چہارعالم (ناسوت ملکوت جبروت لاہوت) مقامات عالم
للہ تعالی کی ذات بے چون اور بے گون ہے ، وہ حق ہے۔ اس کی ابتدا ہے نہ انتہا۔ اس کی ذات مبارکہ ما وراء الورای ہے یعنی وہ ہرگز مخلوق جیسا نہیں اس کی صفت یا فعل کو مخلوق کی صفت یا فعل جیسا نہیں گردانا جا سکتا۔ یہ معرفت خاتم مقامات ہے
ذرہ ذرہ الله کے وجُود کی نشانی ہے اِس لئے اِسے عالَم کہا جاتا ہےصوفیاء عالم (جہان) کو چار حصوں یامقاموں میں تقسیم کرتے ہیں اور ان مقاموں کے نام یوں رکھے ہیں
سالک کے قیام کی جگہ مراد ہے۔ چار منزلیں ہیں:
لغوی اور اصطلاحی معنی کے اعتبار سے ناسوت- ملکوت -جبروت-عوالم اور لابوت مرتبہ ہے
یہاں ان سے علی الترتیب مرتبہ اجسام ،مرتبہ ارواح، مرتبہ صفات اور مرتبہ ذات ہے ۔ یہ عوالم اس مرتبہ وحدت میں ایک دوسرے سے ممتاز نہیں
اول عالم ناسوت
ناسوت (نظر آنے والی دنیا،عالم انسان )بشریت ،عالم بشریت عالم اجسام ا س کائنات (جس میں ہم رہ رہے ہیں) کو عالَمِ ناسُوت یا عالَمِ وجُود کہا جاتا ہے. اسکا دائرہ تحت الثری سے پہلے آسمان تک ہےعالَمِ ناسُوت، عالَمِ حیوانات ہے. اِسکا فعل حواسِ خَمسہ سے ہے۔اس کا تعلق عالم خلق سے هے اور یہ فانی ہے اور ان میں صفات الہیہ کی معرفت سے فیض یاب هونے کی استعداد و صلاحیت موجود هے یہ عالم علم شریعت اور اعمال شریعت کا نصاب هے
منزل ناسوت وہ ہے کہ سالک غیر حق کو فراموش کرے۔ جسم ناسوت کی منزل ہے جسے فنا کر کے سالک ملکوت کی منزل پر پہنچتا ہے جو مثالی جسم ہے۔
۔دوئم عالم ملکوت۔
۔ملکوت (امر کی دنیا )عالم فرشتگان(ملائکہ) یا عالم ارواح وعالم غیب وعالم اسماء کانام بتلاتے ہیں۔ اس کا دائرہ آسمان سے سدرۃ المنتہی تک ہے یہ مختص ہے ملائکہ ارواح اور نفوس قدسیہ کیلئے( اس وجہ سے کہتے ہیں کہ ملائکہ کی تخلیق اسی عالم میں ہوئی ہے ۔ صوفیہ کرام ” جب مُلک” اور “ملکوت ” کے الفاظ استعمال کرتے ہیں توملک سے ان کی مراد عالم شہادت اور ملکوت سے عالم ارواح ہوتی ہے ۔)
عالم ملَکوت میں نہ نفس ہے، نہ شیطان، نہ بشری طبائع اور نہ ہی طبعی حاجات ہیں. عالم ملَکوتی کی تعلیم و تربیت کا نِصاب عِلمِ طریقت ہے یعنی کسی کامِل پیر/مُرشد کے ہاتھ پر بیعت کرکے اُسکے احکام اور فرامین پر سچے دل سے عمل کرے. اعمالِ طریقت سے اُس ملَکوتی وجُود کی نمُود ہوتی ہے، جو عالَم ملَکوت میں پہنچ کر صفاتِ الٰہیہ کے ملَکوتی انوار سے فیض یاب ہوکر وہاں کے ثمر (جنتُ النعیم) سے بہرہ ور ہوتا ہےاس کا تعلق بھی عالم خلق سے هے اور یہ فانی ہے اور ان میں صفات الہیہ کی معرفت سے فیض یاب هونے کی استعداد و صلاحیت موجود هے
منزل ملکوت وہ ہے کہ یاد حق میں ہمیشہ قائم رہےجسم مثالی کی فنا کے بعد سالک جبروت کی منزل پر پہنچتا ہے جو ارواح ہیں۔
سوئم عالم جبروت
ذات صفات واجب کے اجمالی درجہ کو جبروت کہتے ہیں جبروت عربی میں جوڑنے اور ملانے کو بھی کہتے ہیں۔ اس کا دائرہ حدود سدرۃ المنتہی سے لا مکان تک ہے یہ مرتبہ مراتب الہیہ، مراتب حقی یا حقائق الہیہ (احدیت، وحدت، واحدیت ) اور مراتب کونیہ یا مراتب خلقی ( جبروت ملکوت اور ناسوت ) کے درمیان بمنزلہ پل ، سیڑھی اور واسطے کے ہے یعنی عالم امر کو عالم خلق سے جوڑتا ہے اس لیے اس کو جبروت کہتے ہیں۔ یہی مقام جبرائیل علیہ السلام کاہے جو اللہ تعالیٰ اور انبیا کے درمیان وسیلہ رہے ہیں اور عبد و معبود اور خالق مخلوق کے درمیان تعلق جوڑنے پر معمور ہیں ۔ یہ مقام عالم غیب اور عالم کثیف کے درمیان گویا ایک برزخ ( پردہ ) اور سیڑھی ہے۔
جبروت صفات الہیہ کی عظمت و جلال کے مقام کو کہتے ہیں یہ سیر و سلوک کا تیسرا درجہ ہے. یہﻋﺎﻟﻢ اﺭﻭاﺡ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻓﻌﻞ ﺻﻔﺎﺕ ﺣﻤﯿﺪہ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﺫﻭﻕ، ﺷﻮﻕ، ﻃﻠﺐ، ﻭﺟﺪ، ﺳﮑﺮ، ﺻﺤﻮ وغیرہ یہ عالم عِلمِ معرفت اور اعمالِ معرفت کا نصاب ہے. اِس نِصاب کی تدریس بھی کامِل پیر/مُرشد کے ذِمہ ہے. اعمالِ معرفت اِختیار کرکے انسان جبرُوت میں داخل ہوکر الله تعالیٰ کی جبرُوتی صِفات کی معرفت حاصل کرتا ہے اور تقدیرِ الٰہیہ کو سمجھ کر اُسکی موافقت اِختیار کرکے تسلیم و رضا کا رویہ اپناتا ہےاس کا تعلق بھی عالم خلق سے هے اور یہ فانی ہے اور ان میں صفات الہیہ کی معرفت سے فیض یاب هونے کی استعداد و صلاحیت موجود هے
منزل جبروت وہ ہے کہ سالک اپنی خودی کو فراموش کرے اور اس کی فنائیت کے بعد منزل لاہوت پر پہنچتا ہے۔
چہارم عالم لاہوت۔
لاہوت سے مراد صفات کا درجہ تفصیلی ہے( جس کی عقل و شعور سے پہچان نہ ہو سکے) ذاتِ الہٰی کا عالم ہے۔یہاں جملہ منازل اسم ذات میں ختم ہو جاتے ہیں ملاء اعلیٰ بھی کہلاتا ہے جس کا تعلق عالم غیب سے ہےجہاں جا کر سالک فنافی اللہ ہو جاتا ہے۔یعنی مفرد ومجرد ہوتا ہے۔ “لاہوت سالِکین کا سب سے اونچا مقام ہے عالَم لاہوت بے نشان ہے اپنے آپ سے قطع تعلق کرتا ہے، اُسکا تعلق عالَم اَمر سے ہے اور اُسی کو لامکاں بھی کہتے ہیں
لاہوت اعیان ثابتہ ہیں اسے منزل لابوت اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ داخلی مراتب میں ہے کہ احد یت واحدیت اور وحدت ہیں۔ اعیان مرتبہ واحدیت میں ثابت ہیں۔ اور منزل لاہوت میں سالک کی نظر ہمیشہ خالق پر رہے۔
لاہوت درج ذیل معنوں میں آتا ہے
(1) حقیقت واحد جو جمع اشیاء میں ساری ہے ۔
(2) گنج مخفی
(3) مقام فنا
(4) محویت نامه
(5) مرتبہ ذات
(6) لاہوت دراصل لاہو الاہو ہے ۔