حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آرام فرما رہے تھے کہ اچانک کسی نے آپ رضی اللہ عنہ کو بیدار کر دیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ادھر ادھر دیکھا تو ان کو کوئی شخص نظر نہ آیا۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ایک شخص دروازے کی آڑ میں اپنا منہ چھپائے کھڑا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا:” میرا نام ایک زمانہ جانتا ہے۔ میں بد بخت ابلیس ہوں۔“ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:”اے ابلیس تو نے مجھے کیوں جگایا؟ اس نے کہا: اے امیر! نماز کا وقت تنگ ہوتا جارہا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کو مسجد کی طرف جلد دوڑ کر جانا چاہیئے۔ قبل اس کے کہ وقت نکل جائے ۔ آپ نے فرمایا: ہرگز یہ غرض تیری نہیں ہوسکتی کہ تو خیر کی طرف بھی رہنمائی کرے۔ میرے گھر میں چور کی طرح گھس آیا اور کہتا ہے کہ میں پاسبانی کرتا ہوں بھلا میں چور کی بات پر کیسے یقین کر سکتا ہوں اور تو میرا بہی خواہ کب ہوسکتا ہے۔ : ابلیس نے کہا ہم کبھی فرشتوں میں شامل رہے ہیں اور اطاعت کے راستے کو دل و جان سے طے کر چکے ہیں سفر کرتے ہوئے کوئی خواہ کہیں چلا جائے وطن کی محبت اس کے دل سے کب جاسکتی ہے۔ ہم بھی خدا کے دریائے رحمت سے پانی پی چکے ہیں اور اس کی رضا کے باغ کی سیر کر چکے ہیں کبھی ہم بھی اس کی درگاہ کے عاشق تھے۔ اگر اس کے دریائے کرم نے مجھ پر عتاب کیا تو پھر کیا ہوا
حضرت امیر معاویہ نے فرمایا ”اے راہزن مجھ سے بحث مت کر تجھ کو میرے اندر گمراہ کرنے کا راستہ نہیں مل سکے گا۔ میرے اندرراستہ مت ڈھونڈ سچ سچ بتا که تو نے مجھے نماز کے لئے کیوں بیدار کیا تیرا کام تو گمراہ کرنا ہے۔ اس خیر کی دعوت میں کیا راز ہے۔ جلد بتا!!؟ ابلیس نے کہا: ”بدگمان آدمی تو سچی بات کو سو دلیلوں کے با وجورتسلیم نہیں کرتا میراقصور صرف یہ ہے کہ ایک بدی کر بیٹا اور دنیا میں بدنام ہوگیا۔ حضور! اصل بات یہ ہے کہ اگر آپ رضی اللہ عنہ کی نمازفوت ہو جاتی تو دنیا آپ رضی اللہ عنہ کی نگاہوں میں تاریک ہو جاتی تو آپ رضی اللہ عنہ شدیدغم اور صدمہ سے رورو کر نڈھال ہو جاتے آپ رضی اللہ عنہ کی یہ آہ وزاری دل کا سوز و گداز اور درد و نیاز سونمازوں کے ثواب سے بڑھ جاتا۔ آپ کے قرب اعلی کے خوف اور حسد نے مجھے آپ رضی اللہ عنہ کو بیدار کرنے کے لئے آمادہ کیا۔ بھلا مجھ کو یہ کب گوارا تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ اس قدر زیادہ ثواب حاصل کر لیں آپ کو جگانے کا باعث میرا یہی جذبہ حسد تھا۔ میں نے اسی خوف سے آپ رضی اللہ عنہ کو بیدار کر دیا تا کہ آپ رضی اللہ عنہ کی آہ و بکاء مجھے جلا نہ دے۔ میں انسان کا حاسد ہوں میں اس کا بھلا کیسے سوچ سکتا ہوں اسی حدسے میں نے ایسا کیا ہے۔ میں انسان کا دشمن ہوں میرا دل یہ کیسے گوارا کرے کہ اسے کوئی فائدہ پہنچے ۔
گفت اکنوں راست گفتی صادقی از تو این آید تو این را لائقی
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:” ہاں اب تونے اصل بات بتائی۔ دراصل تو نہیں چاہتا کہ میں خلوص اور درد کے ساتھ اللہ تعالی کے حضور گڑ گڑ اؤں اور اپنی آنکھوں سے ندامت اور پشیمانی کے آنسو بہاؤں کیونکہ اس آہ وفغاں کا حق تعالی کے نزدیک بہت بڑا درجہ ہے۔
ثمرات:. شیطان، انسان کا کھلا دشمن ہے اس لئے ہرلمحہ اس سے چوکنے رہو!