیں ہیں :
1۔ اوپر کی نسبت کو حقائق الہیہ کہتے ہیں جس کا لازمہ وجوب ہے ۔ در میان حقیقت انسانی

2- اور نیچے کی نسبت کو حقائق کونیہ کہتے ہیں، جس کا لازمہ امکان ہے، یعنی بطون و ظہور اور وجود و عدم خارجی برابر ہے ۔ اس مرتبہ میں کثرت اعتباری پیدا ہوئی یعنی اسماء و صفات اور صورعلمیہ سمجھنے میں تو بہت ہیں لیکن فی الواقع اس حقیقت سے علیحدہ نہیں ہیں۔ بعض صوفیہ کہتے ہیں کہ حقائق الہیہ میں کثرت نِسَبی ہے اور حقائق کونیہ میں کثرت حقیقی ہے کیونکہ ہر ماہیت دوسری ماہیت سے علیحدہ ہے بلکہ وحدت اس میں نِسَبِی ہے کیونکہ ان تمام صورتوں میں ایک ہی وجود کا ظہور ہے
اسماء وصفات الہیہ کو خزائن الہیہ کہتے ہیں کیونکہ ہر اسم اور ہر صفت میں احکام و آثار کے جواہر مخفی ہیں، جن کا ظہور تخلیق قابل کے بعد ہوتا ہے۔ یہ صورعلمیہ بالکلیہ اس حقیقت کے غیر نہیں بلکہ اس حقیقت کی شئون ہیں (حقائق موجودات کو مرتبہ وحدت میں شئون ذاتیہ مرتبہ واحدیت میں اعیان ثابتہ یا صور علمیہ، مرتبہ ارواح میں حقائق کونیه ، مرتبہ  امثال میں صور مثالیہ اور مرتبہ اجسام میں صور ہیولائی کہتے ہیں ۔)۔ ان صورعلمیہ کو اپنا یا غیر کا شعور نہیں ،اس حقیقت کی ذات میں انہوں نے حلول نہیں کیا ۔
یہ صورعلمیہ مجعول یعنی مخلوق نہیں ہیں کیونکہ خالق کی تخلیق سے ان کا وجود نہیں ہوا ، اس لیئے معدوم ہیں یعنی علم سے باہر موجود نہیں ، جب ان کی تخلیق ہی نہیں ہوئی تو وہ مخلوقات میں کس طرح شامل ہوں گی ، جعل اور تخلیق تو وجود خارجی بخشنے کا نام ہے ۔ وہ صورعلمیہ وجود خارجی کے لیے اگرچہ جعل جاعل کی محتاج ہیں لیکن وجود علمی میں اپنے عدم اصلی پر قائم ہیں اگرچہ ان پر وجود خارجی تھوپا جائے کیونکہ خِفا اور پوشیدگی ان کی ذاتی ہے ، پس خارج میں کسی طرح موجود ہوں اور علم سے باہر کیونکہ آئیں اس لیئے وہ خارجا موجود نہ ہوں گے لہذا ان صور علمیہ سے جن حقائق کا ظہور ہوتا ہے ، وہ ان صورعلمیہ کے احکام و آثار ہیں نہ کہ ان صورعلمیہ کے ذوات. ان صورعلمیہ کے دو اعتبارات ہیں :
1- ایک اعتبار یہ ہے کہ یہ صورعلمیہ، اس حقیقت کے ، اس کے اسماء وصفات کے آئینے ہیں، جو وجود ان آئینوں میں متعین ہے احکام و آثار کی کثرت کے سبب متعدد دکھائی دیتا ہے، اگرچہ خارج میں ظاہر نہیں۔
2- دوسرا اعتبار یہ کہ وہ حقیقت ان صورعلمیہ کی آئینہ دار ہے لہذا اس حقیقت میں ان صورعلمیہ کے علاوہ کچھ بھی ظاہرنہیں ۔ وہ حقیقت جوان صورعلمیہ کی آئینہ دار ہے غیب میں ہے جیسا کہ آئینہ کی شان ہے لہذا آئینہ صرف پردہ غیب کے پیچھے سے ظاہر ہوا ہے

اس مرتبہ الہیت میں دو حقیقتیں ممتاز ہوتی ہیں ۔

1۔ایک وہ حقیقت جو صفات کمالیہ سے متصف ہے مثلا اطلاق( بے قیدی) فعالیت تأثیر، وحدت، وجوب ذاتی ، قَدِم اور بلندی ۔ یہ حقیقت واجب اور معبود ( اللہ ہے۔

2- دوسری وہ حقیقت جو صفات مخلوقیہ سے متصف ہے مثلاً تقید ، انفعال ، تاثیر، امکان ذاتی ، حدوث یہ حقیقت ممکن اورعابد (بندہ) ہے ۔

اسماء الہیہ کے تحت احکام کا ظہور مظاہر کہلاتا ہے جو امکانیہ ہیں اور خارجی وجود کے بعد ہی واقع ہوتے ہیں لہذا صورعلمیہ ( حق تعالی کے وجود کے آئینے ہیں ۔ جو عکس ان آئینوں سے ظاہر  ہو رہا ہے ، اس کو ” ظل بھی کہتے ہیں کیونکہ ظل نور سے ظاہر ہوتا ہے ۔ نور نہ ہو تو ظل معدوم ۔ اسی طرح کا کائنات بھی نور وجو د حق سے پیدا ہوئی ہے ورنہ اپنی ذات کے لحاظ سے عدم اور ظلمت ہے )کو خارج میں موجود کرنا ضروری ہوا اس لئے اللہ تعالیٰ نے عالم کو خارج میں، اپنے علم تفصیلی اورعالم کی استعداد و قابلیت کے مطابق پیدا فرمایا ۔ اس تنزل ثانی کو

الوہیت ” اسم الوہیت ” اللہ ” ہے جو جملہ اسماء وصفات اور افعال کا جامع ہے چونکہ اس مرتبہ کا تعلق جملہ اسماء و صفات ہی سے ہے اس

لیے اس کو الوہیت یا حضرت الوہیت یا حضرت الہیت کہتے ہیں ۔

تعین ثانی : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ مراتب وجود میں اس کا مرتبہ تعین اول کے بعد ہے اور ذات کا تقید یہاں اسماء و صفات میں ہوا ہے ۔

تجلی ثانی : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ ظہور کے لحاظ سے یہ دوسری تجلی ہے جو تجلی اول کی تفصیل ہے ۔ ذات کا ظہور یہاں اسما و صفات کے ساتھ ہوا ۔

منشاء الكمالات : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہی مرتبہ حق تعالیٰ کے کمالات اسمائی کا منشاء و مبدا اور اصل و منتزع عنہ ہے ۔

قبلہ توجہات : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ معلومات حق سبحانہ و تعالی کا مرکزی مرتبہ ہے ۔

عالم معانی : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ موجودات علمی اور معنوی کا مرتبہ ہے۔

حضرت ارتسام : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہیں معلومات حق کی صورتیں یعنی صور علمیہ مرتسم ہوتی ہیں ۔

علم ازلی : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ اس مرتبہ کا مقام علم معقولہ قبلیہ ” ازل ” ہے جو حق تعالیٰ کا ایک حکم ذاتی ہے کہ اپنے کمال کے سبب سے وہی اس کا مستحق بھی ہے اور اس کے غیر کو اس میں کوئی استحقاق حاصل نہیں ۔

علم تفصیلی :  اس وجہ سے کہتے ہیں ہیں کہ یہ علم الہی کا مرتبہ تفصیل ہے اوراس میں اسماء وصفات کی تفصیل ہوتی ہے ۔

مرتبہ العماء: اس وجہ سے کہتے ہیں کہ نفس رحمانی جو سانس کے مانند باہر کی جانب پراگندہ کیا گیا ہے اور جو تعین و تجلی ثانی ہے، اس ابر رقیق کے مانند جو قرص آفتاب کو پوشیدہ کر دیتا ہے ۔ آفتاب وجود حقیقی کو عماء نے ظہور سے مخفی رکھا اور مرتبہ کون میں لاکر اتنا مخفی کردیا کہ ظاہر کواپنے باطن کی خبر ہی نہ رہی ۔

،قاب قوسين : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ جن دو قوسوں سے دائرہ تعین ثانی مرکب ہے ، ان میں سے ایک قوس حقائق انہیہ سے متعلق ہے اور دوسری حقائق کو نیہ سے ۔ ایک وجوب سے متعلق ہے اور دوسری امکان سے

مرتبه الباء : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ حروف تہجی اور حساب ابجد میں جس طرح “ب “حرف ثانی ہے اور دوسرے حروف کا سبب بنتا ہے، اسی طرح تعین ثانی بھی ثانی مرتبہ وجود ہے اور ظہور تفصیلی کا سبب بنا ہے۔ چنانچہ ” ب ” کے معنی اہل اسرار کے نزدیک سبب کے ہیں ۔ اس حرف سے وجود کے مرتبہ ثانیہ اور موجودات خارجیہ کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔

منتبى العابدین : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ عابدین تعیین حقیقت انسانیہ کے محل سے تجاوز نہیں کر سکتے۔ نیز اس سے اشارہ ہے مرتبہ الوہیت کی طرف جو جملہ عبادات کی انتہاء کامرتبہ ہے ۔

منشاء السویٰ : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ وجود حق تعالیٰ یہاں صورممکنات میں غیر ناموں کے ساتھ ظاہر ہوا ، اسی وجہ سے اس عالم کو “ماسوی کہتے ہیں ۔ اس کا نام عالم بعد ظہور ہوا ہے نہ کہ قبل ظهور –

منشاء الکثرت: اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ مرتبہ حقائق کو نیہ کو متضمن ہے۔ جو مقام کثرت ہے اور اس تعین کا منشاء ہی کثرت ہے ۔

واحدیت : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ واحد اسم ثبوتی ہے، جس میں اسماء وصفات کی کثرت ثابت ہے اور یہ مرتبہ بھی اسماء وصفات کی کثرت کا مرتبہ ہے ۔

مرتبہ اللہ : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ اللہ اسم جامع ہے جمیع اسماء و صفات کا اور اس مرتبہ میں تمام اسماء و صفات کا اعتبار کیا گیا ہے ۔

لوح محفوظ : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ لوح محفوظ جس طرح مقدرات کا مقام تفصیل ہے اسی طرح یہ مرتبہ بھی اسماء وصفات کا مقام تفصیل ہے ۔

ان کے ساتھ ساتھ  یہ نام بھی واحدیت کیلئے استعمال ہوتے ہیں

حضرت الاسماء والصفات : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ مرتبہ اسماء و صفات اوران چیزوں کو شامل ہے جو ان سے متعلق ہیں مثلا حقائق کو نبیہ و انسانیہ ۔

احدیث الکثرت : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ احدیت کا ظہور یہاں کثرت میں ہوا ۔

معدن الکثرت : اس وجہ سے کہتے ہیں اس تعین میں کثرت ہے۔

قابلیت کثرت : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ حقائق عالم یہاں اگر عالم ظہور کی قابلیت اختیار کر لیتے ہیں اور اسی وجہ سے اس کو ” قابلیت ظہور بھی کہتے ہیں ۔حضرت الجمع والوجود : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ جامعیت وحدت ہی کی یہ جہت ظہور ہے ۔ وہی ذات واحد ہے جو وحدت میں جہت بطون میں تھی اور یہاں آکر اسماء و صفات سے پہچانی گئی۔

فلک الحیاة : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ حیات عالم کا مدار اسی مرتبہ پر موقوف ہےاور یہ مرتبہ حقائق عالم ارواح و اجسام کو متضمن ہے ۔

وجود اضافی  اس وجہ سے کہتے ہیں کہ موجودات سے اسے نسبت تحقق في الخارج ہے۔ اس مرتبہ میں وجود کی اضافت کا ئنات کی طرف ہوئی ۔ حدوث کے لحاظ سے اس کا نام کائنات ہے اور ظہور وجود کے اعتبار سے اس کو موجودات کہتے ہیں ۔

نفس رحمانی : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ تعین اول سے تعین ثانی بطور انبساط نفس حاصل ہوا اور جو کچھ باطن تھا وہی ظاہر ہوا ۔

منتہی العالمین : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ جملہ عوالم یہاں ظہور میں اپنی انتہار کو پہنچے ان تمام پچیدہ اصطلاحی ناموں سے جو چیز ثابت ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ یہ مرتبہ اسماء و صفات کی تفصیل کا مرتبہ ہے۔

یہاں یہ نہ سمجھ لینا کہ وحدت اورالہیت اور اللہ تعالی کا نام نو پید ہوا ہے کیونکہ مرتبہ ذات کی ایک آن بھی وحدت اور الہیت پر مقدم نہیں۔ یہ تقدیم و تاخیر رتبہ کی ہے اور صرف برائے تفہیم ہے مثلاً ایک سہ سطری مہر کندہ کی گئی اب اگر اس کو کا غذ پر لگا کر پڑھیں تو مقدم پہلی سطر پڑھی جائے گی ، اس کے بعد دوسری ، پھرتیسری ، لیکن کا غذ پر ان سطروں کا ثبوت مقدم اور موخر نہیں ہوا ہے


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں