ہمیشہ وضو .Hamesha Wazoo

Ñ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَقِیمُوا وَلَنْ تُحْصُوا وَاعْلَمُوا أَنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَعْمَالِکُمْ الصَّلَاۃَ وَلَا یُحَافِظُ عَلَی الْوُضُوءِ إِلَّا مُؤْمِن

ٌ(سنن ابن ماجہ کتاب الطھارۃ وسننھا باب المحافظہ علی الوضو)

 حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ثابت قدم رہو اور تم تمام اعمال کا احاطہ نہیں کر سکتے یہ جان لو کہ تمہارے افضل ترین اعمال میں سے ایک عمل نماز ہے اور وضو کی نگہداشت مومن ہی کرتا ہے۔

 پاکیزگی و طہارت کی بڑی عظمت و فضیلت ہے۔ اسلام میں طہارت کو کیا مقام حاصل ہے اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ شریعت نے وضو کو ایمان کا حصہ، نماز کی کنجی،بدن کو ظاہری و باطنی نجاستوں سے پاکی کا ذریعہ،باوضو کی موت کو شہادت، ایمان کی حفاظت اوراسلام کا جاری طریقہ،قرار دیا ہے ۔ طہارت کوآدھا ایما ن کہنے کی وجہ ظاہر ہے کہ ایمان سے چھوٹے اور بڑے سب ہی گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اور وضو سے صرف چھوٹے گناہ ہی بخشے جاتے ہیں اس لیے طہارت کو آدھے ایمان کا درجہ حاصل ہے۔

 لغت میں ” طہارۃ” کے معنی نظافت اور پاکیزگی کے آتے ہیں جو نجاست کی ضد ہے ۔ان چیزوں کو طہورکہتے ہیں جو پاک کرتی ہیں جیسے پانی اور مٹی ۔اصطلاح شریعت میں ” طہارت ” کا مفہوم ہے نجاست حکمی یعنی حدث سے اور نجاست حقیقی یعنی ناپاکی سے پاکیزگی حاصل کرنا۔

 افضل ترین اعمال تو نماز کو کہا گیااس کے ساتھ ہی نماز کے مقدمہ اور شرط یعنی وضو اور طہارت کی طرف اشارہ فرما دیا چنانچہ ارشاد ہوا کہ وضو کی محافظت تو مومن کا خاصہ ہے اس لیے کہ مومن کامل کا قلب و دماغ توجہ الیٰ اﷲ کی شعاؤں سے ہر وقت منور رہتا ہے وہ اپنے قلب و بدن دونوں کے ساتھ یعنی ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی ہر وقت اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ بارگاہ الوہیت میں حاضری بغیر ظاہر و باطن کی صفائی و پاکیزگی اور بغیر طہارت کے آداب کے منافی چیز ہے اور شان عبودیت کے خلاف بھی ہے اس لیے مومن وضو کی محافظت کرتا ہے اور وضو کے جو آداب و شرائط اور سنن و مستحبات ہیں ان سب کی رعایت کرتا ہے۔اس حدیث مبارکہ سے یہ ظاہر ہوا کہ دائمی طور پر وضو میں رہنا مومن کیلئے افضل اور مستحب عمل ہے چاہے نماز کا وقت ہو یا نہ ہواس سے مراد وضو پر ہمیشگی اختیار کرنا ہے کیونکہ عبادت یا نمازبغیر وضو ممکن ہی نہیں وہ تو واجب ہے ۔

                فقہائے احناف رحمہم اﷲ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی قصدا ًبغیر طہارت کے نماز پڑھ لے تو یہ آدمی کافر ہو جاتا ہے، یا اگر لوگوں کی شرم کی وجہ سے محض دکھلانے کے لیے بھی بغیر طہارت کے نماز پڑھے تو بھی کافر ہو جاتا ہے کیونکہ ان دونوں شکلوں میں اس نے شرع کی تحقیر کی ہے اس لیے ایسا آدمی جو اپنے قول سے یا فعل سے شریعت کی تحقیر کا سبب بنتا ہے وہ اس قابل نہیں ہے کہ دائرہ اسلام اور ایمان میں رہ سکے۔

 وضو کو طہارت کہا گیا جسے مفتاح الصلاۃ سے یاد کیا جاتا ہے اس حدیث میں وضو پہ دوام کی فضیلت بیان کی گئی اس میں کامل ایما ن والوں کی خصلت یہ بیان کی گئی کہ وہ ہمیشہ وضو کی حالت میں ہو تے ہیں اسی لئے آیت وضو کی ابتداء ان الفاظ میں فرمائی یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کامل ایمان کی ضد نفاق ہے گویا وضو اجزائے ایمان میں سے ایک جزء بھی ہے اور دائمی طہارت کا ثمرہ یہ ہے کہ رسول ا ﷲﷺ نے اس کے حفاظت کرنے والے کے ایمان کی گواہی اس حدیث کے ذریعے فرمائی ۔

 وضو ظاہری ہویا باطنی اس کی حفاظت کرنا ایک مجاہدہ ہے جس طرح مجاہدہ کرنے والا کبھی نفس پر غالب رہتا ہے اور کبھی مغلوب ہوتا ہے استقامت اسی چیز کا نام ہے کہ کوشش میں لگے رہنا۔ جیسے ظاہری وضو نہ ہونے پر دوبارہ کرنا اہل ایمان کا شیوہ اور وطیرہ ہے اسی طرح باطنی وضو بھی یہ ہے کہ غفلت اور اﷲ سے دور ی کے بعد اﷲ کی یاد اور قرب کا ذریعہ تلاش کیا جائے اسے ہی مجاہدہ اور اس حال میں رہنے کو استقامت کہتے ہیں اطاعت و فرمانبرداری کا تقاضا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے قرب کے راستے پہ چلنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہو اس کا پہلا ادب اور ذریعہ با وضو رہنا ہے کہ دائمی اپنے بدن و قلب کو مشاہدہ حق کیلئے تیار رکھے کیونکہ کے دروازے پہ دستک دینے کیلئے پہلا ادب یہی ہے کہ ظاہری اور باطنی طہارت سے آراستہ ہو جیسے اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو فاخلع نعلیک کہہ کر اپنی بارگاہ میں حاضری کا دب سکھایا۔

                 مزیدارشاد ربانی ہے

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ( البقرۃ )

 اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور طہارت رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

 یعنی اﷲ اپنے ان بندوں کو پسند کرتا ہے جو بارگاہ الوہیت سے منہ نہیں پھیرتے اور کسی موقعہ پر اﷲ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے اور پاکیزگی و طہارت کاتوبہ کے ساتھ ہی ذکر کرنا اس لئے ہے کہ جس طرح باطنی پاکیزگی کی دولت کو حاصل کرنا ،برے اخلاق اور بد خصائل سے پاک و صاف ہونا لازمی ہے اسی طرح جسم اور اعضاء ظاہری کی طہارت و صفائی بھی لازمی ہے ہمارے اختیار میں ظاہر ی طہارت ہے اس کو ہم پورا کر یں، اب باطنی احوال کی طہارت اور اندرونی صفائی کیلئے اﷲ کے فضل و کرم سے امید وابستہ رکھیں۔

 دائمی طہارت کے بہت سے ظاہری اور باطنی فوائد وثمرات موجود ہیں امام غزالی ظاہری طہارت کو سب سے آخری درجہ میں شمار کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ

 ’’ظاہری طہارت سے ہاتھ منہ پاک ہوتے ہیں جو خلق خدا کے دیکھنے کی چیز ہے اﷲ کے دیکھنے کی جگہ دل ہے اگر باطنی طہارت( توبہ) کے ذریعے اسے پاک نہ کیا تو اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص بادشاہ کو اپنے گھر مہمان بنائے اور گھر کا دروازہ تو صاف کرے اور صحن جو اس کے بیٹھنے کی جگہ ہے گندہ ہی رہنے دے‘‘۔ (کیمیائے سعادت)

 سید عبد القادر جیلانی قدس سرہ کتاب سر الاسرار میں فرماتے ہیں

 ’’طہارت کی دو قسمیں ہیں

 ( 1)ظاہری طہارت : جس کے حاصل کرنے کیلئے شرعی پانی کا ہونا لازمی ہے ۔اور اس کیلئے دن رات میں ایک وقت مقرر ہے۔

(2) باطنی طہارت:جس کیلئے توبہ تلقین اور تصفیہ قلب ضروری ہے۔یہ طہارت اہل طریقت کے راستہ پر چلنے سے ہو تی ہے ۔جبکہ اس کیلئے دائمی وقت ہے۔‘‘

 تطہیر میں غالب پہلو ظاہری اور باطنی نجاستوں اور رذائل سے پاک و صاف کرنے کا ہے۔ جبکہ تزکیہ میں رذائل سے پاک کرنے کے ساتھ ساتھ باطنی صلاحیتوں اور خوبیوں کو نشوونما دینے۔ اور فضائل اخلاق سے آراستہ کرنے کا مفہوم بھی شامل ہے۔

َّ أَبَا الْعَالِیَۃِ رَأَی رَجُلًا یَتَوَضَّأُ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ اللَّہُمَّ اجْعَلْنِی مِنَ التَّوَّابِینَ وَاجْعَلْنِی مِنَ الْمُتَطَہِّرِین فَقَالَ إِنَّ الطُّہُورَ مِنَ الْمَاء ِ حَسَنٌ , وَلَکِنَّہُمُ الْمُطَہَّرُونَ مِنَ الذُّنُوب (مصنف ابن ابی شیبہ)

 ابو العالیہ نے دیکھا ایک شخص نے وضو کیا جب وضو سے فارغ ہو ا تو کہنے لگااِے اﷲ ! مجھے توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں میں سے بناتو آپ نے فرمایا طہارت پانی سے اچھی ہے لیکن گناہوں سے پاک رہنے والا بننے کی دعا کرو ۔

 ابو نعیم الاصفہانی حلیۃ الاولیاء میں یہ الفاظ بیان کرتے ہیں

لَیْسَ الْمُتَطَہِّرُونَ مِنَ الْمَاء ِ وَلَکِنِ الْمُتَطَہِّرُونَ مِنَ الذُّنُوب

 ( حلیۃ الاولیاء)

طہارت پانی سے کرنے والے ہی پاک نہیں بلکہ گناہوں سے پاک رہنے واے حقیقی طور پر پاک رہنے والے ہیں ۔

 اس سے صرف نظافت و پاکیزگی ہی میسر نہیں آتی بلکہ اہل ایمان کے قلب و ابدان کیلئے بہت منافع اور حکمتیں ہیں دائمی وضو کم کھانا اﷲ کا ذکر اور خاموشی اکابر اولیاء کا شیوہ اور پہچان ہے اور اسے مجاہدہ شمار کیا جاتا ہے اس باطنی حکمت کی طرف اشارہ اس حدیث مبارکہ میں ہے۔

                 ایک آدمی ازار لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر) اس سے فرمایا کہ، ” جاؤ اور وضو کرو!” وہ آدمی جا کر وضو کر آیا۔ ایک آدمی نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! آپ ( صلی اﷲ علیہ وسلم) نے اس آدمی کو وضو کرنے کے لیے کیوں فرمایا ؟ (حالانکہ وہ باوضو تھا ) آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ، وہ آدمی اپنا ازار لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا اور جو آدمی ازار لٹکائے ہوے ہو اﷲ تعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں کرتا۔

 باوجود اس کے کہ وہ آدمی باوضو تھا مگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے وضو کرنے کا حکم اس حکمت کی بناء پر دیا تاکہ وہ آدمی اس کا سبب معلوم کرنے میں غور و فکر کرے اور پھر اسے اس فعل شنیع کی برائی کا احساس ہو، نیز یہ کہ اﷲ تعالیٰ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کی برکت اور ظاہری طہارت یعنی وضو کی وجہ سے اس کا باطن غرور و تکبر کی آلائش سے پاک و صاف کر دے کیونکہ ظاہری طہارت باطنی صفائی و پاکیزگی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

طہارت کی غرض سے پانی استعمال کرنے سے بندہ کے گناہ جھڑتے ہیں۔جس سے نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہیمَنْ تَوَضَّأَ عَلَی طُہْرٍ، کُتِبَ لَہُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ(ابو داؤد الترمذی) جو شخص باوجود طہارت کے وضو کرے اس کیلئے دس نیکیاں ہیں،قیامت کے دن انہی وضو والے اعضاء کے ذریعے ہماری پہچان ہو گی ظاہر ہے کہ دائمی وضو سے یہ اعضاء زیادہ روشن ہونگے۔

 دوام وضو سے بہت سی بھلائیوں کی طرف رغبت ہوتی ہے اور بے وضو رہنابہت سی سعادتوں سے محرومی کا سبب ہے یہ ایک مستقل عبادت ہے صرف عبادت کا ذریعہ نہیں جیسا کہ اس حدیث مبارکہ سے واضح ہے

الصلاۃُ ثلاثۃُ أثلاث الطہور ثُلُثٌ ، والرکوع ثُلُثٌ ، والسجودُ ثُلُثٌ ( مسند البزار)

نماز کے تین حصے ہیں ان میں طہارت ایک حصہ ہے رکوع دوسرا حصہ اور سجدے تیسرا حصہ ہیں

تو وضو جسے تہائی نماز کہا گیا یہ اجزائے عبادت سے ایک عبادت بن گیا ۔یہ ایک مستقل عبادت ہے تبھی اس کے ساتھ سونا اجرو ثواب کا باعث ہوتاہے جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث میں فرمایا گیا

 مَنْ بَاتَ طَاہِرًا، بَاتَ فِی شِعَارِہِ مَلَکٌ لَا یَسْتَیْقِظُ سَاعَۃً مِنَ اللَّیْلِ إِلَّا قَالَ الْمَلَکُ: اﷲُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِکَ فُلَانٌ فَإِنَّہُ بَاتَ طَاہِرًا( شعب الایمان)

جو رات کو باوضو سوتا ہے ایک فرشتہ اس کیساتھ رات گذارتا ہے جب وہ رات کسی گھڑی میں جاگتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے’’اے اﷲ اپنے اس بندے کی مغفرت فرما کہ اس نے باوضو رات گذاری ہے‘‘

                 براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ جب تم سونے کیلئے اپنی خواب گاہ میں آؤ تو نماز کی طرح وضو کرو، پھر اپنے داہنی جانب پر لیٹ جاو اس کے بعد کہو اللَّہُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْہِی إِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِی إِلَیْکَ وَأَلْجَأْتُ ظَہْرِی إِلَیْکَ رَغْبَۃً وَرَہْبَۃً إِلَیْکَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْکَ إِلَّا إِلَیْکَ آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِی أَنْزَلْتَ وَنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ فَإِنْ مُتَّ فِی لَیْلَتِکَ مُتَّ عَلَی الْفِطْرَۃِ قَالَ فَرَدَدْتُہُنَّ لِأَسْتَذْکِرَہُ فَقُلْتُ آمَنْتُ بِرَسُولِکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ فَقَالَ قُلْ آمَنْتُ بِنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ․ پس اگر تو اسی رات میں مرا تو ایمان پر مرے گا اور اس دعا کو اپنا آخری کلام بنا، ۔( بخاری کتاب الوضو)

حضرت عکرمہ سے مروی ہے

: مَنْ بَاتَ طَاہِرًا عَلَی ذِکْرٍ کَانَ عَلَی فِرَاشِہِ مَسْجِدًا لَہُ حَتَّی یَقُومَ ( مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطہارات)

 جو شخص باوضو اور ذکر کرتاسوتا ہے اس کا بستراس کیلئے مسجد کی طرح ہوجاتا ہے جب تک وہ اس پر سویا رہے۔

حضرت کرز بن وبرہ کی جس رات وفات ہوئی 80مرتبہ وضو کیا اس وجہ سے کہ میری روح جب قبض ہو تو میں باوضو ہوں۔

دائمی طہارت کا ثمرہ یہ بھی ہے کہ یہ مومن کا اسلحہ ہے

 قال عمر رضی اﷲ عنہ: إن الوضوء الصالح یطرد عنک الشیطان (شرح صحیح بخار ی للسفیری)

وضو ایسی نیکی ہے جس کی وجہ سے شیطان تجھ سے دور بھاگتا ہے ۔

دائمی وضو انسان کو آفات و بلیات سے محفوظ رکھتا ہے

 حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے حدیث مروی ہے ’’اپنی نماز کیلئے وضو کو مضبوط رکھواگر تجھے اپنی حفاظت پسند ہے جوتیری عمر میں اضافہ کا باعث ہو گا ۔۔۔جب ملک الموت تیرے پاس آئے اور تو باوضو ہو تو تجھے شہادت کی موت نصیب ہو گی ‘‘

 (تنبیہ الغافلین:اتحاف الخیرۃ المھرۃ)

 مصیبتیں اکثر جب بندہ بے وضو ہوتا ہے آتی ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے وحی فرمائی

 ’’ اے موسی جب کوئی آپ کو مصیبت اس حالت میں آئے کہ باوضو نہ ہو تو اپنے آپ کو ملامت کرو‘‘ (شعب الایمان : الدر المنثور)

یہ حدیث مبارکہ جسے عموما قصر الامل اور دنیا کی بے ثباتی کی طرف توجہ دلانے کیلئے بیان کیا جاتا ہے اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ ہمہ وقت باوضو ہوتے اور اسی کی تعلیم ہمیں بھی دی گئی ہے ملاحظہ فرمائیں

 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَخْرُجُ یُہْرِیقُ الْمَاء َ، فَیَتَیَمَّمُ بِالتُّرَابِ، فَأَقُولُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، إِنَّ الْمَاء َ مِنْکَ قَرِیبٌ، فَیَقُولُ: مَا یُدْرِینِی لَعَلِّی لَا أَبْلُغُہُ(

( شرح السنۃ الفراء البغوی :ابن الجوزی فی کتاب الوفاء:مشکوۃ شریف)

 حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ کبھی ایسا ہوتا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پیشاب کرنے کے بعد اور وضو کرنے سے پہلے مٹی سے تیمم کر لیتے ، میں (یعنی ابن عباس رضی الہ عنہ یہ دیکھ کر ) عرض کرتا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پانی تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بہت قریب ہے (یعنی جب پانی آپ کی دسترس سے اتنا دور نہیں ہے کہ وضو کر سکتے ہیں تو پھر تیمم کیوں کرتے ہیں؟ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میری اس بات کے جواب میں فرماتے ۔ مجھے کیا معلوم کہ میں اس پانی تک پہنچ بھی سکوں گا یا نہیں؟ ۔

 یعنی مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ میری عمر کتنی ہے اور ہر لمحہ موت متوقع ہے اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ پیشاب کرنے کے بعد مجھے اتنی مہلت بھی نہ ملے کہ پانی تک پہنچ کر وضو کر سکوں۔ لہٰذا فوری طور پر تیمم کر لیتا ہوں تاکہ ایک طرح کی طہارت تو حاصل رہے۔

 حضرت موسیٰ کو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ’’جب کسی بادشاہ سے تجھے کوئی خوف لاحق ہو تو خود بھی وضو کرو اور اہل خانہ کو بھی وضو کا حکم دو جو بھی باوضو ہو گا وہ امان میں ہو گا ‘‘ ( تنبیہ الغافلین)

 جو لوگ ہمیشگی وضو میں ہوتے ہیں اﷲ ان میں سات خصلتوں سے عزت دیتا ہے

(1)فرشتے اس کی صحبت میں رغبت رکھتے ہیں۔

 (2)قلم اس کا ثواب لکھنے سے کبھی خشک نہیں ہوتا ۔

(3)اس کے اعضاء اور جوارح تسبیح کرتے ہیں۔

 (4)اس کی نماز کی تکبیر اولی بھی فوت نہیں ہوتی ۔

(5)جب سوتا ہے تو ایک فرشتہ اسے جن و انس کے شر سے محفوظ رکھنے کیلئے بھیج دیا جاتا ہے۔

(6)موت کی سختیاں اس پہ آسان ہو جاتیں ہیں ۔

(7)جب تک وضو میں رہتا ہے اﷲ کی امان میں ہوتا ہے ۔

(بریقۃ محمودیۃ فی شرح طریقۃ محمدیۃ المؤلف: أبو سعید الخادمی الحنفی)

لہذا ہمیں ہمیشہ باوضو رہ کر اس پہ اترانا نہیں بلکہ اﷲ کی رحمت کا امیدوار بننا ہے

اے درخم چوگان تو دل ہم چو گوے

بیروں نہ فرمان تو جاں یک سرموئے

ظاہر کے بدست ماست شستیم تمام

 باطن کہ بدست تست آن راہ تو بشوئے

 اے! کہ تیرے خم چوگان میں ہمارا دل ایک گیند کی طرح ہے، ہم تیرے فرمان سے ایک موئے بدن بھی باہر نہیں ہیں ظاہر جو ہمارے قبضہ میں تھا ہم اسے دھو چکے ہیں ۔ باطن جو تیرے قبضہ میں ہے اسے تو ہی دھو سکتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں