دَرویش
دَرویش‘ فارسی زبان کا لفظ ہے،جس کے معنی میں فقیر، گدا، بھکاری، سائل، مسکین، مفلس، محتاج، مفلوک، خاکی، بے نوا، بے بضاعت اور تہی دست شامل ہیں،
جس نے اللہ کے واسطے فقر اختیار کیا ہو ، سالک ؛ اللہ والا ، خدا رسیدہ شخص. بھی درویش کے معنی ہیں
چوں کہ ان میں سے بہت سی صفات اللہ والوں کا خاصا ہیں یوں اصطلاح میں ’سالک، صوفی، زاہد، قلندر، عُزلت گزین اور گوشہ نشین،‘ کو بھی ’درویش‘ کہتے اور بے نیازی و بے غرضی کو’درویشی‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
محققین کے مطابق ’درویش‘ دراصل ’درآویز‘ ہے، جس کے لفظی معنی ’دروازے سے لٹکا ہوا‘ ہے۔ ایسا سائل یا فقیر جو چوکھٹ سے چمٹ جائے اور کسی طور ٹلنے نہ پائے ’درآویز‘ کہلاتا تھا۔ یہ لفظ ’الف مد‘ کے گرنے اور ’ز‘ کے ’ش‘ سے بدلنے پر ’درآویز‘ سے ’درویش‘ ہوگیا۔
درآویز‘ یعنی مُراد بر آنے تک کسی طور نہ ٹلنے والے ’فقیر‘ کوعربی میں’سائل مبرم‘ کہتے ہیں۔
فارسی میں ’درآویز‘ سے ملتا جُلتا ایک لفظ ’درویز‘ بھی ہے۔ یہ لفظ ’در‘ یعنی دروازہ اور ’ویز‘ یعنی جستجو سے مرکب ہے۔ چونکہ فقیر روٹی کی جستجو میں در بہ در پھرتا ہے اس لیے درویز‘ کہلاتا ہے۔ اس ’درویز‘ سے لفظ ’درویزہ‘ بنا اور ’دریوزہ‘ پکارا گیا۔ پھر یہی ’درویز‘ معمولی تغیر کے بعد ’درویش‘ ہوا پس یہ لفظ زبر کے ساتھ گداگروں اور بھک منگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، یہ اللہ والوں کے لیے نامناسب ہے۔
دُرویش
’دَرویش‘ کا ایک تلفظ ’‘ بھی ہے، جو لفظ ’دُرواش‘ کی بدلی ہوئی صورت ہے۔ ’دُر‘عربی میں ’موتی‘ کو کہتے ہیں، اسے آپ دُرِ مکنون، دُرشہوار، دُر نایاب اور دُر افشاں کی تراکیب میں دیکھ سکتے ہیں، جب کہ ’واش‘ کلمۂ تشبیہہ ہے اور اس کے معنی ’جیسا یا مثل‘ کے ہیں۔ یوں ’دُرویش‘ کے معنی ہوئے ’موتی جیسا‘۔اللہ والے موتی کی طرح ہیں،اس لیے ان کو دُرویش کہا جاتا ہےایسی بات لکھنے والا ، بتانے والا جس سے معرفت کے سُچے موتی بکھر جائیں اور جہاں بکھریں ، وہاں صرف وہ معرفت ہی نہیں ، معرفت کا گلستان آباد ہو جائے ۔ اے دُرویش کہتے ہیں
چونکہ قلندر کا دل ’مثلِ موتی‘آلائشِ دنیا سے محفوظ ہوتا ہے، اس لیے ’دُرویش‘ کہلاتا ہے۔