مولانا عبدالقادر انبالوی کی طرف صادر فرمایا ہے۔
شیخ(شہاب الدین سہروردی) رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی کتاب عوارف کے دوسرے باب میں اس حدیث کے بیان میں جو رسول الله ﷺکی طرف مرفوع ہے مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ آيَةٌ إِلا لَهَا ظَهْرٌ وَبَطْنٌ، وَلِكُلِّ حَرْفٍ حَدٌّ، وَلِكُلِّ حَدٍّ مَطْلَعٌ( قرآن مجید کی ہر ایک آیت کیلئے ایک ظاہر ہے اور ایک باطن اور ہر ایک حرف کیلئے ایک حد اور ہر ایک حد تک کیلئے ایک مطلع ہے) کے بیان میں کہا ہے کہ میرے دل میں کھٹکتا ہے کہ مُطَّلَعٌ سے یہ مرادنہیں کہ صفاء فہم سے آیت کے پوشیده ستر اور بار یک معنی پر واقف ہوں بلکہ مُطَّلِعٌ سے یہ مراد ہے کہ ہر ایک آیت کے نزدیک متکلم کے شہود(مشاہدہ) پر اطلاع ہو کیونکہ ہر ایک آیت متکلم کے اوصاف میں سے کسی وصف اور اس کی لغوت میں سے کسی لغت کی امانت گاہ ہے۔ پس آیات کی تلاوت اور ان کے سننے سے نئی نئی تجلیات ظاہر ہوتی ہیں اور آئینے بن کر عظیم جلال کی خبر دیتیں ہیں۔ الى اخر ما قال في تائيد هذا التوجيه وشرحه (آخر كلام تک جواس توجیہ اور اس کی شرح میں کہی ہے) الله تعالیٰ کے کرم سے جو کچھ میرے دل میں گزرتا ہے وہ یہ ہے کہ ظہر سے مرا نظم قرآن ہے جو حداعجاز تک پہنچنے والی ہے اوربطن صفاءفہم کے اختلاف کے بموجب بار یک معنی اور پوشیده سر پر اس کی تفسیر و تاویل سے مراد ہے اور حد سے مراد مراتب کلام کی نہایت ہے جو متکلم کا شہودہے اور وہ تجلی نعتی ہے جوعظیم جلال کی خبر دیتی ہے اور مطلع وہ ہے جو ت تجلی نعتی سے برتر ہے اور وہ تجلی ذاتی ہے جو تمام نسبتوں اور اعتباروں سے خالی ہے نبی ﷺنے کلام کی حد اور اس کے نہایت کے لیے مطلع ثابت کیا۔ گویا مطلع کلام اور نہایت کلام کے ماوراء ہے اور کلام حق تعالیٰ کی صفت ہے اورمتکلم کا شہوداس صفت کے آئینے میں اس صفت کی تجلی ہے اور اس کے مراتب کمال کی نہایت ہے۔ اس تجلی کے ماوراء پر اطلاع تب ہوتی ہے جب اس تجلی سے تجلے ذاتی کی طرف ترقی کریں پس اس جگہ ذات تک پہنچنا صفت کلام کے ذریعے اورنظم قرآنی کی تلاوت کے وسیلے سے ہے جو اس صفت پر دلالت کرتا ہے۔ پس دو قدموں کا ہونا ضروری ہے ایک قدم نظم قرآنی کا جومدلول یعنی صفت کی طرف دلالت کرنے والا ہے۔ دوسرا قدم صفت کا اپنے موصوف کی طرف عارف قدس سرہ نے فرمایا ہے۔ مَشَیْتُ خُطْوَتَانِ وَقَدْ وَصَلْتَ میں دو قدم چلا اور واصل ہو گیا لیکن شیخ قدس سرہ نے صرف پہلا قدم ذکر کیا ہے اور اس سیر کو اس کے ساتھ تمام کیا ہے اور تلاوت کے فائدہ کو اسی سے مقید کیا ہے اور کچھ بیان نہیں کیا۔
سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (یااللہ تو پاک ہے ہم کو کوئی علم نہیں مگر جس قدر کہ تو نے ہم کو سکھایا بے شک تو جاننے والا حکمت والا ہے )اس کے بعدشیخ قدس سرہ نے کہا ہے کہ امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت منقول ہے کہ ایک دفعہ آپ نماز میں بے ہوش ہو کر گر پڑے جب اس کا باعث پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں ایک آیت کا تکرار کرتا رہا حتی کہ میں نے اس کو اس کے متکلم سے سناپس جب صوفی کے لیے توحید کا نور چمکتا ہے اور وعدہ وعید کے سننے کے وقت اپنے کانوں کو اس طرف لگاتا ہے اور اس کا دل ماسوی اللہ سے آزاد ہو کر اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر اور شہید ہو جاتا ہے تو اس وقت تلاوت میں اپنی اور غیر کی زبان کو حضرت موسی کے درخت کی طرح دیکھتا ہے جہاں سے اللہ تعالیٰ نے إِنِّي أَنَا اللَّهُ کا خطاب سنایا تھا جب اس کا سننا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اس کا سنانا بھی الله تعالیٰ ہی طرف ہو جاتا ہے تو اس کے کان آنکھ ہو جاتے ہیں اور آنکھیں کان بن جاتی ہیں اور اس کا علم سراسرعمل اور اس کاعمل بالکل علم ہو جاتا ہے اور اس کا آخر اول سے اور اول آخر سے بدل جاتا ہے پس جب صوفی اس وصف کے ساتھ متحقق ہو جاتا ہے تو اس کا وقت سرمدی اور اس کا شہود دائمی اور اس کا سماع ہردم نیا ہوتا ہے (ختم ہوا کلام شیخ کا )
(جب صوفی کے لیے توحید کا نور چمکتا ہے) یہ جملہ حضرت امام کے قول کا بیان ہے (متکلم سے سننے کے یہ معنی ہیں کہ جب صوفی پر توحید کا حال غالب ہو جاتا ہے اور غیر کا شہود اس کی نظر سے دور ہو جاتا ہے تو الله تعالیٰ کے سامنے اس طرح حاضر اور شہید رہتا ہے کہ جب اپنے آپ سے یا غیر سے کلام سنتا ہے تو اس کو گویا اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے سنتا ہے اور اپنی اور غیر کی زبان کو حضرت موسی کے درخت کی طرح دیکھتا ہے۔ یعنی پہلے حضرت امام جوں جوں آیت کا تکرار کرتے رہے تو اس کو اپنے نفس اور زبان سے سنتے رہے جب تکرار کرتے کرتے توحید کا حال ظاہر ہوا تو اس کومتکلم سے سنا۔ اگر چہ حضرت امام کی زبان سے صادر ہوئی تھی کیونکہ اس وقت انہوں نے اپنی زبان کو حضرت موسی کے درخت کی طرح معلوم کیا تھا گویا وہ کلام جو اس وقت زبان سے ظاہر ہوا تھا اس کلام کی طرح تھا جو اس درخت سے ظاہر ہوا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اَقُوْلُ وَبِاللهِ الْعِصْمَۃِ وَالتَّوْفِيْقِ میں کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ ہی سے عصمت وتوفيق ہے ) کہ جو کلام حضرت موسی کے درخت سے سنا گیا تھا وہ بیشک الله تعالیٰ کا کلام تھا۔ اگر کوئی اس کا انکار کرے تو کافر ہو جاتا ہے اور یہ کلام جو زبانوں سے سنا جاتا ہے۔ یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہے ۔ اگر صوفی غلبہ توحید میں اس کو اللہ تعالیٰ کا کلام خیال کرے۔ اگر کوئی اس کا انکار کر دے تو کافرنہیں ہوگا ۔ بلکہ محقق صادق ہوگا کیونکہ یہ کلام زبان کی حرکت اور مخارج کے اعتماد سے حاصل ہوا ہے اور درخت کا حال ایسا نہیں تھا۔ ان دونوں کلاموں میں بہت فرق ہے کیونکہ اول تحقیقی ہے اور دوسراتخییلی ۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ شیخ قدس سرہ نے اس جگہ توحید میں اس قدر مبالغہ کیا ہےکہ تخییلی کو تحقیقی بنادیا ہے اور غلبہ حال میں بندہ سے صادر ہونے والے کلام کو الله تعالیٰ سے صادر شده کلام کی طرح سمجھا ہے۔ حالانکہ اپنی اسی کتاب میں ایک جگہ شیخ قدس سرہ نے ان اقوال سے جو غلبہ حال کے وقت توحید والوں سے توحید کے بارہ میں صادر ہوتے ہیں۔ انکار کیا ہے اور حلول و اتحاد کی آمیزش سے ڈر کر ان کو الله تعالیٰ کی طرف سے حکایت پرمحمول کیا ہے لیکن اس جگہ حلول کی آمیزش سے نہیں ڈرا بلکہ اتحاد و عینیت کا حکم کیا ہے۔ اس مقام میں حق بات یہ ہے کہ غلبہ حال میں اتحاد وعینیت کا حکم کرنا تخییلی ہےتحقیقی نہیں۔ خواہ اتحاد ذات میں ہو۔ خواہ صفات و افعال میں۔ فَسُبْحَانَ مَنْ لَّا يَتَغَيَّرُ بِذَاتِهٖ وَلاَ بِصِفَاتِهٖ وَلَا فِيْ اَفْعَالِهٖ بِحُدُوْث ِالْأَکْوَانِ ( پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ جو موجودات کے پیدا کرنے سے ذات و صفات و افعال میں تغیر نہیں ہوتا اس کی ذات و صفات و افعال کے ساتھ کسی کی ذات و صفات و افعال متحد نہیں ہو سکتے۔ وہ مالک پاک ہے۔ جیسے کہ ہے اور ممکن ممکن ہے اور ذات وصفات و افعال میں حادث ہے۔ پس قدیم و حادث کے درمیان اتحاد کاحکم کرنا عشق کی تلوينات اور محبت وسکر(مستی) کے غلبات کے باعث ہے اور حلول کی آمیزش اور اتحاد کے گمان کے باعث کہ جس سے کفر و الحاد لازم آتا ہے۔ ان کا کوئی مواخذہ نہیں ۔ کیونکہ یہ ان کی مرادنہیں ہے اور وہ امر جوحق تعالیٰ کی پاک جناب کے لائق نہیں۔ ہرگز ہرگز ان کی مراد نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے دوست اور محب ہیں اور اس قسم کی نامناسب باتوں کے تجویز کرنے سے جو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں محفوظ ہیں ۔ لیکن جن لوگوں نے حال و صدق کے بغیر ان کی مشابہت کی اور ان کے کلام کی طرح کلام کیا اور اس سے ان کی مراد کے بر خلاف سمجھا۔ وہ الحاد و زندقہ میں پڑ گئے ۔ حتی کہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ اورممکن کے درمیان حلول و اتحاد ثابت کیا اور ممکن کے واجب ہو جانے کا حکم کیا۔ یہی لوگ زندیق (بے دین) ہیں ۔ جو اس بحث سے خارج ہیں۔ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ الله تعالیٰ ان کو ہلاک کرے یہ کدھر بھٹکتے پھرتے ہیں) پوشیدہ نہ رہے کہ شیخ قدس سرہ نے جو کچھ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کے بیان میں فرمایا ہے۔ اگر چہ اہل تلوین میں سے ان لوگوں کے حق میں صادق ہے۔ جن پرسکر اور توحيد غالب ہے۔ لیکن چونکہ امام کی شان میں میرا حسن ظن ہے۔ اس لئے میں ان کے حق میں اس امر کا صدق تجویز نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ میرے نزدیک ارباب تمکین وصحو میں سے ہیں۔ ان کے نزدیک متخیل اور متحقق ظاہر ہے اور غیر سے سننا اور حق تعالیٰ سے سننا پوشیدہ نہیں۔ امام کے کلام کیلئے اس وجہ کے سوا کوئی اور اچھا محمل(کسی معنی کے سچا ہونے کی جگہ) تلاش کرنا چاہیئے۔ جو ان کے حال کے مناسب ہو اور وہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بلا کیف سنے۔ جس طرح کہ حضرت موسی نے کوہ طور پر سنا۔ اگر تو پوچھے کہ اللہ تعالیٰ سے کلام کے سننے کے کیا معنی ہیں کیونکہ یہ جو سنا جاتا ہے۔ صرف حرف ہیں یا آواز ۔ تو میں کہتا ہوں کہ ممنوع ہے۔ کیا نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے كلام کوحرف وصوت کے بغیر کلام کوسنتا ہے۔ بندہ جب اللہ تعالیٰ کے اخلاق سے متخلق ہو جاتا ہے تو حرف وصوت کے بغیر کلام کو سنتا ہے۔ لیکن ظاہر وہم میں جو با وجود فارق کے حاضر پر غائب کے قیاس کرنے سے پیدا ہوتا ہے، محال نظر آتا ہے۔ بھلا حاضر پر غائب کا قیاس کسی طرح کیا جائے جبکہ حاضر زمانہ کی تنگی میں ہے جو مترتب وتقدم و تاخر کو چاہتا ہے اور غائب پر زمانہ اور تقدم وتاخر وترتب کے احکام جاری نہیں ہوتے۔غائب میں ان اشیاء کا ثبوت جائز ہے۔ جن کا ثبوت حاضر میں جائز نہیں۔ فَلْيَفْھَمْ وَاللهُ سُبْحَانَهٗ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ تحقیق یہ ہے کہ اگر سماع سمع کی حس کے ساتھ ہو تو ضروری ہے کہ مسموع حرف وصوت ہو لیکن جب سماع سامع کے اجزاء میں سے ہر ایک جزو کے ساتھ ہو تو حس کے ساتھ مخصوص نہیں۔ اس وقت جائز ہے که مسموع حرف وصوت کے بغیر حاصل ہو کیونکہ ہم اپنی کلیت اور اپنے اجزا میں سے ہر ایک جزو کے ساتھ ایسے کلام کو سنتے ہیں جو حروف و اصوات کی جنس سے نہیں ہیں۔ اگر چہ خیالی حروف و اصوات کے ساتھ خیال میں متخیل ہوتا ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ کلام ماخوذ مسموع یعنی ہماری کلیت سےسنا ہوا کلام پہلے حروف و اصوات سے مجرد تھا۔ پھر خیال میں خیالی حرف و صوت کے ساتھ متلبس ہوا۔ تاک فہم و افہام کے قریب ہو۔ اس کے علاوہ ہم زیادہ عجیب بات یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے کلام کو جو مترتبہ ومتقدمہ ومتاخره حروف و کلمات سے مرکب ہےسنتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا سننا حرف وکلمہ اور ترتب وتقدم وتاخر کے وسیلہ کے بغیر ہے کیونکہ مرکب ومترتب متقدم ومتاخر كلام زمانہ کو چاہتا ہے اور حق تعالیٰ پر زمانہ جاری نہیں ہوتا۔ زمانہ کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے جب حرف وكلمہ کے وسیلہ کے بغیر حروف و کلمات سے مرکب کلام کا سننا جائز ہے تو اس کلام کا سننا جو حروف و اصوات کی جنس سے نہیں ہے۔ بطریق اولی جائز ہوگا۔ فَاَفْھَمْ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْقَاصِرِيْنَ وَلَا مِنَ الْغُفَلَاءِ الْجَاھِلِيْنَ وَاللهُ سُبْحَانَهٗ الْمُلْهِمُ لِلصَّوَابِ (سمجھ اور کوتاہ فہم اور جاہل و غافل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ بہتری کی طرف الہام کرنے والا ہے) اس کلام کی تحقیق میں ان سطروں کے لکھنے کے بعد دوبارہ جو کچھ مجھے الہام ہوا ہے وہ یہ ہے کہ مستعد بندہ کا حق تعالیٰ کے خطاب کو سمجھنا اور حق تعالیٰ سے اس کا اخذ کرنا پہلے حروف و کلمہ کے واسطے اور صوت وندا کے وسیلہ کے بغیر تلقی روحانی سے ہوتا ہے۔ پھریہ معنی متلقی سلطان خیال میں جہاں تمام اشیاء کی صورتیں منقش ہیں۔ حرف وصوت کی صورت پر متمثل(کسی چیز کی مثل ہونا) ہوتے ہیں کیونکہ عالم شہادت میں افاده و استفادہ الفاظ و حروف ہی کے ذریعے سے ہے۔ اس تلقی پرسماع بلا کیف کا اطلاق کرنا بھی جائز ہے کیونکہ کلام بے کیف ہے اور ضرور ہے کہ اس کا سماع بھی بلا کیف ہو کیونکہ کیف کو مَالَا كَيْفَ فِيْهِ (جس میں کوئی کیفیت نہیں) کی طرف کوئی راستہ نہیں۔ پس ثابت ہوا کہ حروف و اصوات سے مجرد كلام کا بلا کیف سننا جائز ہے۔ پھر اس کے بعد کلام خیال میں حرف کلمہ کی صورت پرمتمثل ہوتا ہے تا کہ عالم اجسام میں بھی افاده و استفاده حاصل ہو اور جن لوگوں نے اس دقیقہ پر اطلاع نہیں پائی۔ ان حروف و کلمات کے ذریعے سے جو حادث ہیں اور اس پر دلالت کرنے والے ہیں۔ ان لوگوں کا حال اچھا ہے اور بعض نے یوں کہا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے کلام کو سنتے ہیں اور انہوں نے کچھ فرق نہیں کیا کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے اور یہ لائق نہیں یہ لوگ جاہل اور جھوٹے ہیں۔ جو الله تعالیٰ کے حق میں جائز و ناجائز کو نہیں جانتے اورحق وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں نے تحقیق کی اورشیخ قدس سرہ نے جو یہ کہا ہے کہ اس کے کان اس کی آنکھیں ہو جاتے ہیں اور اس کی آنکھیں اس کے کان بن جاتی ہیں اور اس کا اول آخر سے اور آخر اول سے بدل جاتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے کان اس کی آنکھوں کا حکم اور اس کی آنکھیں اس کے کانوں کا حکم پکڑ لیتی ہیں۔ یعنی اپنی کلیت سے سنتا ہے اور اپنی کلیت سے جانتا ہے۔ کیونکہ اگر اپنے بعض سے سنے اور بعض سے دیکھے تو اس صورت میں سمع عین بصر نہ ہوگا۔ اسی پوشیدگی کے لئے آگے بیان کیا ہے کہ اس کا آخر اول اور اس کا اول آخر ہو جاتا ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے جب ذرات کو مخاطب کر کے أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ فرمایا تو ذرات نے نہایت صفائی کے باعث بلا واسطہ اس ندا کو سن لیا۔ پھر وہ ذرات مختلف پشتوں میں بدلتے اور مختلف رحموں میں منتقل ہوتے رہے۔ حتی کہ اپنے بدنوں میں ظاہر ہو گئے۔ پس قدرت پرحکمت کا حجاب آ گیا اور مختلف اطوار و حالات میں بدلنے کے باعث ان پر بہت سی علامتیں چھا گئیں۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندہ سے حسن استماع کا ارادہ کرتا ہے تا کہ اس کو صوفی صافی بنائے ۔ تو اس کو ہمیشہ تزکیہ (رذائل سے پاک) اور تجلیہ کے رتبہ میں ترقی دیتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ عالم حکمت سے میدان قدرت کی طرف آزاد ہو جاتا ہے اور اس کی گم شده بصیرت سے حکمت کا حجاب دور ہو جاتا ہے ۔ اس وقت اس کا أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ کو سننا کشف وعیان ہوتا ہے اور اس کی توحید وعر فان سراسر بتیان و بر ہان ہوتی ہے۔
حتی کہ اس کی اپنی زبان اور غیر کی زبان بھی اس کے حق میں حضرت موسی کے درخت کا حکم پکڑ لیتی ہے۔ جس سے وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو سنتا ہے جیسے کہ حضرت موسی نے اس درخت سے اللہ تعالیٰ کے کلام کرسنا تھا پس ثابت ہوا کہ اس کا اول آخر اور اس کا آخر اول ہو جاتا ہے کیونکہ وہ آخر میں اللہ تعالیٰ کے کلام کو اس طرح سنتا ہے جس طرح اس نے اول سنا تھا۔ اس پرمحمول ہے کسی کا قول جو اس نے کہا ہے کہ میں أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ کا خطاب یاد رکھتا ہوں یعنی اس خطاب کو گویا اب زبانوں پر سنتا ہوں ۔ پوشیدہ نہ رہے کہ اللہ تعالیٰ کا پہلا خطاب حقیقی تھا اور اللہ تعالیٰ سےذرات کا سننا حقیقت کے طور پر تھا لیکن یہ خطاب جو زبانوں سے ماخوذ ومسموع ہے۔ صرف تخیل و تو ہم کے طور پر الله تعالیٰ کا خطاب ہے جیسے کہ گزر چکا پھر کس طرح ایک دوسرے کا عین ہوسکتا ہے بڑے تعجب کی بات ہے کہ شیخ قدس سرہ نے باوجود اس قدر بلندقدر کے ایک کو دوسرے کا عین بنادیا ہے اورمتحقق ومتخیل کے درمیان کچھ فرق نہیں کیا۔ حالانکہ متخیل عین سکر اور صرف توحید ہے اس کی مثال بعینہ قول أَنَا الْحَقُّ(میں خدا ہوں) اور سُبْحَانِي(میں پاک ہوں ) اور لَيْسَ فِي ْجُبَّتِيْ سَوِى اللهِ (میرے جبہ میں اللہ کے سوا کچھ نہیں)وغیرہ کی طرح ہے اور اس سے بھی بڑھ کر تعجب کی بات یہ ہے کہ شیخ نے اس کے بعد کہا ہے کہ جب صوفی اس وصف سے متحقق ہو جاتا ہے تو اس کا وقت سرمدی اور اس کا شہود(مشاہدہ) دائمی اور اس کا سماع ہر دم نیا ہوتا ہے حالانکہ صاف ظاہر ہے کہ کوئی اس مقام میں صرف تجلی معنوی صفاتی سے متحقق ہے جیسے کہ گزر چکا اور یہ مقام جوتلوین(ایک حال یا صفت سے دوسرے حال یا صفت میں تبدیل ہوتے رہنا) کا مقام ہے۔ پھر کس طرح اس کا وقت سرمدی اور شہود دائمی ہوگا کیونکہ دائمی وقت ذات تعالیٰ تک پہنچنے اور تجلی ذات میں ہوتا ہے ایسےہی شہود و مشاہدہ بھی ذات تعالیٰ تک پہنچنے والے کیلئے ہوتا ہے۔ جیسے کہ مشائخ نے فرمایا ہے اور جو کچھ مرتبہ صفات میں حاصل ہوتا ہے اس کا نام مکاشفہ ہے اور شہود اور اس کا دوام آن ارباب تمکین کا نصیب ہے جو ذات تک واصل نہ کہ اہل تکوین کا حصہ جو صفات کے ساتھ مقید ہیں کیونکہ یہ لوگ ارباب قلوب وتقلب ہیں۔ سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ( يا الله تو پاک ہے میں کوئی علم نہیں مگر جس قدر کہ تو نے ہمیں سکھایا۔ بیشک تو جاننے والا حکمت والا ہے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ355ناشر ادارہ مجددیہ کراچی