اس بیان میں کہ علماء راسخین اور علماء ظواہر اور صوفیہ میں سے ہر ایک کا نصیب کیا کیا ہے۔ شیخ جمال ناگوری کی طرف اس کی التماس کے جواب میں صادر فرمایا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالی کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ (علماء انبیاء کے وارث ہیں) علماء عظام کی تعریف میں کافی ہے۔ علم وراثت علم شریعت ہے جو انبیا علیہم الصلوة والسلام سے باقی رہا ہے۔ علم شریعت کی ایک صورت ہے ایک حقیقت صورت وہ ہے جو علماء ظاہر کے نصیب ہے جو کتاب وسنت کے محکمات سے تعلق رکھتی ہے اور حقیقت یہ ہے جو علماء راسخین کے نصیب ہے جو کتاب وسنت کی متشابہات سے متعلق ہے۔محکمات اگر چہ کتاب کے امہات یعنی اصول ہیں لیکن ان کے نتائج و ثمرات متشابهات ہیں جو کتاب کا اصلی مقصد ہیں اور نتائج وثمرات کے حاصل ہونے کے لیے امہات وسیلہ ہیں۔ گویا کتاب کا مغز متشابهات ہیں اور اس کا پوست(چھلکا) محکمات۔ وہ متشابهات ہی ہیں جو رمز و اشارہ کے ساتھ اصل کو ظاہر کرتی ہیں اور معاملہ کی حقیقت کا پتہ بتاتی ہیں ۔ علماء راسخین نے پوست کو مغز کے ساتھ جمع کیا ہے اور شریعت کی صورت وحقیقت کے مجموعہ کو پا لیا ہے۔ ان بزرگواروں نے شریعت کو ایک شخص تصور کیا ہے جس کا پوست صورت شریعت اور اس کا مغز حقیقت شریعت ہو۔ شرائع و احکام کے علم کو شریعت کی صورت اور حقائق واسرار کے علم کو شریعت کی حقیقت سمجھا ہے۔
بعض لوگوں نے شریعت کی صورت میں گرفتار ہو کر اس کی حقیقت سے انکار کیا ہے اورصرف ہدایہ اور بزدوی کوا پنا پیرمقتداسمجھا۔
بعض لوگ اگرچہ حقیقت کے گرفتار ہوئے لیکن چونکہ انہوں نے اس حقیقت کو شریعت کی حقیقت نہ جانا بلکہ شریعت کو صورت پر موقوف رکھا اور اس کو صرف پوست ہی خیال کیا اور مغز کو اس کے سوا کچھ اور تصور کیا۔ اس لیے اس حقیقت کی حقیقت سے سب واقف نہ ہوئے اورمتشابهات کا کچھ حصہ حاصل نہ کیا۔ پس علماء راسخین ہی درحقیقت وارث ہیں۔ اللہ تعالی ہم کو اور آپ کو ان کےمحبین اور تابعداروں میں سے بنائے۔
دیگر یہ عرض ہے کہ میاں شیخ نور محمد نے آپ کی طرف سے ظاہر کیا کہ آپ فرماتے تھے کہ ہم کو دوسرے سلسلوں کے مشائخ سے اجازت ہے۔ نقشبندیہ کی طرف سے بھی اجازت چاہتے ہیں۔ میرے مخدوم مکرم طریقہ عليا نقشبندیہ میں پیری ومریدی طریقہ کے سیکھنے اور سکھانے پر موقوف ہے۔ نہ کہ کلاه و شجرہ پر جیسے کہ دوسرے سلسلوں میں متعارف اور مشہور ہے۔ ان بزرگواروں کا طریق صحبت ہی صحبت ہے اور ان کی تربیت انعکاسی ہے۔ اسی واسطے ان کی ابتداء میں دوسروں کی نہایت مندرج ہے اور سب راستوں سے زیادہ قریب راستہ یہی ہے۔ ان کی نظردلی امراض کو شفا بخشتی ہے اور ان کی توجہ باطنی بیماریوں کو دور کرتی ہے ۔
نقشبندیہ عجب قافلہ سالار انند کہ برند از رہ پنہان بحرم قافلہ را
ترجمہ: نقشبندی عجیب ہی قافلہ سالار ہیں جو قافلے کو خفیہ راستے سے حرم پہنچا دیتے ہیں ۔
امید ہے کہ معذور ومعاف فرمائیں گے۔ع
والعذر عنده كرام الناس مقبول
ترجمہ: بزرگ لوگوں کے ہاں عذر مقبول ہے ۔ والسلام
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ67 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی