کلمہ طیبہ لا إله إلا الله کے معنے مکتوب نمبر 3 دفتر سوم

کلمہ طیبہ لا إله إلا الله کے معنے کے بیان میں سیادت مآب میر محب اللہ مانکپوری کی طرف صادر فرمایا ہے:

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالی کا حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) لا الہ الا الله یعنی اس خدائے بے مانند کے سوا جو واجب الوجود ہے اور نقص و حدوث کے تمام نشانات سے منزه ومبرا ہے اور کوئی معبودیت (بندگی)  اور الوہیت کا استحقاق نہیں رکھتا کیونکہ عبادت جو کمال ذلت وخضوع اور انکسار سے مراد ہے اس کا مستحق وہی ہوسکتا ہے جس کے لیے تمام کمالات ثابت ہوں اور تمام نقص اس سے مسلوب ہوں اور تمام اشیاء وجود اور توابع وجود(صفات و افعال) میں اس کی محتاج ہوں اور وہ کسی امر میں کسی کامحتاج نہ ہو وہی نفع دینے والا اور وہی ضرر پہنچانے والا ہے اور کوئی شخص اس کے حکم کے بغیر کسی کونفع و ضرر نہیں پہنچا سکتا۔ ایسی کامل صفتوں والا حق تعالی کے سوا اور کوئی نہیں اور ہونا بھی نہ چاہئے کیونکہ اگر کوئی غیر کم و بیش ان صفات کاملہ کے ساتھ متحقق ہو جائے تو وہ غیر نہ ہو گا۔لان الغيرين متمایزان ولا تمایزثمة( کیونکہ دو غیر ایک دوسرے سے جدا جدا ہوتے ہیں اور اس جگہ کوئی تمیز وجدائی نہیں اور اگر تمیز کے اثبات سے غیریت کو ثابت کریں تو اس کا نقص لازم آتا ہے جو الوہیت و معبودیت (بندگی)  کے منافی ہے کیونکہ اگر تمام کمالات اس کے لیے ثابت نہ کریں اورتمیز پیدا ہو تو اس سے بھی نقص لازم آتا ہے ایسے ہی اگر تمام نقائص کو اس سے مسلوب نہ کریں تو بھی نقص لازم آتا ہے اور اگر اشیاء اس کی محتاج نہ ہوں تو ان کی عبادت کا مستحق کس لیے ہوگا اور اگر وہ کسی امر میں کسی شے کا محتاج ہوتو ناقص ہو گا اور اگر نافع وضار نہ ہوگا تو اشیاء کو اس کی احتیاج نہ ہوگی اور نہ ہی ان کی عبادت کا مستحق ہوگا اور اگر کوئی اس کی اجازت لیے بغیر اشیاء کو نفع و ضرر پہنچا سکے گا تو وہ بیکار رہے گا اور عبادت کا مستحق نہ بنے گا۔ فلا يكون الجامع بهذه الصفات الكاملة إلا واحد لا شریک له ولا يحق للعبادة إلاھو الواحد القهار (پس ان صفات کا جامع سوائے واحد تعالی کے اور کوئی نہیں اور نہ ہی کوئی اس واحدقہار کے سوا عبادت کامستحق ہے)۔

سوال: ان صفات کا امتیاز جیسے کہ ظاہر ہو چکا اگر چہ نقص کامستلزم ہے جو الوہیت اور معبودیت (بندگی)  کے منافی ہے، لیکن ہوسکتا ہے کہ وہ غیراس قسم کی اور صفات رکھتا ہو جو امتیاز کا باعث نہ  ہوں اور کوئی نقص لازم نہ آئے۔ اگرچہ ہم ان صفات کو نہ جانیں کہ کیا ہیں۔

 جواب: وہ صفات بھی دو حال سے خالی نہ ہوں گی یا صفات کاملہ میں سے ہوں گی یا صفات ناقصہ میں سے۔ بہرصورت محذور(جس سے بچا جائے)مذکور لازم ہے اگر چہ ہم ان صفات کو خاص طور پر نہ جانیں کہ کیا کیا ہیں۔ مگر اتنا تو معلوم ہے کہ دائرہ کمال ونقصان سے خارج نہیں ہیں اس صورت میں بھی نقص دامن گیر ہوگا جیسے کہ گزر چکا۔ 

دوسری دلیل حق تعالی کے غیر کی معبودیت (بندگی)  کے عدم استحکام پر یہ ہے کہ جب حق تعالی اشیاء کی وجودی ضروریات اورتوابع وجودی میں کافی ہے اور اشیاء کا نفع و ضررحق  تعالی سے وابستہ ہے تو دوسرا محض بیکار اور لاحاصل ہو گا اور اشیاء کو اس کی طرف کوئی حاجت نہ ہوگی۔ پھر عبادت کا استحقاق اس کے لیے کہاں سے پیدا ہوگا اور اشیاء ذلت و انکسار و خضوع سے کیوں اس سے پیش آئیں گی۔ کفار بدکردارحق تعالی کے غیر کی عبادت کرتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے بتوں کو اپنا معبود بناتے ہیں۔ اس خیال فاسد سے کہ یہ بت حق تعالی کے نزدیک ان کے شفیع ہوں گے اور ان کے ذریعے اللہ تعالی کی جناب میں قرب پائیں گے۔

ان بیوقوفوں نے کہاں سے معلوم کیا ہے کہ ان کو شفاعت کا مرتبہ حاصل ہو گا اور حق تعالی ان کو شفاعت کا اذن دے گا۔ صرف وہم ہی سے کسی کو عبادت میں حق تعالی کا شریک بنانا نہایت ہی خواری اور رسوائی کا موجب ہے۔ عبادت آسان امر نہیں کہ ہر سنگ و جماد (پتھر اور بے جان)کے لیے کی جائے اور اپنے آپ سے عاجز اور کمتر کو عبادت کا مستحق تصور کیا جائے۔ الوہیت کے معنی کے بغیر عبادت کا استحقاق متصور نہیں جو الوہیت کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہی عبادت کا مستحق ہے اور جس میں یہ صلاحیت نہیں یہ استحقاق بھی نہیں اور الوہیت کی صلاحیت وجوب وجود پر وابستہ ہے جو وجوب وجودنہیں رکھتا ہے۔ الوہیت کے لائق اور عبادت کا مستحق نہیں۔

عجب بیوقوف ہیں کہ وجوب وجود میں تو کسی کو حق تعالی کا شریک نہیں جانتے، لیکن عبادت میں بہت سے شریک ثابت کرتے ہیں۔ نہیں جانتے کہ وجوب وجود عبادت کے استحقاق کی شرط ہے جب وجوب وجود میں شریک نہیں تو عبادت کے استحقاق میں شریک نہ ہو گا۔ عبادت کے استحقاق میں شریک بنانا گویا وجوب وجود میں بھی شریک بنانا ہے۔ پس اس کلمہ طیبہ کے تکرار سے وجوب وجود کے شریک کی نفی کرنی چاہئے اور استحقاق عبادت کے شریک کی بھی بلکہ اس راہ میں زیادہ ضروری استحقاق عبادت کے شریک کی نفی ہے۔ جو انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کی دعوت کے ساتھ مخصوس ہے کیونکہ مخالف لوگ بھی جو انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے مذہب پرنہیں ہیں۔ دلائل عقیلہ سے وجوب وجود کے شریک کی نفی کرتے ہیں اور واحد جل شانہ کے سوا کسی کو واجب الوجود نہیں جانتے، لیکن استحقاق عبادت کے معاملہ سے غافل ہیں اور استحقاق عبادت کے شریک کی نفی سے فارغ ہیں۔ غیر کی عبادت سے پرہیز کرتے ہیں اور دیروبت خانہ کی عمارت میں سستی نہیں کرتے۔ وہ انبیاء علیہم الصلوة والسلام ہی ہیں جو بت خانہ کو گرانے اور غیر کی عبادت کے استحقاق کو رفع کرتے ہیں۔ مشرک ان بزرگواروں کی زبان پر وہ شخص ہے جوحق تعالی کے بغیر کی عبادت میں گرفتار ہے۔ اگر چہ وجوب وجود کے شریک کی نفی کا قائل ہو، کیونکہ ان کا اہتمام ماسوائے حق کی عبادت کی نفی میں ہے۔

پس جب تک ان بزرگواروں کے شرائع کے ساتھ جن میں ماسو اللہ کے استحقاق عبادت کی نفی ہے۔ متحقق نہ ہوں شرک سے نہیں بچ سکتے اور آفاقی وانفسی خداؤں کی عبادت کے شرک سے نجات نہیں ملتی کیونکہ انبیاء کی شرائع اسی مطلب کے متکفل ہیں بلکہ ان کی بعثت سے مقصود ہی اس دولت کا حاصل ہونا ہے۔ ان بزرگواروں کی شرائع کے بغیر تو حید حاصل نہیں ہوتی الله تعالی فرماتا ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ (اللہ تعالی شرک نہیں بخشتا) آیت کریمہ سے مراد وہی ہے جو اللہ تعالی جانتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ بھی ہو کہ شرائع کے عدم التزام کو نہیں بخشے گا۔ کیونکہ شرائع کا عدم التزام شرک کے لیے لازم ہے۔ پس اس آیت میں ملزوم کو ذکر کر کے لازم مراد لیا ہے۔ اس بیان سے یہ و ہم بھی دور ہو جاتا ہے جو کہتے ہیں کہ جس طرح شرک نہیں بخشا جاتا۔ باقی تمام شرعیات کا انکار بھی نہیں بخشا جائے گا تو پھر شرک کی تخصیص کی کیا وجہ ہے اور ہوسکتا ہے کہ ان یشرک به کے معنی ان یکفر به (یہ کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے ) کے ہوں ۔ کیونکہ شرائع کا انکار اللہ تعالی کا کفر و انکار ہے۔ پس نہ بخشا جائے گا اور شرک اور کفر کے درمیان خصوصی و عموم کا علاقہ ہے۔ لیکن شرک مطلق کفر میں سے خاص کفر ہے۔ پس خاص ذکر کر کے عام مراد لیا ہے۔ اس صورت میں بھی یہ وہم رفع ہو جاتا ہے کہ جس طرح شرک نہیں بخشا جائے گا باقی تمام شرعیات کا انکار بھی نہیں بخشا جائے گا۔ پھر کفر کی تخصیص کی کیا وجہ ہے۔

 جاننا چاہئے کہ حق تعالی کے غیر کے لیے عبادت کا عدم استحقاق بد یہی(ظاہر و باہر) ہے ورنہ کم از کم حدسی(سمجھدار آدمی) تو ضرور ہے۔ کیونکہ جوشخص عبادت کے معنی کو اچھی طرح سمجھے اور حق تعالی کے غیر میں بھی اچھی طرح غور کرے وہ بے توقف غیر کے لیے عبادت کے عدم استحقاق کا حکم کر دیتا ہے۔ وہ مقدمات جو اس معنی کے بیان میں لائے جاتے ہیں سب کے سب تنبیہات کی قسم سے ہیں جو بدیہیات پر دلالت کرتے ہیں۔ ان مقدمات پرنقض و مناقصہ اور معارضہ کا وارد کرنا مناسب نہیں۔ نور ایمان ہونا چاہئے تا کہ فراست کے ساتھ ان مقدمات کو سجھیں۔ بہت سے بدیہی امراست قسم کے ہیں جو نادانوں اور بے سمجھوں پر پوشیدہ رہے ہیں اسی طرح ان لوگوں پر بھی جو باطنی امراض میں گرفتار ہیں جلی اورخفی بدیہیات یعنی ظاہری اور باطنی بدیہی امر پوشیدہ ہیں۔

 سوال: مشائخ طریقت کی عبارات میں واقع ہے کہ جو کچھ تیرا مقصود ہے وہی تیرا معبود ہے اس عبارت کے معنی کیا ہیں اور وہ وجہ جوصداقت رکھتی ہے کون سی ہے۔

 جواب : شخض کا مقصود وہی ہوتا ہے جس کی طرف سے اس کی توجہ ہوتی ہے اور وہ شخص جب تک زندہ ہے اس مقصود کے حاصل کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتا اور ہر طرح کی ذلت و خواری اور انکسار جو اس کے حاصل ہونے میں پیش آتی ہے۔ برداشت کرتا ہے اور کسی طرح سستی نہیں کرتا یہی معنی عبادت میں مقصود ہے۔ جس میں کمال ذلت و انکسار پائی جاتی ہے اس سے ثابت ہوا کہ شے کا مقصود اس شے کا معبود ہوتا ہے۔ پس حق تعالی کے غیر کے معبود ہونے کی نفی اس وقت ثابت ہوتی ہے جبکہ حق تعالی کا غیر مقصود نہ رہے اور حق تعالی کے سوا کوئی اس کی مرادنہ ہو۔ اس دولت کے حاصل ہونے کے لیے سالک کے حال کے مناسب کلمہ طیبہ لا إله إلا الله  کے معنی لا مقصود إلا الله کے ہیں۔ اس کلمہ کا اس قدر تکرار کرنا چاہئے کہ غیر کی مقصودیت کا نام و نشان تک نہ رہے اور حق تعالی کے سوا اس کی کچھ مرادنہ ہو۔ تا کہ غیر کی معبودیت (بندگی)  کی نفی میں صادق ہو اور بیشمارخداؤں کے رفع کرنے میں سچا ہو۔ بیشمار خداؤں اور غیر کی مقصودیت اور معبودیت (بندگی)  کی اس قسم کی نفی کرنا کمال ایمان کی شرط ہے جو ولایت سے وابستہ ہے اور ہوائی خداؤں کی نفی کے متعلق ہے۔ جب تک نفس مطمئنہ نہ ہو جائے تب تک یہ مطلب حاصل نہیں ہوتا اورنفس کامطمئن ہونا کمال فناء و بقا کے بعد متصور ہے۔

ظاہر شریعت غراء میں جو آسانی اور سہولت اور بندوں کے (جوضیعف پیدا کیے گئے) ہیں حرج ونقصان کے رفع کرنے کی خبر دیتی ہے۔ یہ ہے کہ اگر مقصود کے حاصل کرنے میں نعوذ بالله شریعت کی متابعت کو چھوڑ دے اور اس کے حاصل کرنے میں حدود شرعیہ سے تجاوز کرے تو وہ مقصود اس کا معبود اور خدا ہوگا اور اگر وہ مقصودایسانہ ہو اور اس کی تحصیل وحصول میں منکرات شرعیہ کا ارتکاب نہ کرے۔ وہ مقصودشرعی طور پر ممنوع نہ ہوگا گویا وہ مقصود اس کے مقاصد سے نہیں اور وہ مطلوب اس کے مطالب سے نہیں بلکہ اس کا مقصود در حقیقت حق تعالی ہے اور اس کا مطلوب حق تعالی کے اوامر ونواہی۔ اس نے اس شے مقصود کے ساتھ میلان طبعی سے زیادہ تعلق پیدا نہیں کیا اور وہ بھی احکام شرعیہ کا مغلوب ہے اور حقیقت شریعت میں جو کمال ایمان پردلالت کرتی ہے غیر کی مقصودیت کے ماده کی بیخ کنی مطلوب ہے کیونکہ غیر کی مقصودیت کی تجویز میں حق تعالی کی مقصودیت کا معارضہ ہے۔ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ نفسانی ہوا و ہوس کے غلبہ کی امداد و اعانت سے غیر کی مقصودیت حق تعالی کی مقصودیت کا معارضہ پیدا کر لیتی ہے بلکہ حق تعالی کی مرضیات کے حاصل ہونے پر اس کے حاصل ہونے کو اختیار کر لیتا ہے اور ہمیشہ کا خسارہ پالیتا ہے۔

پس غیر کی مقصودیت کی نفی مطلق طور پر ایمان کے کامل ہونے میں ضروری تا کہ زوال و رجوع سےمامون و محفوظ ہو۔ ہاں بعض صاحب دولتوں کو ارادہ کی نفی اور اختیار کے رفع کرنے کے بعد صاحب ارادہ اور صاحب اختیار بنا دیتے ہیں اور اراده جزئیہ کو اس سے مسلوب کر کے کئی اراده اور اختیار کا صاحب بنادیتے ہیں۔ اس معنی کی تحقیق کسی اور مکتوب میں کی جائے گی۔ انشاء اللہ تعالی۔ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا  إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ يا الله تو ہمارے نور کو کامل کر اور ہمیں بخش۔ تو ہر چیز پر قادر ہے والسلام على من اتبع الهدى والتزم متابعة المصطفى عليه وعليهم من الصلوة والتسليمات اتمها وادومها

 اور سلام ہو آپ پر اوران  لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ23 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں