پانچ الہامات/ الہام کی تعریف

پانچ الہامات/ الہام کی تعریف

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  مَنْ أُلْهِمَ خَمْسَةٌ لَمْ يُحْرَمْ خَمْسَةٌ  مَنْ أُلْهِمَ الدُّعَاءَ لَمْ يُحْرَمِ الإِجَابَةَ، لأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: {ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ} [غافر: 60] ، وَمَنْ أُلْهِمَ التَّوْبَةَ لَمْ يُحْرَمِ التَّقَبُّلَ، لأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: {وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ} [الشورى: 25] وَمَنْ أُلْهِمَ الشُّكْرَ لَمْ يُحْرَمِ الزِّيَادَةَ، لأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: {لَئِنْ شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ} [إبراهيم: 7]  وَمَنْ أُلْهِمَ الاسْتِغْفَارَ لَمْ يُحْرَمِ الْمَغْفِرَةَ، لأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: {اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا} [نوح: 10]  وَمَنْ أُلْهِمَ النَّفَقَةَ لَمْ يُحْرَمِ الْخلفَ، لأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: {وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ} [سبأ: 39]

کنزالعمال:جلد ہشتم:حدیث نمبر 4513  ۔جامع الحدیث علامہ جلال الدین سیوطی  ۔ الأحاديث المختارة علامہ الضياء المقدسی۔ رواہ ابن النجار الضیاء المقدسی

حضرت انس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : جسے پانچ چیزیں الہام کی گئیں وہ پانچ چیزوں سے محروم نہیں ہوتا :

  1. جسے دعا الہام کی جائے وہ دعا کی قبولیت سے محروم نہیں ہوتا چونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ تم لوگ مجھ سے دعا کیا کرو میں ضرور قبول کروں گا۔
  2. جسے توبہ الہام کی جائے وہ قبولیت سے محروم نہیں ہوتا چونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ اللہ وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا۔
  3. جسے شکر کی توفیق مل جائے وہ عطائے مزید کے بغیر نہیں رہتا چونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے۔ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ اگر تم شکر ادا کرو تو میں تمہیں زیادہ دوں گا ۔
  4. جسے استغفار کی توفیق مل جائے وہ استغفار سے محروم نہیں ہوتا چونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا ۔ اپنے رب سے بخشش مانگو وہ بخشنے والا ہے۔
  5.  جسے خرچ کرنے کی توفیق مل جائے وہ اپنے بعد ذکر خیر سے محروم نہیں رہتا چونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے۔ وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ، تم جو چیز بھی خرچ کرو گے وہ اپنا بدلہ ضروردے گی۔

الہام کے معنی (دل میں ڈالی) جو “عَلی ما أَلْهَمَ” سے ماخوذ لفظ “الہام” ہے
الہام ” لھم” کے مادہ سے نکلنے کے معنی میں ہے، “لَهِمَ الشّى‌ء لَهماً: اِبْتَلَعَهُ بِمَرَّة”۔ الہام خاص تفہیم ہے اللہ کی طرف سے یا اس فرشتہ کی طرف سے جسے اللہ نے حکم دیا ہے۔ امام راغب کا کہنا ہے کہ الہام دل میں کسی چیز کا القاء کرنا ہے اور اسے اللہ کی طرف سے اور ملاء اعلی سے ہونا چاہیے جیسے رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: “إنّ روح القدس نفث في روعي[المفردات في غريب القرآن]”۔اور علامہ ابن منظور لسان العرب میں فرماتے ہیں الإِلْهَامُ أَن يُلْقِيَ اللَّهُ فِي النَّفْسِ أَمراً يَبْعَثُه عَلَى الْفِعْلِ أَو التَّرْكِ (لسان العرب) یعنی اللہ تعالیٰ کا نفس میں ایسا خیال پیدا کردینا جس کے باعث وہ کسی کام کو کرے یا ترک کردے الہام کہلاتا ہے۔ الہام سے مشتق لفظ قرآن کریم میں صرف ایک بار ذکر ہوا ہے: “فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا”[ الشمس:8]، “پھر اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری کا الہام (القاء) کیا”۔ البتہ قرآن کریم میں الہام یا دل میں القاء ہونے کو بھی وحی کہا گیا ہے جیسا کہ حضرت موسی (علیہ السلام) کی والدہ کو الہام ہوا[القصص:7،طٰہٰ:38،39]، ایسے مقامات پر وحی کے لغوی معنی یعنی اطلاع اور خفیہ تفہیم مراد ہے، جیسا کہ جو الہام حضرت خضر[الکہف:65] اور حضرت ذوالقرنین[الکہف:83،98] کو ہوا ہے۔
وحی نبوت سے مختص ہے اور الہام کا اولیاء اللہ سے تعلق ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں