چنبیلیوں کا شہر

چنبیلیوں کا شہر

غزل

 جب درد نہ ہودل میں تو لذت نہیں ملتی  یوں بیٹھے بٹھائے ہی یہ دولت نہیں ملتی

 اس کا تو تعلق ہے بہر طور ولوں سے بازاری دکانوں سے محبت نہیں ملتی

 پڑتی ہوئی لگتی ہیں تعلق میں دراڑیں  جس روز ترے لب پر شکایت نہیں ملتی

مل جاتے ہیں چوروں کو سر راہ خزانے مزدور کو محنت کی بھی اجرت نہیں ملتی

 اللہ کی یکتائی پر دال نہیں کیا یہ  انسان کی انسان سے صورت نہیں ملتی

پہچان کا پیمانہ نیا ڈھونڈنا ہو گا  اب آنکھیں تو ملتی ہیں بصارت نہیں ملتی

 ناصر یہ اسی ذات کا احسان ہے ورنہ  ہر ایک کو ہر گام پر شہرت نہیں ملتی

غزل

 لمحوں کو نہ پابند رفتار کیا جائے کیوں اور سفر اپنا دشوار کیا جائے؟

تاریک فضاؤں کو سورج کا بدل کہہ کر اب اور نہ موسم کوبیمار کیا جائے

حجرے میں بھی باتیں کیا دال نہیں اس پر؟  واعظ کوسر ممبر سنگ سار کیا جائے

شاید کہ کمی آئے نفرت کے اندھیروں میں  سورج کی طرح روشن کردار کیا جائے

 سکھلایا سبق ہم کو سرکار دوعالم ﷺ نے چھپ کر تو نہ دشمن پر بھی وار کیا جائے

 پڑنے جو نہیں دیتا جھگیوں پر کرن کوئی  ہر ایک محل ایسا مسمار کیا جائے

سوئے ہوئے لوگوں کو جھنجھوڑتے رہنے سے  سوئے ہوئے ذہنوں کو بیدار کیا جائے

 ناصر یہ محبت ہی ہے سفر أجالوں کا  پھر کیوں نہ محبت کا پرچار کیا جائے

غزل  

پستیوں کو ارتقا کہتے رہے تھی گھٹن لیکن ہوا کہتے رہے

ہم نے مقصد پر توجہ دی نہیں کربلاتھی کربلا کہتے رہے

آج تک سوچا نہیں سمجھا نہیں اصل کیا تھا اور کیا کہتے رہے

دل میں کتنی نفرتیں اگتی رہیں کر بھلا ہو گا بھلا کہتے رہے

 ہم قصیدہ دوسروں کی مرگ پر اپنے ہی مرحوم کا کہتے رہے

جانے والے پر اٹھائیں انگلیاں آنے والے کو خدا کہتے رہے

 ہو گیا جس وقت کوئی سانحہ کیوں ہوا کیسے ہوا کہتے رہے

چور کا ہم نے تعاقب کب کیا یہ گیا اور وہ گیا کہتے رہے

آج تک نہ مارا ناصر سانپ تھا رے سانپ تھا  کہتے رہے

غزل

مانند وہ ہوا کے مجھے چھوڑ کر چلا گیا خوشبو تھا وہ دماغ کے اندر چلا گیا

تصویر کے نصیب میں اس کی کھنک کہاں؟ بت کو یہیں پر چھوڑ کے کافر چلا گیا

 وہ تھا اسی کے نام پر اک جام آخری جس کو لگا کے آج وہ ٹھوکر چلا گیا

جھکنا کسی کے سامنے گویا تھی خود کشی محسوس یوں ہوا کہ مرا سر چلا گیا

پھر اس کے بعد ہم بھی گھر کے نہیں رہے مہماں وہ ایک رات کا جب گھر چلا گیا

آنکھیں کھلیں تو صرف تھا بکھرا ہوا بدن جانے کہاں وہ خواب کا منظر چلا گیا

دل میں دوبارہ وہ کبھی ناصر نہ آ سکا جو شخص اس مکان سے باہر چلا گیا

غزل

 خوشبو، وفا کے پھول کی آواز میں ملا مگر کوئی میرے پیار کے تو ساز میں ملا

اس گلستاں کو دیکھنا چاہوں سدا بہار انجام کا سرور بھی آغاز میں ملا

ہر چاند کے نصیب میں ہوتی ہے چاندنی میری نظر کا حسن بھی انداز میں ملا

شاید تجھے نہ چاٹ لے کافر نظر کوئی میری نیاز بھی ذرا اس ناز میں ملا

وہ راز راز ہی نہیں پا لے جو دوسرا بھولے سے بھی نہ غیر کو اس راز میں ملا

تلوار کی مثال ہے تحریر کا مزاج لہجے کی یار چاشنی الفاظ میں ملا

 عجلت کے بعض فیصلے آتے ہیں کاٹنے ناصر سبق یہ پیار کے آغاز میں ملا

غزل

سفر کا سلسلہ باندھا گیا ہے مرے پیروں سے کیا باندھا گیا ہے

سمندر اور کاغذ کی یہ ناو ہواؤں سے دیا باندھا گیا ہے

کھلیں گے ٹہنیوں پر بھی شرارے کہ لو کو بھی صبا باندھا گیا ہے

لٹیرے محتسب ہیں یا الہٰی ! اندھیرے کو ضیا باندھا گیا ہے

کھلا چھوڑا گیا چوروں کو لیکن محافظ کا گلا باندھا گیا ہے

ہلا اب تک نہیں عرش معلی مرا حرف دعا باندھا گیا ہے

 مجھے انسان سے شکوہ یہی ہےکہ انساں کو خدا باندھا گیا ہے

خطاآنکھوں نے کی یا دل نے کی ہے مجھے دے کر سزا باندھا گیا ہے

نقيب عہد نو تھے ہم بھی ناصر ہمیں ہی بے نوا باندھا   گیا ہے

غزل

مجھے معلوم تھا یوں بھی محبت کا صلہ دے گا مجھے گزرا ہوا لمحہ سمجھ کر وہ بھلا دے گا

 اپاہج ساعتوں کو ساتھ لے کر مت سفر کرنا نہ منزل ہاتھ آئے گی نہ کوئی راستہ دے گا

 مجھے معلوم تھا اس دور میں یہ دور آنا ہے که ره ز ن لوٹ لے گا لوٹ کر پھر حوصلہ دے گا

 وفا اس کے سلیبس میں فقط اک عارضی شے ہے  مگر جو درد بھی دے گا يقينا دیر پا دے گا

 خدا کا ایک دروازہ ہمیشہ سے گھلا دیکھا خدا سے برملا مانگو تمہیں وہ برملا دے گا

ہمارے شہر کا قانون بھی آنکھیں نہیں رکھتا  جو خود اندھا ہے وہ تو تیری آنکھیں بھی بجھا دے گا

اندھیرا کس قدر ہے سیخ پا تاروں کی جھلمل پر تمہیں جلتا ہوا تاروں کی سینہ ہی پتا دے گا

ضروری تو نہیں ہر ایک در سے بھیک بھی آ ئے مگر جس در پر جائے گا گدا ناصر دعا دے گا

غزل

بے وفا کے اثر میں رہتا ہے میرا دل بھی بھنور میں رہتا ہے

 ہر خبر کے ہیں ایک سے تیور جیسے ہر اک خبر میں رہتا ہے

 آج آیا ہے پوچھنے خود وہ درد بن کے جگر میں رہتا ہے

 میرا چہرہ بھی میرا چہرہ نہیں جب سے وہ چشم تر میں رہتا ہے

نیچی پرواز رکھنے والوں کی اپنا گھر بھی نظر میں رہتا ہے

 شام لائے گی جانے کیا کیا کچھ ایک کھٹکا سحر میں رہتا ہے

اس کو گھر گھر میں ڈھونڈنے والے وہ تو تیرے ہی گھر میں رہتا ہے 

وہ ہزاروں میں رہ کے ہے یکتا سرخی بن کے خبر میں ہے رہتا ہے

وہ ہواہے ملے گا  کیا ناصر اک مسلسل سفر میں رہتا ہے

غزل

کیا کسی کاقصور ہےبھائی اپنی منزل ہی دور ہےبھائی

 تیرے سجدے بھی رشوتوں جیسے تیری نظروں میں حور ہےبھائی

رشک کرنا تجھے نہیں آتا یہ حسد تو فتور ہےبھائی

 زندگی کی رمق تو باقی ہے تیرا مرده شعور ہےبھائی

 تیرا رب تو قریب ہےتیرے  تو ہی خود اس سے دور ہےبھائی

 اس جگہ پر جو سانپ بیٹھے ہیں کچھ خزانہ ضرور ہے بھائی

یہ جو ناصر تو جھوم اٹھاہے تیرے فن کا سرور ہے بھائی

غزل

 دشمنی دشمن کرے اور دوست عیاری کرے کس سے رکھے ربط کوئی کس سے غم خواری کرے

اپنے سائے سے بھی اس کو لازی ہے احتیاط مخبری خود جس کے گھر کی چاردیواری کرے

دوستوں نے دوستی سے یوں کیا حسن سلوک  آدی کو جس طرح لاچار بیماری کرے

ہم خدا سے مانگتے ہیں بندگی کا یوں صلہ جس طرح بازار میں بیوپار بیوپاری کرے

 ایک انسان پر مسلط سو طرح کے درد ہیں  وحشتیں چاٹیں لہو اور ظلم سرداری کرے

آ گیا سوداگروں کے ہاتھ ول جیسا نگیں جس کا جی چاہے وہ آئے اور خریداری کرے

 یوں ورق گردانیاں کی ہیں کتاب حسن کی  جیسے کوئی امتحاں کی شب کو تیاری کرے

منظر ہوں میں اسی کا جس نے پھر آنا نہیں کیا خبر کہ اور کیا کیا رنگ دلداری کرے؟

اس کی ناصر إس ادا کو کیا کہوں کچھ تو کہو ٹوٹ کر چاہے بھی مجھ کو وار بھی کاری کرے

غزل

خریدی پھر پریشانی نہ جائے کہ دل کی بات ہی مانی نہ جائے

 یہ آنکھیں موند لینے سے تو ہر گز کبھی جسموں کی عربانی نہ جائے

 ڈبو سکتا نہیں طوفان اس کو جو اندر ناؤ کے پانی نہ جائے

تو کیا آباد ویرانے کرے گا اگر گھر سے ہی ویرانی نہ جائے

 امیر شہر سے الجھیں تو کیسے؟کبھی اونچی جگہ پانی نہ جائے

بجھا سکتے نہیں شعلوں کوآنسو کبھی منت سے طغیانی نہ جائے

شناسائی کریں کیا مجھ سے ناصر تیری صورت ہی پہچانی نہ جائے

غزل

اتنا پیارا وہ بار لگتا ہے ایک ٍ ہو کر ہزار لگتا ہے

روشنی کا لگا ہوا میلہ دور سے تو غبار لگتا ہے

 مفلسی کا شکار ہر بنده چلتا پھرتا مزار لگتا ہے

ہو عدالت یا کوئی تھانہ ہو ظلم پر ہی نکھار لگتا ہے

ہاتھ دل پر ہے مرنے والے کا دوستی کا شکار لگتا ہے

 خاص مہرہ ہے میرے دشمن کا وہ جو یاروں کا یار لگتا ہے

 آئینے کو نہ توڑ اے ناصر یہ تو سچ سے فرار لگتا ہے

غزل

طبیعت آج گھبرائی بہت ہے تمہارے بعد تنہائی بہت ہے

یہی میرے لیے بھائی بہت ہے غموں سے جو شناسائی بہت ہے

مرے ظلمت گزیده پیار نے ہی تمہاری ذات چمکائی بہت ہے

چلودشمن ہی وہ تسلیم کر لے ہمیں اتنی پذیرائی بہت ہے

نہیں دیتا کوئی تحفے میں غم بھی قیامت ہے کہ مہنگائی بہت ہے

 قیافوں سے وفا پائی نہ جائے کہ اس دریا کی گہرائی بہت ہے

اسے کیوں بے وفا کہتی ہے دنیا یہ دنیا بھی تو ہرجائی بہت ہے

ہے سچا قول داناؤں کا ناصر ہو یوسف سا تو اک بھائی بہت ہے

غزل

اک ہم راز نے راز ہمارا کم فہموں میں بانٹ دیا اپنے ہاتھ سے اک خزانہ خود چوروں میں بانٹ دیا

کتنے غصے سے ٹکرایا سر طوفانوں نے ساحل سے  ہم نے اپنا آپ سفینہ خود لہروں میں بانٹ دیا

آج وہ آنکھیں اور کسی کے چہرے پر آویزاں تھیں  ہم نے اپنی آنکھ کا منظر جن آنکھوں میں بانٹ دیا

کیا مل بیٹھ کر سوچیں گے ہم؟ کس نے آج کے انساں کو  پہلے بانٹ دیا نسلوں میں پھر فرقوں میں بانٹ دیا

دامن زخمی، ہاتھ بھی زخمی ، زخمی زخمی شاخیں ہیں  پتھریلاپن جانے کس نے ان پھولوں میں بانٹ دیا

دیوانے کو دیوانہ اب کہنے والا کوئی نہیں دیوانے نے دیوانہ پن فرزانوں میں بانٹ دیا

اس سے بڑھ کر اور سخاوت کیا کر سکتا ہوں ناصر میں نے اپنی شہرت کو بھی کچھ لوگوں میں بانٹ دیا

غزل

تجھ کو دل میں سنبھال رکھا ہے تیرا کتنا خیال رکھا ہے؟

 آ بھی جاؤ کہ کل کے وعدے پر موت کو ہم نے ٹال رکھا ہے

 اس کو چھونے سے لگتا ہے ایسا ہاتھ شعلوں میں ڈال رکھا ہے

 اس نے رکھ دیں جواب میں آنکھیں ہم نے جو بھی سوال رکھا ہے

یہ نہ پوچھو بچھڑتے لمحوں میں ہوش کیسے بحال رکھا ہے

زندگانی کا حسین تر لمحہ تیرے کھاتے میں ڈال رکھا ہے

میں نے ناصر کسی کے پیکر کو اپنی غزلوں میں ڈھال رکھا ہے

غزل

 آئینہ اک تیرے برابر لے آؤں تیرے لیے میں تیرا ہمسر لے آؤں

پڑ جائیں گی ماند یہ چنچل روشنیاں پہلو سے میں دل جو باہر لے آؤں

 فرعونوں کو کر دوں حوالے نیل کے میں نمرودوں کے واسطے مچھر لے آؤں

 پہن کے جو پھرتے ہیں شعلے ان کے لیے شوخ ہوا کا کوئی لشکر لے آؤں

 ہم دونوں تنہائی گزیده لگتے ہیں کاش میں اس کو اپنے ہی گھر لے آؤں

 دیکھوں تو وہ خود کتنے پانی میں ہے؟ وہ شیشہ ہے اور میں پتھر لے آؤں

کاش وہ مجھ کو کہہ دے اس کے پیکر سے ناصر اپنی غزل سجا کر لے آؤں

غزل

ایک تنکا جو سب سے کمتر ہے تیز آندھی میں سب سے بہتر ہے

چاند سے بھی ہزارہا درجہ اس زمیں کی جبیں منور ہے

جیسے میں ہی ترا پجاری ہوں جیسے تو ہی مرا مقدر ہے

تیرے سب روپ ہی نرالے ہیں تو وفاکیش یا ستمگر ہے

 ایک زردار کہ رہا تھاکل وہ ہی خوشحال ہے جو بےز ر ہے

 خود بلائیں بھی کہ رہی ہیں اب بابا دنیا بلاؤں کا گھر ہے

 آسماں سے کوئی اگر دیکھے یہ زمیں بھی تو اک سمندر ہے

سب ا جالا بھی، سب اندھیرا بھی خیروشر سب تمہارے اندرہے

 تیری نسبت نے ہی تو ہے چمکایاکوئی سرور کوئی سکندر  ہے

سادگی سے تو پیار کرناصر یہ تو انسانیت کا زیور ہے

غزل

جس وقت آنکھ آپ کی مے خانہ ہو گئی ساری فضا کی کیفیت رندانہ ہو گئی

عربانیاں بکھیرتا آیا وہ سامنے ہم سے بھی ایک لغزش مستانہ ہو گئی

اب گھومتی ہے ایک ہی شمع کے اردگرد اک شخصیت کی شاعری پروانہ ہو گئی

 ہوتا ہے سال بعد ہی اک بار سامنا اب دید کی نوید بھی سالانہ ہو گئ

 دیکھا جو اس کا عکس تو ہم جھومنے لگے بہتی ندی بھی آج تو پیمانہ ہو گئی

 اس کا خیال آتے ہی ناصر ہوئی غزل کاوش ہماری عشق کا نذرانہ ہو گئی

غزل

 ہم غریبوں کو بھی دو ون زندگانی چاہیے آخر ہم کو بھی کسی کی مہربانی چاہیے

 گونئی ہر چیز کی ہوتی ہے سج دھج بھی نئی ہم فقیروں کو وہی کٹیا پرانی چاہیے

کر لیا ہے قلب و سینہ و جگر کو داغ داغ اے غم دوراں تری کچھ تو نشانی چاہیے

 بلبل آشفته جاں کو کیا تعلق خار سے اس کو فصل رنگ و بو کی حکمرانی چاہیے

سادگی سے کون قائل کر سکے گا حسن کو اس کی محفل میں ذرا جادو بیانی چاہیے

 شد تیں ہر حال میں ہیں باعث حزن و ملال ہرو تیره زندگی کا درمیانی چاہیے

روتے روتے ہو گئے ہیں خشک چشمے آنکھ کے کشتی الفت کو ابھی تو اور پانی چاہیے

حسن یوسف اوڑھ کر آئے وہ ناصر بزم میں اب تو لازم ہے زلیخا کو جوانی چاہیے

غزل

حسرتوں میں کٹ گئے ہیں زندگی کے چار دن  خواب ہو کر رہ گئے ہیں زندگی کے چار دن

 خود سے ملنے کی فراغت بھی کسی کو اب نہیں  کس قدر مصروف ہیں ہر آدی کے چار دن

 تھے اجالوں کے تعاقب میں اندھیروں کے ہجوم  کس قدر بے کیف گزرے روشنی کے چار دن

 چلتے چلتے اک ڈگر پر زندگی اکتا گئی  تھے وہ بچپن میں عجب آوارگی کے چار دن

سیج پھولوں کی ہو یا کانٹوں کا بستر کچھ بھی ہو  کٹ ہی جاتے ہیں مری جاں ہر کسی کے چار دن

 ڈھونڈتے ہی ڈھونڈتے نت روز چہرہ اک نیا میرا کیا؟ بے کار گزرے آپ ہی کے چار دن

 دشمنی پھر دشمنی ہے روشنی پھرروشنی دشمنی میں کیوں گزاریں دوستی کے چار دن

یہ تخیل کی روانی اور جذبوں کی اٹھان کر لے ناصر ہیں یہی تو شاعری کے چار دن

غزل

 اپنے خول میں ہی چھپ جانا اچھا ہے اپنے دکھ سے دل بہلانا اچھا ہے

 کون یہاں دیتا ہے بھیک اجالوں کی؟ گھر میں اپنا ویپ جلانا اچھا ہے

کھل کر سانس بھی لینے پر ہے پابندی اس بستی سے تو ویرانہ اچھا ہے

ملاحوں کی منتیں کرتے رہنے سے طوفانوں میں ڈوب ہی جانا اچھا ہے

نفرت کی ترغیب جہاں پر ملتی ہو ایک مسجد سے مئے خانہ اچھا ہے

 دولت مندی باعث ہے بے چینی کا اور غربت کا خواب سہانا اچھا ہے

 تا کہ پھر سے بہاریں منظم ہو جائیں کہتے ہیں پت جھڑ کا آنا جانا اچھا ہے

ریشم اور کم خواب کے گاؤ تکیوں سے اپنے بازو کا سرہانہ اچھا ہے

جس میں ناصر خیمہ زن ہو بے تابی ایسے گھر کو آگ لگانا اچھا ہے

غزل

تپتے صحرا کی وہ ول کو آگ لا کر دے گیا لے کے مجھ سے باد راحت باد صرصر دے گیا

 ایک تو صورت تراشو میرے پیکر کی کوئی آزمانے کو ہمیں وہ سنگ مرمر دے گیا

 ہم جسے سوغات پھولوں کی سدا دیتے رہے جاتے جاتے وہ ہمیں نفرت کے پتھردے گیا

 دے کے مجھ کو بھیگے بھیگے آنسوؤں کے سلسلے خوش ہے لیکن جیسے مجھ کو آب کوثر دے گیا

 کون تھا جو دیس میرے کی محبت کے امیں سارے خادم لے گیا بے کار افسر دے گیا

چھین کر مجھ سے سسکتی مفلسی کی آن بان پتھروں کی سرزمیں میں شیشے کا گھر دے گیا

حالت ول ہے دگرگوں گرچہ اے ناصر مری درد پہلے سے مگر وہ مجھ کو بہتر دے گیا

غزل

 شانوں پر کسی اور کا سر اوڑھ کے چلنا دنیا میں نمائش کا ہنر اوڑھ کے چلنا

پھر آئے گا کچھ تمہیں سیر چمن کا ہمراہ صبا حسن نظر اوڑھ کے چلنا

اس حسن مجسم کی یونہی مانگ بڑھے گی تنہائی اذییت ہے مگر اوڑھ کے چلنا

ممکن ہے کہ کچھ داد سفر تم کو بھی مل جائے اے راہروو! گردسفر اوڑھ کے چلنا

 اس برف کے موسم میں ٹھٹھر جاؤ گے ورنہ تم ذوق تجسس کے شرر اوڑھ کے چلنا

کترا کے گزر جائیں گے طوفان بھی تم سے تم بحر کے سینے پر بھنور اوڑھ کے چلنا

طعنہ تو تجھے خانہ بدوشی کا ملے گا تم لاکھ یہ ٹوٹا ہوا گھر اوڑھ کے چلنا

سچ مانو یہ ہستی کی نگہبان ہے ناصر تم موت کو بے خوف و خطر اوڑھ کے چلنا

غزل

دو قدم جس سے عیادت کو بھی آیا نہ گیا اک وہی بندہ کبھی دل سے بھلایا نہ گیا

لاکھ ہونٹوں پر تبسم کے گرائے پردے اے غم یار مگر تجھ کو چھپایا نہ گیا

 بوجھ سر کا کوئی بھاری تو نہ تھا شانوں پر پست ہمت سے مگر یہ بھی اٹھایا نہ گیا

کس طرح گھر کو بسائیں گے یقیں کیسے کریں؟ عمر بھر دل کا نگر جن سے بسایا نہ گیا

ٹہنیاں کاٹ کے جو لے گئے اس کی یارو! ان کے سر سے بھی کبھی پیڑ کا سایہ نہ گیا

رکھ دیا نام جو غربت نے زمانے گزرے لوح تقدیر سے پھر اس کو مٹایا نہ گیا

 اتنے برسے ہیں ترے شہر میں پھر ہم پر تیرے دامن میں بھی سر ہم سے بچایا نہ گیا

خالی ماچس کی طرح دل کو ہے پھینکا ناصر اتنی شدت سے کہ تاعمر اٹھایا نہ گیا

غزل

لوگ ہیں کچھ بہکے بہکے آج بھی ہیں نشے میں چور لمحے آج بھی

کتنی مہنگی ہیں سکوں کی گولیاں ہیں جہاں میں درد سستے آج بھی

 آج بھی ہیں اپنے گھر تاریکیاں اس کے گھر میں چاند أترے آج بھی

کل بھی لب تھے خشک صحرا کی طرح  آ کے بادل پھر نہ برسے آج بھی

 جب بھی سورج ڈوبتا ہے یوں لگے تھک گئے ہوں آپ جیسے آج بھی

 دن دیہاڑے ڈاکوؤں کی آڑ میں لوٹ لیتے ہیں یہ رستے آج بھی

 آنکھ پانی پانی کرتی رہ گئی پی کے آنسو جلتے جلتے آج بھی

 آ کے پو چھا تک نہیں ناصر ہمیں کیسے ہو؟ وہ کاش کہتے آج بھی

غزل

اس کو دیکھا تھا لمحہ بھر کے لیے دل میں آیا تھا لمحہ بھر کے لیے

پوچھا کرتی ہے اب بھی تنہائی کون آیا تھا لمحہ بھر کے لیے؟

 روبرو تھا وہ آئینه صورت وہ بھی لمحہ تھا لمحہ بھر کے لیے

ہم کو رونا پڑا مہینوں تک جب وہ بچھڑا تھا لمحہ بھر کے لیے

درد صدیوں کے دے گیا وہ ہمیں جس کو چاہا تھا لمحہ بھر کے لیے

کتنے تارے سسکتے چھوڑ گیا چاند نکلا تھا لمحہ بھر کےلیے

رقص کرتے رہے بھنور برسوں میں تو ڈوبا تھا لمحہ بھر کے لیے

رات ساری وہ اپنی کہتا  تھا میری سنتا تھا لمحہ بھر کے لیے

آنکھیں ملتے گزر گئی اس کو دیکھا تھا لمحہ بھر کے لیے

اب بھی ہوتی ہے گد گدی لب پرگل کو چوما تھا لمحہ بھر کے لیے

گھر میں ہوتی تھی کس قدر رونق جب وہ آتا تھا لمحہ بھر لیے

 اس کو سوچا ہے مدتوں ناصر جس کو دیکھا تھا لمحہ بھر کے لیے

غزل

اشک شام و سحر بہاتا ہوں جھونپڑی میں دئیےجلاتا ہوں

 گزرے قصے سناؤں کیا تجھ کو؟ بات کرتا ہوں بھول جاتا ہوں

 شب بتانے کو دیپ اس گھر کے کچھ بجھاتا ہوں کچھ جلاتا ہوں

ایک لمحہ ہوں وقت کی رو میں دھیرے دھیرے گزرتا جاتا ہوں

 سنگ آتے ہیں ان کی جانب سے اپنی وحشت کی داد پاتا ہوں

کوئی مقصد نہیں مگر یوں ہی ان کی گلیوں میں آتا جاتا ہوں

کتنا الجھا ہوا ہوں میں ناصر ایک بنیئے کا جیسے کھاتا ہوں

غزل

راستہ کوئی بھی اس کے شہر کو جاتا نہ تھا  یا مجھے دیوانگی میں کچھ پتا چلتا نہ تھا

تجھ سے پہلے میرے گھر کا آسماں تاریک تھا تارے بھی چمکے نہ تھے اور چاند بھی نکلا نہ تھا

دھوپ سے بچنے کی خاطر میں نے سینچا پیڑ کو جس گھڑی خورشید چمکا میرے گھر سایہ نہ تھا

چھوڑ دے ان کو بھی یہ چھوڑ جائیں گے تجھے  دنیا والے ہیں یہ اے دل میں تجھے کہتا نہ تھا

بیچ ڈالی تھی غریبی کے عوض اپنی انا ورنہ میرا کوئی جذبہ اس قدر سستا نہ تھا

احتجاجاہو گئے تھے خار جاں کے درپے  انتقاما میں نے تو کلیوں کا منہ چوما نہ تھا

کر دیا تھا اس طرح تنہائی نے مجھ کو اسیر دل کسی کی محفل میں کبھی لگتا نہ تھا

کل بھی اک طوفان کی قد آوروں سے ٹھن گئی  تھا سلامت وہ شجر ہی جس کا سر اونچا نہ تھا

مفلسی نے دوستوں میں جتنا پستہ کر دیا ورنہ قدرت کا دیا تو اس قدر چھوٹا نہ تھا

 اہل زر نے آب زر سے کر لیے روشن دیئے اپنی قسمت کےدئیے میں تیل بھی جلتا نہ تھا

خط میں لکھتا تھا جو ناصر بارہا اپنا پتہ  تھا بڑا مکار وہ اس شہر میں رہتا نہ تھا

غزل

سارے فتنے شور شرابے جاگ اٹھے ہیں محشر کے جن کو باہر ڈھونڈ رہے ہو چور وہی ہیں اندر کے

آئینے کو توڑ کے جتنے ٹکڑوں میں تقسیم کیا کرچی کرچی میں بیٹھے ہیں چہرے میرے پیکر کے

آو دیکھ تو لیں میداں میں جوہر اپنے ہم دونوں ہم ہیں زخموں کے بنجارے تم ہو ماہر خنجر کے

 پیار کو رسوا کرنے والے نکلے محرم راز سبھی  لنکا ڈھانے والے ٹہرے بھیدی اپنے ہی گھر کے

 مانا آپ نہیں ہیں شامل میرے چاہنے والوں میں  پھر کیوں آپ نے کاٹے چکر برسوں میرے دفتر کے

 عشق میں کیسے بات چلے گی دنیا داری سے اے دل ہیروں کے بیوپار میں کیسے باٹ چلیں گے پتھر کے

 پھول کے نازک ہونٹوں پر بھی زخم ہزاروں جلتے ہیں  آج بھی کھیل رہے ہیں ان سے جھونکے باوصرصر کے

پت جھڑ اور بہار برابر اپنا رنگ وکھاتے ہیں دل میں ناصر اتر گئے ہیں سارے موسم باہر کے

غزل

تری چلمن سے ٹکرا کر صدا واپس چلی آئی  فلک سے آج بھی خالی دعا واپس چلی آئی

سحر دم دیکھ کر ٹھنڈے پسینے گل کے چہرے پر شکسته خواہشیں لے کر صبا واپس چلی آئی

 تمہارے لوٹ آنے سے مری گلزار سوچوں کی  مہکتی گنگناتی سی فضا واپس چلی آئی

 دم رخصت تو اس نے گو نہ آنے کا کیا وعدہ ہوئی جب شام فرقت کی بلا واپس چلی آئی

 حسیں نازک سے ہاتھوں کو دلہن کا روپ پہنانے شفق سے رنگ لے کر پھر حنا واپس چلی آئی

 یہ کیا کم ہے کہ سناٹوں کا ٹوٹا ہے جمود آخر یہ کیا کم ہے کہ پھر آہ و بکا واپس چلی آئی

 ادھر ہے تیرگی مہمان ادھر ہے روشنی رقصاں جو تھی اس کی مشیت میں عطا واپس چلی آئی

 ولوں کے ہانپتے کرب و بلا منظر پر لہرا کر  نہ برسی آج بھی ناصر گھٹا واپس چلی آئی

غزل

غم کے دریا کے پار اتر جائیں شام کہتی ہے اب تو گھر جائیں

خوشبووں کے مزاج میں ڈھل کر دشت احساس میں بکھر جائیں

خود کو تقسیم کر کے لمحوں میں شہر بے صوت سے گزر جائیں

 اگ رہے ہیں دلوں میں سناٹے اس گھٹن میں کہیں نہ مر جائیں

 ول میں بھر لیں انا کے انگارے اس سے پہلے کہ ہم ٹھٹھر جائیں

 جس کی خاطر تھا ہم نے گھر چھوڑا اس کی محفل سے اب کدھر جائیں

آؤ شب کی فصیل پر ناصر صبح رنگیں سی کوئی دھر جائیں

غزل

پت جھڑ کا بہاروں نے چمن اوڑھ لیا ہے ہم نے بھی خیالوں کا بدن اوڑھ لیا ہے

 اس دیس کی مٹی سے وفا کون کرے گا؟ لوگوں نے فقط نام وطن اوڑھ لیا ہے

 غربت میں کوئی عید نہ دہلیزر سے گزری نادار نے حسرت کا کفن اوڑھ لیا ہے

 ننگا نہیں ہونے دیا فنکار نے خود کو کپڑے نہ پہلے جب بھی تو فن اوڑھ لیا ہے

حالات نے برسائے ہیں پتھر وہ بدن پر لگتا ہے کہ زخموں کا چمن اوڑھ لیا ہے

سورج کو گوارا نہیں تاروں کا چمکنا مجبوروں نے پھر چرخ کہن اوڑھ لیا ہے

 دیکھو یہ حنا رنگ ہے خطرے کی علامت ہاتھوں پر یہ کیا تو نے دلہن اوڑھ لیا ہے؟

مالک نے چھپانے کو کریہہ اپنی شباہت مزدور سے چھینا ہوا دھن اوڑھ لیا ہے

 ناصر یوں ملی داد که محفل میں حیا سے ہر ایک سخنور نے سخن اوڑھ لیا ہے

غزل

مانگی ہوئی جنت سے ویرانہ کہیں اچھا خیرات کے جینے سے مر جانا کہیں اچھا

کم فہمی و کم عقلی داناؤں کی جب دیکھی کہنا ہی پڑا أن سے دیوانہ کہیں اچھا

دوزخ کے دہانے پر انسان ہیں کاغذ کےبے کیف حقیقت سے افسانہ کہیں اچھا

مسجد پر خدا قابض ہیں فرقہ پرستی کے اس بزم تعصب سے مے خانہ کہیں اچھا

جب کانچ کےٹکڑوں سے ہوتے ہوں بدن زخمی دل موم کی صورت سے بہلانا کہیں اچھا

 دیوانے کو کم از کم پتھر تو نہیں پڑتے اس شہر سے اے ناصر ویرانہ کہیں اچھا

غزل

 رات بھر یہ چراغ جلتے ہیں بھیگی راتوں میں داغ جلتے ہیں

 دل کو برفاب کر لیا لیکن پھر بھی سینے کے داغ جلتے ہیں

 آگ ہرسو وہ دیکھنا چاہیں جن کے اپنے دماغ جلتے ہیں

 ناتواں کا ہے یوں تواں دشمن جیسے چڑیوں سے زاغ جلتے ہیں

 اب تو پاؤں میں آبلے بن کر منزلوں کے سراغ جلتے ہیں

یونہی پت جھڑ ہے مورد الزام فصل گل میں بھی باغ جلتے ہیں

 چاند پر چاند ہے میاں ناصر یوں تو کتنے چراغ جلتے ہیں

غزل

دوستوں کے درمیاں تھا میں مگر تنہا رہا کیسی کیسی محفلوں میں کس قدر تنہا رہا

ہر گلی کوچے میں ہم نے رونقیں تقسیم کیں بد نصیبی تھی ہمیشہ اپنا گھر تنہا رہا

ہے خدا میں اور مجھ میں ایک قدر مشترک  وہ اکیلا عرش پر میں فرش پر تنہا رہا

جھومتے گاتے رہے وہ اپنی جلوت پر ادھر  اور میں بے کیف خلوت میں ادھر تنہا رہا

گو رہا چاروں طرف اس کے ستاروں کا ہجوم  چاند پھر بھی آسمان پر رات بھر تنہا رہا

شہر کے سب لوگ ناصر تھے جنازے میں شریک لاشہ دیوانے کا گر چہ دار پر تنہا رہا

غزل

 درد کا اک سلسلہ دل کے نہاں خانوں میں ہے  آج کل شامل مرا سینہ بھی ویرانوں میں ہے

 میرے ساغر کو اس سے بھر دے اے پیر مغاں دشمن جاں زہر جو اوروں کےپیمانوں میں ہے

شکوہء بے دار کیسے میں کروں حاکم کے پاس جبکہ ہر اک چور ظالم اس کے دربانوں میں ہے

 دعوت شیراز ہے اور میں ہوں دسترخوان پر ساتھ شامل یاد اس کی آج مہمانوں میں ہے

 میرےدل کی وحشتیں بھی آن پہنچیں اس جگہ ہو کا عالم اس لیے شاید بیابانوں میں ہے

 پتھروں سے آشنا رکھتے ہیں شانوں پر جو سر اس قدر فرزانگی تو اب بھی دیوانوں میں ہے

چھین لیتے ہیں درختوں سے لباس سبز رنگ  خود پرستی کس قدر کم ظرف طوفانوں میں ہے

کھول اٹھتا ہے کبھی جو ضرب استحصال سے  خون ایسا اب بھی ناصر بعض شریانوں میں ہے

غزل

 جن کے سچے اصول ہوتے ہیں  وہ وفا کے رسول ہوتے ہیں

 درد دیتا ہے داد خود جن وہ ہی آنسو قبول ہوتے ہیں

شوخ لوگوں کی شوخ آنکھوں میں دل جلوں کے سکول ہوتے ہیں

 تیرے آنے سے ایک مدت سے انتقاما ملول ہوتے ہیں

دل ہوں احساس سے تہی جن کے ان سے شکوے فضول ہوتے ہیں

 اشک بہتے ہیں جب ندامت سے رحمتوں کے نزول ہوتے  ہیں

ہم کو ہر سال عید پرناصر غم کے تحفے وصول ہوتے ہیں

غزل

کسی کا جو وسیلہ مانگتا ہے وہ طوفاں سے کنارا مانگتا  ہے

یہ ہے سادہ مزاجی  انتہا کی کہ صحراؤں سے دریا مانگتا ہے

 ملانا ہاتھ جب مفلس نے چاہاتو وہ سمجھے کی پیسہ مانگتا ہے

بڑھاپے میں وہی لوٹ آیا بچپن کہ دل کوئی کھلونا مانگتاہے

دیئے کی دیکھیے اعلى مزاجی کہ مہروماہ سے رشتہ مانگتاہے

 بتاؤں کیا کہ غربت کے قفس میں دل نادان کیا کیا مانگتا ہے

 یہ ہے انسان کی فطرت ازل سے کہ ہو جب دھوپ سایہ مانگتا ہے

کسی کٹیا میں جا کر دیکھ لینا کہ بچہ کیسے کھانا مانگتا ہے

میں وہ طوفان ہوں بپھرے جو ناصر پہاڑوں سے بھی رستہ مانگتا ہے

غزل

روشنیوں کے لالچ میں تھی آئی نظر جو سہانی آگ کر گئی وہ سب کچھ راکھ تو پھر جا کر پہچانی آگ

 اپنے گھر کا یخ بستہ سا موسم بھی اک نعمت ہے  آخر ہم خوددار بھلا کیوں جا تاپیں بیگانی آگ؟

ایک سے بڑھ کے ایک کرشمہ اس دنیا میں دیکھا ہے  دیکھ کے تیرے رخ کا شعلہ ہو گئی پانی پانی آگ

 بولو تم کس آگ سے اپنے گھر کو اور جلاؤ گے ایک دیار غیر کی ہے اور ایک ہے پاکستانی آگ

 میں تو اپنی ریت کے تنکوں سے اس کو بہلاؤں گا جانے والا چھوڑ گیا ہے فجر کی ایک نشانی آگ

جب دیوار ودر بھی ہمارے مقصد میں ناکام ہوئے  اپنے گھر کو اپنے ہاتھ سے ہم کو پڑی لگانی آگ

 اس کو خود بھڑکانے والا ہی اس میں جل جاتا ہے شعلوں کے ہو روپ میں یا پھر ہو کوئی برفانی آگ

 آج کی آگ بھی اور ہے ناصر ہم بھی لوگ ہیں اور کوئی  وہ بھی اور تھا جس کی چتا میں کرتی رہی مہمانی آگ

غزل

آج نہیں تو کیا ہے ناصر ہم بھی تھے خودار کبھی  اپنے پاس بھی تھی اک دنیا، تھا اپنا گھر بار کبھی

میں نے پوچھا ان کھنڈروں سے کچھ تو اپنی تم بھی کہو  وہ بولے ہم وہ ہیں جہاں پر لگتے تھے دربار کبھی

 ول پر سلگتے زخم سجا کر میں اس آس پر زندہ ہوں یہ بھی پھول بنیں گے اک دن بانٹیں گے مہکار کبھی

 ہر بوٹے کے قدموں میں جو ہیں بوسیدہ پھول پڑے غور سے دیکھو إن چہروں پر تھی قربان بہار کبھی

یاد کرو جب ہجر کے لمحے دیپک چھیڑا کرتے تھے میری یاد میں آپ کی آنکھیں گاتی تھیں ملہار کبھی

ان لفظوں کے اندر ہوتے ہیں تخریب کے شعلے بھی قاتل چور بنا دیتے ہیں لوگوں کو اخبارکبھی

دیکھو یہ جو سر بکھرے ہیں وقت کے قبرستانوں میں  یہ وہ سر ہیں جن پر رہتی تھی اجلی دستارکبھی

 فرش پر چلنے والے شاعر کو معراج بھی ہوتی ہے لے جاتی ہے عرش پر ناصر سوچوں کی رفتار کبھی

غزل

جنت ہے مگر جنت اشجار کہاں ہے  اس دھوپ میں اب سایہ  دیوار کہاں ہے

دیوانہ سر راه کوئی پوچھ رہا تھا  اے شہر ستم بول تیری دار کہاں ہے

افسوس! مرے بعد کہا چارہ گروں نے  لاو تو ذرا سامنے بیمار کہاں ہے

جس میں کہ مرے قتل کی روداد چھپی تھی  کل شام کا اے دوست وہ اخبار کہاں ہے

 تم نے تو اسے شہر میں خود بیچ دیا تھا اب ڈھونڈ رہے ہو کہ وہ دستار کہاں ہے

 جلوے تو ہر اک گام پر موجود ہیں ناصر ہر دل میں مگر خواہش دیدار کہاں ہے

غزل

 شہر میں مہکا ہوا موسم اترتا دیکھتے گر شکسته ول گلابوں کو نکھرتا دیکھتے

 کر نہیں سکتے ہیں جو سچائیوں کا سامنا وہ بھلا خورشید کو کیسے ابھرتا دیکھتے

 خود کو تم محصور پاتے آگ کے ماحول میں  کاش بے کل رتجگوں کو آہیں بھرتا دیکھتے

 ڈوبنے کے بعد تھا بے حد ضروری تیرنا  لاش پر کب تک بھنور کو رقص کرتا دیکھتے

آئینہ بھی سوچتا ہم کو رقیبوں کی طرح ہم جو تجھ کو آنکھ سے بنتا سنورتا دیکھتے

 کاسہ لیسی کا جنوں چن کو رہا ناصر سدا  وہ ہما کو کیسے سر پر سے گزرتا دیکھتے

کیوں ہم پہ  تری ذات کے تیور نہیں کھلتے  یہ کیسی قیامت ہے کہ منظر نہیں کھلتے

 ہم نے تو زمانے سے ہی درس لیا ہے دولت جو نہ ہو پاس توافر نہیں کھلتے

 شکوہ نہیں یاروں سے کہ وہ کھلتے نہیں ہیں رونا تو یہی ہے کہ وہ کھل کر نہیں کھلتے

 ہر شخص کے یہاں دولت ادراک نہیں ہے ہر شخص پر ہر شخص کے جوہر نہیں کھلتے

 اس گھر میں اترتے نہیں رحمت کے اجالے  جس گھر میں مناجات کے دفتر نہیں کھلتے

 اس شہر میں ناصر نہ صدا دے کسی در پر یہ ایسے دریچے ہیں جو اکثر نہیں گھلے

غزل

راتوں کی بانجھ کوکھ سے سورج نکال کے  رکھوں گا اپنی زیست کے رستے أجال کے

 میرے تصورات کی ناؤ بھنور میں ہے  تم تو چلے ہو آنکھ کا دریا اچھال کے

 فاقے پہن کے منگتوں کی پوری کریں مراد یہ مرتبے ہیں صرف محمد ﷺ کی آل کے

 یاروں کے جور میں بھی مروت غضب کی ہے مجھ کو جلا رہے ہیں جو سائے میں ڈال کے

 نیندوں کی وادیوں میں بھی آ کے دیکھئے  ہم نے محل بنائے ہیں خواب و خیال کے

 في الحال لفظ ہجر کی تفسیر کیجئے پہلو ہیں اور بھی کئی میرے سوال کے

 تاریک راستوں میں یہ چمکیں گے رات بھر رکھنا ہماری یاد کے جگنو سنبھال کے

 ناصر سنا سنا کے جدائی کے واقعات تو نے گنوا دیئے سبھی لمحے وصال کے

غزل

وہ خود ہی کہیں پیار کا اظہار نہ کر دے مجھ کو کسی الجھن میں گرفتار نہ کر دے

تقدیر کے پتھراؤ سے دل ڈول رہا ہے ٹکڑے مری تدبیر کا شہ کار نہ کر دے

پیروں میں بھنور باندھ کے اب دھڑکا لگا ہے یہ رقص ہی طوفان کو بیدار نہ کر دے

دن رات عیادت کو مری آپ کا آنا  ڈرتا ہوں کہیں آپ کو پیار نہ کر دے

شعلہ سا لپکتا ہے کوئی اس کی ادا سے  وہ راکھ مری سوچ کا انبار نہ کر دے

 زخمی نہ کرو روح کو لہجے کی چھری سے یہ زخم تجھے اور بھی خوں خوار نہ کر دے

 پھر آج وہ نکلا ہے مری ذات پہن کر پھر کوئی تماشہ سر بازار نہ کر دے

ناصر ہے ترا آج بھی بے باک سا لہجہ ٹکڑے ترے پیکر کے یہ تلوار نہ کر دے

غزل

مال و دولت کے پجاری باوفا ہوتے نہیں دل کے چھوٹے لوگ اکثردلربا ہوتے نہیں

اتنی جلدی طے کرو مت دوستی کے مرحلے ایسے رشتوں کے حوالے دیر پا ہوتے نہیں

 یاد آتے ہیں مگر کتنی کفایت اوڑھ کر ایسے لمحے مجھ سے تو صرف دعا ہوتے نہیں

 ہم فقیروں کو جھڑکنا آپ کی عادت سہی یہ ہمارا ظرف ہے کہ ہم خفا ہوتے نہیں

ٹہنیوں سے کہہ رہے تھے گلستاں میں خار یہ کیجئے ہم سے محبت ہم جدا ہوتے نہیں

 ایسے چہرے شہر میں تم کو دکھا سکتا ہوں میں آشنا لگتے تو ہیں پر آشنا ہوتے نہیں

 آ گئے ہو سامنے تو ٹھہر بھی جاؤ ذرا خوبصورت حادثے نت رونما ہوتے نہیں

کچھ یقینا مجھ سے کہنا چاہتا ہے تو مگر خوف کس کا ہے کہ تیرے ہونٹ وا ہوتے نہیں

 ایسے ایسے ولولے بھی دل میں ہوتے ہیں نہاں  لوگ جن سے خود بھی ناصر آشنا ہوتے ہیں

غزل

 دہلیز بلوغت پر ہنر پہنچ گیا ہے صد شکر کہ گھر والا بھی گھر پہنچ گیا ہے

 لگ جائے نہ موسم کی نظر اس کو خدایا اب اپنی جوانی کو شجر پہنچ گیا ہے

پھر سونگھتی پھرتی ہیں گدھیں باس لہو کی لگتا ہے کوئی سولی پر سر پہنچ گیا ہے

 دھرتی کو اندھیروں کے سمندر میں ڈبو کر مہتاب کی دنیا میں بشر پہنچ گیا ہے

رستوں کا شناسا ہوں مگر رستہ نہیں ملتا انجام کو شاید یہ سفر پہنچ گیا ہے

 آئی ہے مری اپنی صدا مجھ سے لپٹنے پھینکا تھا کدھر پتھر کدھر پہنچ گیا ہے

چھٹی ہوئی دنیا سے خلوص اور وفا کی اب گھر میں فقیروں کے بھی زر پہنچ گیا ہے

ملاح نے چھوڑا بھی تو چھوڑا کہاں پر جب ناؤ کے پہلو میں بھنور پہنچ گیا ہے

 بندوق کا کلچر تو لٹیروں کا تھا پہلے اسکول کے بچوں میں مگر پہنچ گیا ہے

 گزرے گا نہ اب کوئی بھی آئینے بچا کر دیوانہ سر راہ گزر پہنچ گیا ہے

 اس بھیڑ میں کچلے ہی نہ جائیں ناصر اب شہر کے ماحول میں ڈر پہنچ گیا ہے

غزل

نوا کوئی نہیں لیکن نوا کا شور سنتا ہوں میں اپنی روح میں تیری صدا کا شور سنتا ہوں

 یہاں کے لوگ حامل ہیں نہ جانے کس عقیدے کے فضائے بت کدہ میں یاخدا کا شور سنتا ہوں

خیال آتا ہے تجھ کو آزماؤں کچھ طلب کر کے فقیروں سے میں جب تیری عطا کا شور سنتا ہوں

خدا سے خیر مانگو اپنی بستی کے چراغوں کی  میں پھر گلیوں میں باہر کی ہوا کا شور سنتا ہوں

کیا ہے چور پھرکاسہ کوئی تیری بخیلی نے میں پھر تیری گلی میں اک گدا کا شور سنتا ہوں

ضرورت کی چٹانوں سے کہیں ٹکرا گئی ہو گی  میں ناصر آج پھر زخمی انا کا شور سنتا ہوں

غزل

بڑی مشکل سے دل بستی میں میرا ناز نیں آیا خدا کا شکر ہے اپنے مکان میں وہ مکیں آیا

ہزاروں رنجشیں، شکوے، گلے ہوں گے اسے مجھ سے مگر جس کام سے آیا شہر میں وہ یہیں آیا

مری ہر سانس کو اس نے مہک اپنی پلا دی ہے  لیا جب سانس تو ایسا لگا میرا حسیں آیا

مرے جذبوں کی سچائی کا شاید یہ کرشمہ ہو کہ اس نے جھوٹ بھی بولا مجھے فورا یقیں آیا

لبوں پر مسکراہٹ تھی نہ آنکھوں میں چمک پہلی  وہ پھر اس بار محفل میں مری خاطر نہیں آیا

 بھلا آنکھوں کے جھرنوں سے بھی دل سیراب ہوتا ہے؟  یہ دریا تو کبھی اپنے کناروں تک نہیں آیا

غزل

مہکے ہوئے ہیں راستے خوشبو ہے آس پاس  جیسے خیال میں ترا گیسو ہے آس پاس

فرقت کی رات دیتی ہے قربت کے ذائقے چنبیلیوں کا شہر ہے یا تو ہے آس پاس !

 سورج نگل لیا ہے ہواؤوں نے جس طرح صحن چمن ہے اور بہت لو ہے آس پاس

 جنگل میں جا کے رہزنوں سے لی پناه آج پھر بھی دل و نگاہ کا ڈاکو ہے آس پاس

سنتی نہیں ہے اپنی تو صبر و سکون سے  کیسا تمہاری یاد کا جادو ہے آس پاس

 جن کا قصاص، کوئی بھی لینے نہ آئے گا قانون قتل بے کساں لاگو ہے آس پاس

 کانوں میں ایک گونج ہے، ضرب الست کی پھر سے صدائے دل نشین حق ہو ہے آس پاس

بکھری ہوئی ہے چاندنی ناصر خیال میں  پھر چاند بن کے وہ مرا خوش رو ہے آس پاس

https://archive.org/details/chanbelion-ka-shehr


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں