ہرحال میں تیری بھلائی

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

لا محالہ تویا مرید ہو گایا مراد اگر تو مرید ہے تو بار بردار ہے۔ اور ہر سختی اور ہر قسم کا بوجھ اٹھانے کا مکلف ہے۔ کیونکہ تو طالب ہے اور طالب کو مشقت پر مشقت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ اسے سخت جانی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ تب کہیں جا کر وہ مطلوب کو پہنچتا ہے۔ اور اپنی محبوب و پسندیدہ چیز حاصل کرنے میں کامیاب ہو تا ہے۔ 

: جان و مال، اہل و عیال پر اگر مصیبت نازل ہو توتجھے اس سے بھاگنا نہیں چاہیئے بلکہ صبر کرنا چاہیئے یہاں تک کہ یہ مصیبت خود خود دور ہو جائے سارےثقل بو جھ اور دردو آلام اٹھ جائیں۔ ساری اذ بیتیں اور مصیبتیں ختم ہو جائیں۔ اور تمام رذائل، نجاستیں، گندگیاں۔ سب محنت و مشقت ، دردو غم دور ہو جائیں اور تو خلق اور اسباب کی احتیاج سے محفوظ و ماصون ہو کر محبوبان خدا اولياء وابدال کے گروہ میں شامل ہو جائے۔ 

اگر تو مراد ہے تو مصیبت کا شکوہ نہ کر۔ اللہ تعالی کو الزام نہ دے کہ تجھے مشکلات سے سامنا ہے۔ سب مصائب تجھے مردان جفاکیش کے مراتب عالیہ تک پہنچانے کیلئے ہیں۔ 

کیا تو پسند کرے گا کہ اس اعلی مقام کو کھودے اور محبوبان خداکی فہرست میں تیرا نام شامل نہ ہو۔ کیا تو کسی ادنی مقام پر اکتفا کرنے کا خواہاں ہے۔ کہ تجھے ان بلندیوں سےمحروم رکھا جائے جن سے اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو نوازا ہے۔ اور ان خلوتوں اور نعمتوں سے تو محروم رہ جائے جن سے ان لوگوں کو نوازا گیا ہے۔ 

تو اگر پستی پر راضی ہے تو بھی وہ کریم تیرے لیے پستی کو پسند نہیں کرتا۔ ‌وَاللَّهُ ‌يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

اللہ ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے 

وہ تیرے لیے اعلی وار فع اصلح و اسنی کا اختیار کرتا ہے اور تو ہے کہ اس سے انکار کر تا ہے۔ 

اگر تو یہ کہے کہ مذکورہ تقسیم اور بیان کے مطابق مراد کومبتلائے مصیبت کرنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے حالانکہ ابتلاء تو محبت کرنے والے کیلئے ہے۔ محبوب و مراد نوازا جاتا ہے نہ کہ آزمایا جا تا ہے۔ 

تو کہا جائے گا کہ ہمارا پہلا بیان اغلب نظرئیے کو بیان کرتا ہے۔ مشہور تویہی ہے کہ محب کو آزمایا جاتا ہے لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہو تا ہے کہ محبوب کو ابتلاء و آزمائش کے کٹھن مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ 

اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ رسول اللہ ﷺ سید المحبوبین تھے۔ مگر آپ نے سب لوگوں سے زیادہ مصیبتیں جھیلیں۔ آپ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی اس کی توثیق کرتاہے

لَقَدْ ‌أُخِفْتُ ‌فِي ‌اللهِ وَمَا يُخَافُ أَحَدٌ،» وَلَقَدْ أُوذِيتُ فِي اللهِ وَمَا يُؤْذَى أَحَدٌ، وَلَقَدْ أَتَتْ عَلَيَّ ثَلَاثُونَ مِنْ بَيْنِ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ وَمَا لِي وَلِبِلَالٍ طَعَامٌ يَأْكُلُهُ ذُو كَبِدٍ، إِلَّا شَيْءٌ يُوَارِيهِ إِبْطُ بِلَالٍ میں اللہ کی راہ میں اس قدر خوف زدہ کیا گیا ہوں کہ اتنا خوف زدہ کوئی نہ ہوا ہو گا۔ مجھے راہ خدا میں اس قدر اذیتیں دی گئیں کہ اتنا کسی کو نہ ستایا گیا ہو گا۔ اور ایسا بھی ہوا کہ ) مجھ پر تیس دن اور راتیں گزر گئی مگر مجھے اور بلال کو کھانے کیلئے کوئی چیز میسر نہ آئی جسے کوئی جاندار کھا سکتا۔ سوائے اس چیز کے جسے بلال کی بغل نے چھپارکھا ہو تا تھا

 رسول اللہ ﷺ کا ایک اور ارشاد گرامی ہے۔ نَحن ‌معاشر ‌الْأَنْبِيَاء أَشد النَّاس بلَاء ثمَّ ‌الأمثل فالأمثل

سب سے زیادہ ہم گردہ انبیاء کو ابتلاء و آزمائش سے گزرنا پڑا۔ پھر درجہ بدرجہ دوسرے 

لوگ آزمائے گئے“ 

إني ‌أعرفكم بالله وأشدكم له ‌خوفامیں تم سب سے زیادہ اللہ کا عرفان رکھنے والا اور سب سے زیادہ اس سے ڈرنے والا ہوں“ 

اپنے محبوب کو کس قدر مشکلات کی بھٹی سے گزارا۔ اپنے مراد اور مطلوب کو کس قدر خوفناک حالات میں مبتلا رکھا۔ یہ سب کچھ بلاوجہ نہیں تھا۔ اس سے مقصود جنت میں اعلی و ارفع مقامات پر فائز کرنا تھا۔ جیسا کہ ہم اشارہ کر آئے ہیں۔ کیونکہ جنت میں اعلی درجات اور ارفع منازل دنیا میں نیک اعمال کی وجہ سے عطا کیے جاتے ہیں۔

دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ اوامر کی ادائیگی اور نواہی سے اجتناب کے بعد انبیاء و اولیاء کے اعمال صبر ورضاور حالت بلا میں موافقت پر مبنی ہوتے ہیں۔ پھر انہیں ان مصائب و آلام سے نجات دیگر انعام و اکرام سے ابد الآباد تک نوازا جاتا ہے۔

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 181 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں