بعض پوشیدہ اسرار کے بیان میں جن سے مفہوم ہوتا ہے کہ ہمارے پیغمبر کو ملت ابراہیم علیہ السلام کے اتباع کا کیوں امر ہوا، جامع علوم عقلی و نقلی مخدوم زاده مجد الدین محمدمعصوم سلمہ الله تعالی کی طرف صادر فرمایا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالی کا حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)
) میں سمجھتا ہوں کہ میری پیدائش سے مقصود یہ ہے کہ ولایت محمدی ولایت ابرا ہیمی علیہ السلام کے رنگ میں رنگی جائے اور اس ولایت کا حسن ملاحت اس ولایت کے جمال صباحت کے ساتھ مل جائے۔ حدیث میں آیا ہے آخى يوسف أصبح وأنا أملح (میرا بھائی یوسف صبیح( صاف رنگ کی خوبصورتی) تھا اور میں ملیح (چہرے کی کشش کی خوبصورتی)ہوں) اور اس انصباغ (رنگین ہونا)اور امتزاج (آمیزش)سے محبوبیت(محبوب ہونے کی کیفیت) محمد یہ کا مقام درجہ بلند تک پہنچ جائے۔ . ملت ابرا ہیمی علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کے اتباع کے امر سے یقینا اسی دولت عظمی کاحاصل ہونا مقصود ہوگا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صلوات و برکات جیسے صلوات و برکات کا طلب کرنا اس غرض کے لیے ہوگا۔ صباحت و ملاحت دونوں حق تعالی کے اس حسن ذاتی کا پتہ دیتی ہیں جس میں صفات کی ملاوٹ نہیں لیکن صفات و افعال و آثار کا حسن سب حسن صباحت سے مستفاد ہے جو بڑی برکت والا ہے۔ حسن ملاحت حضرت اجمال سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ گویا ملاحت دائرہ حسن کا مرکز ہے اور صباحت اس مرکز کا دائرہ ہے۔
حضرت ذات تعالی میں جس طرح بساطت(فراخی ،کشادگی) ہے، وسعت بھی ہے لیکن وہ بساطت و وسعت نہیں جو ہمارے فہم میں آ سکے اور نہ وہ اجمال وتفصیل جو ہمارے ادراک میں آئے۔
لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (آنکھیں اس کونہیں پا سکتیں لیکن وہ آنکھوں کو پاسکتا ہے اور وہ باریک بیں اور باخبر ہے)
بساطت و وسعت جوحق تعالی کی ذات میں ثابت کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے جدا ہیں نہ کہ ایک دوسرے کاعین ہیں۔ جیسے کہ بعض نے گمان کیا ہے لیکن وہ تمیز جو اس مرتبہ میں ان کے درمیان ثابت ہے، ہمارے ادراک کے احاطہ اور ہمارےفہم کے دائرے سے باہر ہے۔ پس صباحت و ملاحت بھی ایک دوسرے سے جدا ہیں اور ہر ایک کے احکام الگ الگ ہیں اور وہ کمالات جو ان کے متعلق ہیں، وہ بھی ایک دوسرے سے جدا ہیں معلوم ہوتا ہے کہ میں اپنی پیدائش سے جو مقصود سمجھتا تھا، وہ حاصل ہو گیا ہے اور ہزار سال(تجدید) کی دعا قبول ہوگئی ہے۔ الحمد للہ الذي جعلنی صلة بين البحرين و طلخا بين الفتين أعمل الحمد على كل حال والصلوة والسلام على خير الأنام وعلى إخوانہ الكرام من الأنبياء والملئكة العظام (اللہ تعالی کی ہر حال میں کمال حمد ہے جس نے مجھ کو دو دریاؤں کا ملانے والا اور دو گروہوں کے درمیان اصلاح کرنے والا بنایا اور حضرت خیر الانام اور ان کے بھائیوں یعنی انبیاء اور ملائکہ عظام پپر صلوۃ وسلام ہو) چونکہ صباحت نے بھی ملاحت کا رنگ اختیار کر لیا ہے، اس لیےخلت ابرا ہیمی کے مقام نے کی وسعت پیدا کی ہے اور محیط نے مرکز کا حکم حاصل کر لیا ہے۔
جاننا چاہئے کہ مقام محبت مرتبہ ملاحت سے مناسبت رکھتا ہے اور مقام خلت مرتبہ صباحت کے مناسب ہے۔ مقام محبت میں محبوبیت صرف حضرت خاتم الرسل ﷺکے نصیب ہے اور محبیت(محبت کرنے کی کیفیت) خالص حضرت کلیم اللہ علیہ الصلوة والسلام کے ساتھ مخصوص ہے اور حضرت خلیل علیہ الصلوة والسلام دوستی اور ہم نشینی کی نسبت رکھتے ہیں۔ محبت ومحبوب اور ہوتا ہے اور دوست وند یم اور ہر ایک کی نسبت الگ الگ ہے۔
یہ فقیر چونکہ ولایت محمدیہ ﷺاور ولایت موسویہ على صاحبها الصلاة والسلام کا تربیت یافتہ ہے، اس لیے وطن وسکونت مقام ملاحت میں رکھتا ہے لیکن ولایت محمد یہ على صاحبھا الصلوة والسلام کی محبت کے غلبہ کے باعث محبوبیت کی نسبت غالب ہے اور محسبیت کی نسبت مغلوب ومستور۔
اے فرزند با وجود اس معاملہ کے جو میری پیدائش سے مقصود تھا، ایک اور کارخانہ عظیم میرے حوالہ فرمایا ہے۔ مجھے پیری و مریدی کے واسطے نہیں لائے اور نہ میری پیدائش سے خلق کی تکمیل و ارشاد مقصود ہے بلکہ معاملہ دیگر اور کارخانہ دیگر مطلوب ہے اس ضمن میں جن کو مناسبت ہوگی وہ فیض پالےگا ورنہ نہیں ۔ معاملہ تکمیل و ارشاد اس کارخانہ کے مقابلہ میں راستہ میں پھینکی ہوئی چیز کی طرح ہے۔ انبیاعلیہم الصلوۃ والسلام کی دعوت کو ان کو باطنی معاملات کے ساتھ یہی نسبت تھی۔ اگر چہ منصب نبوت ختم ہو چکا ہے لیکن نبوت کے کمالات اور خصوصیتوں سےتبعیت اوروراثت کے طور پر انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کے کامل تابعداروں کو حصہ حاصل ہے۔ والسلام –
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ37 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی