اقوال زریں(مولانا روم)

آہن ارچہ تیرۂ و بے  نور بود صیقلی آں  تیرگی ازوے  زُدود
صیقلی دید آہن و خوش کر د رُو تاکہ صورتہا تواں  دید اند رُو
گر تن خاکی غلیظ و تیرہ است صیقلش کن زانک صیقل گیرہ است
تا درو اشکال غیبی رو دہد عکس حوری و ملک در وی جہد
صیقل عقلت بدان دادست حق کہ بدو روشن شود دل را ورق

لوہا اگرچہ کالا اور بے نور ہوتا ہے، مگر صیقل ہوکر اس کی کالک صاف ہوجاتی ہے، مزید صیقل ہوکر لوہا خوبصورت بن جاتا ہے کہ اس میں آئینے کی طرح صورتیں دیکھی جاسکتی ہیں،  گر تیرا خاکی جسم بھی آلودہ ہوچکا ہے تو اسے صیقل کر، وہ صیقل قبول کرنے والا ہے، تاکہ اس میں غیبی صورتیں نظر آئیں، حور و ملائک  کا عکس جھلکے، تجھے اللہ نے عقل کا صیقل اسی لیے دیا ہے کہ تو اس کے ذریعے دل کا ورق روشن  کرے

صد هزاران سال ابلیسِ لعین بود ز ابدال و امیر المؤمنین
پنجه زد با آدم از نازی که داشت گشت رسوا همچو سَرگین وقتِ چاشت
پنجه با مردان مزن ای بُوالْهَوَس برتر از سلطان چه می‌رانی فرَس

اِبلیسِ لعین صد ہزاروں سال تک ابدال میں سے تھا اور امیر المؤمنین تھا۔ [لیکن] اُس کو جو غرور و تکبُّر تھا، اُس کے باعث اُس نے آدم سے پنجہ لڑایا، [اور نتیجتاً] وہ چاشت کے وقت کے گوبر کی مانند رُسوا ہو گیا۔ اے [شخصِ] بُوالْہَوَس! مردانِ [خدا] کے ساتھ پنجہ مت لڑاؤ!۔۔۔ سُلطان سے برتر و تیزتر تم اسْپ کس لیے دوڑاتے ہو؟

نور نور چشم خود نور دلست نور چشم از نور دلہا حاصلست
باز نور نور دل نور خداست کو ز نور عقل و حس پاک و جداست

نگاہ کا نور ، دل کا نور ہے۔دل کے نور سے نگاہ کا  نور   حاصل ہوتا ہے، پھر دل کی بصیرت کا نور خدا کا نور ہے، جو عقل و حواس کے نور سے پاک اور جُدا ہے۔

کاملے گر خاک گیرد زر شود ناقص ار زَر بُرد خاکستر شود

کامل انسان خاک پکڑےتو سونا بن جائے۔ ناقص اگر سونا لے لے تو خاک ہو جائے۔

مردہ بُدم زندہ شُدم، گریہ بدم خندہ شدم دولتِ عشق آمد و من دولتِ پایندہ شدم

میں مُردہ تھا زندہ ہو گیا، گریہ کناں تھا مسکرا اٹھا…. دولتِ عشق کیا ملی کہ میں خود ایک لازوال دولت ہو گیا

صحبت صالح ترا صالح کند صحبت طالح ترا طالح کند

نیک لوگوں کی صحبت نیک بنا دیتی ہے اور بُرے لوگوں کی صحبت بُرا بنا دیتی ہے

یک زمانہ صحبت با اولیا بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

اللہ کے ولی کی صحبت کے چند لمحے سو سال کی بے ریا عبادت سے بہتر ہیں

ہمنشینی مُقبلاں چوں کمیاست چوں نظر شاں کیمائے خود کجاست

بارگاہ حق کے مقبول بندوں کی ہم نشینی تو سونا ہے، بلکہ ان لوگوں کے نظر کے مقابلے میں سونا خود کچھ نہیں۔

اولیا را ہست قدرت از الہ تیر جستہ باز آرندش راہ

اللہ کے ولیوں کو رب کی طرف سے طاقت ملتی ہے کہ وہ کمان سے نکلے ہوئے تیر کو بھی واپس کر دیتے ہیں یعنی ان کی نظر تقدیر بدل دیتی ہے

یکی آهن بُدم بی‌قدر و قیمت تواَم آیینه‌ای کردی زُدودی

میں ایک بے قدر و قیمت آہن تھا۔۔۔ تم نے صَیقل کیا [اور] مجھ کو اِک آئینہ کر دیا۔

هر که از اُستا گُریزد در جهان او ز دولت می‌گُریزد این بِدان
جان لو کہ دُنیا میں جو بھی شخص مُعلِّم سے [دُور] بھاگتا ہے، وہ [گویا] خوش بختی و اقبال مندی سے [دُور] بھاگتا ہے۔

ایا تبریز خاکِ توست کُحلم که در خاکت عجایب‌ها فنون است

اے تبریز! تمہاری خاک میرا سرمہ ہے؛ کیونکہ تمہاری خاک میں حیرت انگیز فُنون ہیں۔

ہر کجا ویراں بوَد آنجا اُمیدِ گنج ہست               گنجِ حق را می نجوئی در دلِ ویراں چرا؟

جہاں کہیں بھی ویرانہ ہو وہاں سے خزانہ ملنے کی امید ہوتی ہے، تو پھر تُو ویران اور ٹوٹے ہوئے دلوں میں حق کے خزانے کی تلاش کیوں نہیں کرتا؟

آپ 40 علماء کو ایک دلیل سے ہرا یا خاموش کر سکتے ہیں لیکن ایک جاہل کو 40 دلیلوں سے بھی نہیں ہرا سکتے

اس وقت تک مولائے روم نہ بنا جب تک شمس تبریز کا وہ غلام نہ ہوگیا۔ تو بھی نیک صحبت کو لازم پکڑ لے۔

 گفتگو سےسمجھ بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے لیکن تنہائی وہ مدرسہ ہے جہاں عظیم ذہن بنتے ہیں۔

 اگر ہماری جان یادخدا میں بیدارنہیں تو یہ بیداری ہمارے لئے قید خانہ ہے۔

 وفا ایک ایسا دریا ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا۔

اگر بیکار پتھر ہے تو کسی صاحب علم کےپاس جا گوہر بن جائیگا۔

 زندگی کے لمحات کو غنیمت جانو! بہت جلدع یہ تم سے چھن جائیں گے۔

 اگر تو حضرت آدم علیہ السلام  کی پشت میں سے ہے تو پھر جستجو میں رہ………. دل کی آگ اور آنکھ کے پانی سے اپنی روح کی غذا تیار کر

 ہر کوئی اپنے دل کے صاف حصے میں اس آن دکھے کو دیکھتا ہے اور اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس نے اپنے دل کے آئینے کو کس قدر چمکا رکھا ہے۔ جس نے اسے زیادہ چمکا رکھا ہے اسے زیادہ نظر آتا ہے اور اسے اس ان د کھے کی زیادہ شکلیں واضح ہو کر نظر آتی ہیں۔

 اصل فقیر ہمیشہ شریعت محمدی ﷺ کا پابند ہوتا ہے کیونکہ شریعت کی پابندی کے بغیر شریعت عین مکاری ہے۔

 اہل علم کاعلم انہیں اٹھاتا ہے اور اہل تن کے علوم ان کیلئے بوجھ ہیں۔

 اپنے امتیاز اور انفرادیت کے شعلے سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی دانشمند کی زیارت کی جائے۔

 تم سینکٹروں فواروں سے غٹا غٹ پی رہے ہو اور جب ان میں سے کوئی ایک کم ہو جاتا ہے تو تمہاری خوشی کم پڑ جاتی ہے لیکن جب تمہارے اندر ہی ایک چشمہ پھوٹتا ہے تو دوسرے فواروں کی جانب دیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

 جب دروازہ کھلا ہوا ہے تو تم اس طرح قید خانے میں کیوں پڑے ہو؟

کھرا اور کھوٹا سونا بغیر کسوٹی پر پرکھے قابل اعتبار نہیں۔

 سورج کی تعریف دراصل اپنی آنکھوں کی تعریف ہے۔

 جب آپ کوئی کام روح کی گہرائیوں سے کرتے ہیں تو آپ اپنے جسم و جاں میں لطف و انبساط کا ایک دریا رواں محسوس کرتے ہیں۔

 ہرفردموت سے خوف زدہ ہے لیکن حقیقی صوفی اس پر قہقہے لگاتا ہے۔ کوئی چیز ان کے دلوں کو تکلیف نہیں پہنچاسکتی کیونکہ سیپ سے خواہ کچھ بھی ٹکرائے موتی کوکسی قسم کا نقصان نہیں پہنچتا۔

 صرف رسمی تعلیم کا مقصدروحوں کو تباہ کرنا ہے۔

 دوستی کی کشتی میں پہلا سوراخ شک کا ہوتا ہے۔

درویشوں کے علاوہ دنیا کے باقی لوگ بچوں کی مانند ہیں جو دنیا کے کھیل میں مگن ہیں

 مال و دولت کی فراوانی مزید کی خواہش کو جنم دیتی ہے اور لوگ ان خواہشات سےچپک کر رہ جاتے ہیں۔ یہ خواہشات غربت کے ڈر سے مز ید کالالچ پیدا کر دیتی  ہیں

جب خدا ہماری مدد کرنا چاہتا ہے تو ہمیں انکساری کی طرف مائل کر دیتا ہے۔ محبت کی تلاش آپ کاہدف نہیں بلکہ آپ کا ہدف ان رکاوٹوں کو تلاش کرنا ہے جو  آپ نے اس جذبے کے خلاف کھڑی کر لی ہیں۔

 عاشق کو بے توقیر، جنونی، غائب دماغ ہی رہنے دو، کوئی سنجیدہ بدترین صورت حال کے بارے میں سوچ لے گا۔ عاشق کو یونہی رہنے دو۔

 محبت کو دیکھ یہ پیار میں مبتلا ہونے والے کو کس طرح جکڑ لیتی ہے۔

 ہستی کا آئینہ فنا ہے۔فنا اختیار کرتا کہ توہستی کو دیکھ لے۔

 بلبل کو اس کی سریلی آواز اور میٹھے گیت کیلئے پنجرے میں قید کر دیا جاتا ہے، کیا کسی نے سنا ہے کہ کبھی کسی نے کوے کو پنجرے میں ڈالا ہو۔

 میرے دوست! صوفی تو موجود لمحے کا ہی دوست ہوتا، کل کی بات کرنا ہمارا طریق نہیں۔

 کوئی آئینہ دوبارہ لو ہے میں نہیں بدلتا، روٹی دوبارہ گندم نہیں بنتی، پکاہواانگور پھر سے کھٹا نہیں ہو جاتا۔ اسی طرح اپنے آپ کو بالغ بنالواور بری تبدیلی سے محفوظ ہو جاؤ۔ ایک روشنی بن جاؤ۔

ایسے دکھو جیسے تم ہو یا ایسے رہو جیسے تم دیکھتے ہو۔

دوست وہ ہے جو ہمیں اس وقت پسند کرے جب تم کچھ بھی نہ ہو۔

 دشمن ہمیشہ دماغ کے منتخب کرو اور دوست ہمیشہ کردار کے۔

 جہاز میں اسباب بھرواور روانہ ہو جاؤ کیونکہ اس بات کا کسی کوعلم نہیں ہوتا کہ جہاز بیچ سمندر ڈوبے گایا ساحل پر جا پہنچے گا۔ باخبر لوگ کہتے ہیں: ہم اس وقت تک کچھ نہیں کریں گے جب تک ہمیں یقین نہ ہو جائے، لیکن اس بات کو تاجر اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر وہ کچھ نہیں کریں گے تو نقصان اٹھائیں گے لہذا ان تاجروں میں اپنا شمار مت کرو جو سمندر کے خطرات کا خدشہ نہیں مول لیتے۔

 اگر تو غرور کو اپنے سر سے نہیں نکالے گا تو بعد میں آنے والے لوگ تیرے حال سے عبرت حاصل کریں گے۔

جب پیاس کے وقت آپ پیاس بجھانے کیلئے پیالے پر جھکتے ہیں تو اس میں اللہ نظر آتا ہے لیکن جنہیں اللہ سے محبت نہیں انہیں صرف اپناہی چہرہ نظر آتا ہے۔

 بعض اوقات دوست دشمن اور دشمن، دوست بن جاتے ہیں۔

اگر تمہاری انا تمہاری رہنما ہے تو پھر مدد کیلئے قسمت کی طرف مت دیکھو، دن کو تم سوئے رہتے ہو اور راتیں مختصر ہیں ممکن ہے جب تم جا گوتو زندگی کی شام ہو چکی  ہو

 بہت سے لوگ آگ سے بچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور انجام کار اس میں جا گرتے ہیں۔

جس خوبصورتی سے ہم پیار کرتے ہیں اس خوبصورتی کو اپنے عمل میں ڈھال لینا چاہئے

 اپنے آپ خاموشی کے ساتھ اس بھر پورکشش کی جانب کھنچنے دو جس سے تم حقیقی پیار کرتے ہو۔

 ایک اجنبی ہونے کے باوجود آپ دن بھر جنونی قسم کی محبت کے الفاظ سنتے ہیں۔ شہد کی مکھی کی طرح تم بھی سینکڑوں گھر شہد سے بھر لیتے ہو اگر چہ تمہیں یہاں سے ایک لمبی اڑان بھر جانا ہے۔

 صرف دل سے ہی تم آسمان کو چھو سکتے ہو۔

 جس طرح تمہارا نور ایمان کافروں کی آگ بجھا دیتا ہے اسی طرح شہوت کی آگ کو خدا کا نور بجھادیتا ہے۔ 

صبرخوشی کی چابی ہے۔

 دنیا دار لوگ اپنے گریباں میں نہیں جھانکتے اس لئے دوسروں پر تہمت لگاتے ہیں

اچھابو لنے کیلئے پہلے اچھاسنناضروری ہے۔ ایک انسان کو پہلےسننا چاہیے اوراسی  سے بولنے کا فن سیکھنا چاہیے۔ 

کھانے کے ایک لقمے میں ایک بال یاریت کا ذرہ آ جائے تو پورا نوالہ پھینک دیا جاتا ہے پھر تمہاری روح کیسے آلودہ غذا برداشت کرسکتی ہے۔

 برائی دل کو تکلیف میں مبتلا کرتی ہے اور سچ سے فرحت بخش طمانیت حاصل ہوتی ہے۔

زہین خودمختاری اور پچہ مٹھائی چاہتا ہے۔

  میانه روی یعنی درمیانی راہ ہی عقلمندی ہے۔

لازوال خوبصورتی صرف دل کی خوبصورتی ہے۔

 یپاس مجھےکھینچ کرنیچے گہرائی میں پانی تک لے گئی جہاں میں نے چاندنی ( چاند کاعکس)پی لی۔

 جس طرح تارے ریت کی مانند بکھرے ہوئے ہیں ہم بھی اسی طرح گھومتے ہوئے نسیت سے وجود میں آئے ہیں۔

 عیسائی، یہودی، مسلمان، شمانی، زارستانی، پتھر مٹی، پہاڑ، دریا ان میں ہر ایک 

کے ساتھ ایک خفیہ راز منسلک ہوتا ہے ایسا اچھوتا بھيد جسے محسوس نہیں کیا جاسکتا۔

 حلال لقمہ کے منہ میں آنے سے عبادت کا رجحان اور آخرت میں جانے کا پختہ یقین پیدا ہوتا ہے۔ ہم اندر کی موسیقی کو بہت کم سنتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس کی تھاپ پر رقصاں رہتے ہیں۔

 تم سائے کومتبادل جسم سمجھ لیتے ہو۔

 بھوکا شیرزیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

 کوئی چیز ہمارے پرکھولتی ہے۔ کوئی چیز بوریت اور دکھ پیدا کرتی ہے۔ کوئی ہمارے سامنے رکھا پیالہ بھر دیتی ہے لیکن ہم صرف تقدس کا ذائقہ چکھتے ہیں۔

 وہ اس انسان جیسا ہے جو چراغ لے کر سورج ڈھونڈنے نکلتا ہے۔

 الله تعالی کی جانب سے مصائب تنبیہ کرنے کیلئے آتے ہیں، یہ عین رحمت ہوتے ہیں تا کہ تجھے غفلت سے بیداری حاصل ہو۔

 میں نے تمام دن اس پرغور کیا، رات کو اس پر گفتگو کی کہ میں کہاں سے آیا ہوں اور میری تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ مجھے کوئی نکتہ نہ سوجھا، میری روح کسی نامعلوم مقام سے آئی ہے مجھے یقین ہے کہ انجام کار یہ پھر وہیں لوٹ جائے گی۔

 چراگاہ میں درخت اور پودا ناچتا ہوا دکھائی دیتا ہے جنہیں عام نظریں ساکت و صامت کھڑے دیکھتی ہیں۔

 اگر تیرے پاس ڈھال نہیں تو تلوار کے سامنے مت آ کیونکہ تلوار اگر تیز ہوتو یہ کاٹنے سے نہیں شرماتی۔

 اپنے اردگرد رونما ہونے والی باتوں کا مشاہدہ کرو لیکن ان کا دعوی مت کرو، متحرک صناعی قدرت دیکھو اور خاموش رہو۔

 یہ دنیا تمہاری جانوں کا قید خانہ ہے، خبردار اس جانب دوڑو جو خدا کا میدان ہے، اس لئے کہ یہ عالم محدود اور اللہ لامحدود ہے۔

سبب بادشاہ کے سامنے ایک ادنی افسر کی طرح ہوتا ہے جو اس کے سامنے آنے پر بے اختیار ہوکر چھپ جاتا ہے۔ سبب اللہ کی جانب سے ایک سایہ ہے اور اللہ ایک آفتاب۔

ڈر کی سوچ اورکشمکش سے باہر نکلو اور خاموشی میں زندہ رہو!

اپنی ہشیاری  بیچ ڈالو اورکم فہی خرید لو

میں ایک معدنی موت مرا، پھر ایک پودا بن گیا۔ پودا بن کر مرا اور ایک جانور کی صورت میں اٹھا، پھر جانور کی موت مرا اور انسان کے روپ میں جنم لیا، پھر مجھے کس چیز کا خوف ہے؟ موت نے مجھ میں کون سی کمی واقع کی ہے؟ 

 ہوسکتا ہے اطمینان میرے دور چلے جانے میں ہو اور جب میں جا کر واپس لوٹوں گا تو اسے اپنے گھر میں پالوں گا۔

ہم پیاسا ہونے اور پانی کی پکار کی جانب بڑھنے سے اپنے آپ کو روک نہیں سکتے

 ابد نے اپنی طاقتور نگاہوں سے ایک لمحے کیلئے مجھے دیکھا اور پھر اپنے وجود میں سمولیا اور وہ اپنے جوہر میں مجھ پر عیاں ہو گیا میں نے دیکھا کہ میرا وجود اس میں باقی ہے۔

میں تمہاری روشنی میں محبت کرنا سیکھتا ہوں تمہاری خوبصورتی میں غزل کہنا سیکھتا ہوں تم میرے سینے میں رقص کرتے ہو ، جہاں تمہیں کوئی نہیں دیکھ سکتا۔

 خاموشی اللہ کی زبان ہے اور اس کے علاوہ سب کچھ ایک کمزور تر جمے کی حیثیت رکھتا ہے

 ایک دن تم میرادل پوری طرح سے لے لو گے اور اسے ایک اژدھے سے زیادہ خطرناک بنا دو گے۔ تمہاری آنکھیں میرے دل پر وہ غزل لکھیں گی جسے کسی شاعر کاقلم بھی نہیں لکھ سکتا۔

 اس سے زیادہ خوش قسمت کون ہوسکتا ہے جو ایک جھیل کنارے آتا ہے اور پانی میں چاند کاعکس دیکھ لیتا ہے۔ 

کیا تم نے اپنے چہرے کی خوبصورتی دیکھی ہے؟ اس خیال کو اپنے دل سے نکال دوجو تمہیں خود سے جنگ پر مجبور کرتا ہے۔

اب میں سنجیدہ و متین ہوں صرف تکان اور پیارکی یا دباقی رہ گئی ہے۔ 

 زمین آسمان کے آگے سرنگوں ہے اور اس کی طرف سے جو کچھ آتا ہے قبول کرتی ہے۔ مجھے بتاؤ! کیا زمیں اسی طرح دینے کی وجہ سے بری ہے؟

 میں ایک حقیر کیڑے کی مانند تھا لیکن اب پہاڑ ہو گیا ہوں۔ مجھے پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا لیکن تو نے میری بھوک اور غصے کا علاج کیا اور مجھے خوشی کے نغمے گانے والا شاعر بنا دیا۔ 


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں