حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :
غنی کی حقیقت کو واضح کرنے کیلئے ایک مثال بیان کرتا ہوں۔ تو نے دیکھا ہو گا کہ ایک بادشاہ اپنی رعایا میں سے کسی شخص کو ایک علاقے کا والی مقرر کر تا ہے۔ اسے خلعت فاخرہ پہنائی جاتی ہے۔ بادشاہوں جیسے جھنڈے اور دوسری علامات اسے عطا کر دی جاتی ہیں۔ وہ لگان وصول کرتا ہے۔ لشکر اس کے حکم کا پابند ہوتا ہے۔ وہ بڑے کروفر سے اس علاقے پر بھی فرض شناسی سے حکومت کرتا ہے۔ لیکن تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد وہ اپنی اوقات بھلادیتا ہے۔ مطمئن ہو جاتا ہے کہ یہ حکومت اب مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ میں اس کا بلا شرکت غیرے مالک ہوں وہ فخر و غرور ، عجب و خود پسندی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اپنی پہلی حالت کو بھول جاتا ہے۔ فقر و فاقہ اور ذلت و رسوائی میں گزری زندگی اسے یاد نہیں رہتی پھر اچانک بادشاہ کی طرف سے اسے معزولی کا پروانہ ملتا ہے۔ اسے دربار میں پیش کیا جاتا ہے ایک ایک جرم گنا جاتا ہے۔ اس کی بے انصافیاں طشت ازبام ہو جاتی ہیں۔ بادشاہ اسے سخت سزا کا حکم سناتا ہے۔ اسے پابہ زنجیر قید کوٹھڑی میں قید کر دیا جاتا ہے۔ ایک عرصہ گزر جاتا ہے۔ عزت و وقار خاک میں مل جاتی ہے۔ وہ کوڑی کوڑی محتاج ہو جاتا ہے۔ انا مجروح ہو جاتی ہے۔نخوت و تکبر جاتا رہتا ہے۔ اس کی سرکشی ٹوٹ جاتی ہے۔ ہوس کی آگ بجھ جاتی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بادشاہ کو ترس آجاتا ہے۔ وہ اس پر نظر التفات فرماتا ہے۔ پہلے سے کہیں زیادہ اسے نوازتا ہے۔ اس علاقہ کی فرمانروائی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے سپرد کر دیتا ہے۔
یہی حال ایک بنده مؤمن کا ہے۔ جب اللہ کریم اسے اپنا قرب بخشتا ہے۔ اور اپنے لیے چن لیتا ہے تو اس کے دل کی آنکھ کی روشنائی رحمت، احسان اور انعام کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ وہ اپنے دل سے وہ کچھ دیکھتا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کان نے سنا ہے اور نہ کسی دل میں اس کا خیال گزرا ہے۔ انسانوں اور زمین کی بادشاہوں میں چھپےغیبی اسرار ، عجائب و غرائب کشف روحانی ، اجابت دعاء تقوی، محبوبیت ، قلب میں کلمات حکمت کا نزول اور مداومت ذکر وغیرہ۔ اس کے علاوہ اسے ظاہری نعمتوں سے بھی نوازا جاتا ہے۔ اسے صحت و تندرستی عطاکی جاتی ہے۔ ماکولات و مشروبات، ملبوسات، حلال و مباح نکاح کی اسے توفیق دے دی جاتی ہے۔ لیکن عرصہ تک اللہ کریم اپنے اس بندہ خاص پر اپنی نعمتوں کی بارش کرتا رہتا ہے۔ حتی کہ جب بندہ ان سے اطمینان پانے لگتا ہے۔ سمجھتا ہے کہ
یہ نعمتیں ابدی ہیں اور غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالی ابتلاء و آزمائش کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اسے طرح طرح کی جانی اور مالی مصیبتیں گھیر لیتی ہیں۔ وہ اپنے اہل خانہ کی طرف سے پریشان رہتا ہے۔ ساری نعمتیں چھن جاتی ہیں اور بنده حسرت و ندامت میں حیران و پریشان ہو کر شکستہ دل تنہارہ جاتا ہے۔ اپنے اور بیگانے سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔
اگر ظاہری جسم پر نظر ڈالتا ہے تو خرابی کے سواء کچھ نظر نہیں آتا۔ دل اور باطن میں جھانکتا ہے تو حزن و ملال میں مبتلا کرنے والی حالت پاتا ہے۔ اللہ تعالی سے نجات کی دعا کرتا ہے۔ اللہ تعالی دعا قبول نہیں فرماتا۔ اللہ تعالی سے خوش کن و عدہ کے پورے کرنے کا سوال کرتا ہے تو اس کو فورا پورا ہوتے نہیں دیکھتا۔ اگر اس سے کوئی وعدہ کیا جاتا ہے تو اس کے پورا ہونے کی اطلاع نہیں پاتا۔ اگر کوئی خواب دیکھتا ہے تو فورا اس کی تعبیر سامنے نہیں آتی۔ اگر مخلوق سے رجوع کرنے کا مقصد کر تا ہے تو پھر کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔ اگر اللہ تعالی کی طرف سے دی گئی کسی رخصت پر عمل کرتا ہے تو فورا اس کی طرف سے سزاپاتا ہے۔ اور لوگوں کے ہاتھ اس کے جسم پر ، زبانیں اس کی عزت پر مسلط ہو جاتی ہیں اگر اللہ تعالی سے دعا کرتا ہے کہ اسے اس حالت سے نجات دے اور پہلے جیسی زندگی عطا فرمائے تو دعا قبول نہیں ہوتی۔ اگر مصیبت میں رضا خوشنودی اور تسلیم و رضا کا سوال کرتا ہے تو اسے یہ نعمت بھی نہیں دی جاتی۔
پس ایسی حالت میں نفس کی سرکشی دم توڑنے لگتی ہے۔ حرص وہوا زوال پذیر ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ ارادے اور تمنائیں رخصت ہونے لگتی ہے۔ ہستی نیسی میں تبدیل ہونا شروع کر دیتی ہے۔ یہ حالت دوام اختیار کر لیتی ہے بلکہ اس کی شدت اور سختی میں لمحہ بہ لمحہ بھی اضافہ اور زیادتی ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بندہ اخلاق انسانی اور صفات باری سے فانی ہو جاتا ہے۔ اور روح محض ره جاتا ہے۔ اس وقت وہ اپنے باطن سے یہ آواز سنتا ہے :”اپنا پاؤں زمین پر مارو۔ یہ نہانے کیلئے ٹھنڈا پانی ہے اور پینے کیلئے جیسا کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو حکم ملا تھا۔ اللہ کریم اس کے دل پر رافت ورحمت اور لطف و احسان کے دریا بہادیتا ہے۔ اپنے کرم سے اسے ایک نئی زندگی بخشتا ہے۔ اپنی معرفت اور علم لدنی سے اس کے سینے کو منور کر دیتا ہے۔ اپنی نعمتوں اور برکتوں کے دروازے اس پروا کر دیتا ہے۔ لوگوں کے ہاتھوں کوبذل وعطا اور خدمت کے لیے کھول دیتا ہے۔ زبانیں اس کی تعریف و توصیف کرنے لگتی ہیں۔ لوگ اس کے ذکر خیر میں لذت محسوس کرتے ہیں۔ اس کی خدمت میں چل کر جانا سعادت دارین خیال کیا جاتا ہے۔ گردنیں اس کے سامنے فرط عقیدت سے جھکتی چلی جاتی ہیں۔ ملوک اور ارباب دول اس کے سامنے سر افگنده حاضر ہوتے ہیں۔ اللہ کریم اپنی ظاہری اور باطنی نعمتوں سے اسے خوب خوب نواز تا ہے۔ اپنی نعمتوں اور برکتوں کے ساتھ اس کی ظاہری نشوونما کا بھی ذمہ لیتا ہے اور اپنے لطف و کرم کے ساتھ اس کے باطن کی تربیت بھی خود کرتا ہے۔ لقاء ربی تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پھر بنده جب دنیا سے کوچ کر تا ہے تو اللہ تعالی اسے ایسے گھر میں قیام بخشتا ہے جونہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے۔ نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ .
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ پس نہیں جانتا کوئی شخص جو نعمتیں چھپا کر رکھی گئی ہیں ان کے لیے جن سے آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 179 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شامآنکھیں ٹھنڈی ہو گی یہ صلہ ہے ان اعمال حسنہ کاجو وہ کیا کرتے تھے
آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 131 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام