وَلایت اور وِلایت کا فرق
ولایت کی دو قسمیں ہیں :
وہ اولیاء اللہ خواہ وہ حاملین ولایت عامہ ہوں یا حاملین ولایت خاصہ رجال الله یعنی مردان خدا کہلاتے ہیں :
ولایت عامہ
یہ عام مومنین کے لیے ہے۔
ولایت خاصہ
یہ واصلین حق کے لیے ہے ، مقام فنا اس کا ادنی مرتبہ ہے۔اور اعلی مرتبہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ اپنے اسماء وصفات بطور علم و یقین وحال کے ظاہر فرماکر ان کے ذریعہ اس ولی کو تأثیر و نصرت کی قوت عطا فرما دیتا ہے۔ اور اپنے اسماء و صفات کا اس کو متولی کر دیتا ہے۔ اس مرتبہ کے حصول کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کامل ، آداب صالحین کی پیروی اور اولیاء اللہ سے محبت ضروری امور ہیں۔ ان کےبغیر ولایت خاصہ کا تصور ہی عبث ہے۔
ولایت خاصہ کی دو انواع ہیں .
وَلایت اور وِلایت
وَلایت واو کی فتحہ ( زبر) کے ساتھ حق تعالی کے ساتھ بندہ کے قُرب کو کہتے ہیں ۔گویا اس قرب کو کہتے ہیں جو بندے کو اللہ تعالی کے ساتھ ہوتا ہے جس میں بندہ کو حق تعالی کی جانب سے وہ تصرفات عطا ہوتے ہیں جن سے طلب الہی کی استعداد رکھنے والوں پر اثرات ڈالے جاتے ہیں اور سالکان راہ طریقت کو مقامات قرب تک پہنچایا جاتا ہے۔
اوروِلایت واؤ کی کسرہ ( زیر) کے ساتھ اس صفت کو کہتے ہیں جس کے سبب سے بندہ مخلوق میں مقبول ہو جاتا ہے اور دنیا والے اس کے گِرویدہ ہو جاتے ہیں۔گویا اس کمال کو کہتے ہیں جو بندے کو حاصل ہوتا ہے جس سے وہ لوگوں کو فیض پہنچاتا ہے۔ جس میں وہ تصرفات عطا ہوتے ہیں جو حلق میں مقبولیت کا باعث ہوں مثلا خوارق وتصرفات تكويني .
خوارق و تصرفات اس دوسری قسم میں داخل ہیں اور جو برکات مستعد لوگوں کو حاصل ہوتی ہیں وہ وَلایت بالفتح کا اثر ہوتا ہےبعض لوگوں کو ان دو قسموں میں سے صرف ایک قسم ہی حاصل ہوتی ہےاور بعض حضرات کو ان دونوں کا کافی حصہ حاصل ہوتا ہے۔اور بعض میں ان دونوں قسم کی ولایتوں میں سے کسی ایک کا حصہ دوسری سے زیادہ حاصل ہوتا ہے۔
مشائخ نقشبندیہ رحمہم اللہ تعالی کی ہمیشہ وَلایت بفتح وِلایت بکسر پر غالب رہتی ہے اور اگر کوئی مقتدا شخص اس دنیا سے انتقال فر ما تا ہےتو ولایت بکسر اپنے کسی مخلص کیلئے چھوڑ جاتا ہے اورولایت بفتح کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور کبھی کسی لغزش کی بنا پرولایت بکسر کوولی سے واپس لے لیتے ہیں۔
اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ(یونس:62)
خبردار ! بیشک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ و غم گین ہوں گے۔
حضرت عمر بن خطاب ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ” اللہ کے بندوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو انبیاء و شہداء تو نہیں ہوں گے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو مرتبہ انہیں ملے گا اس پر انبیاء اور شہداء رشک کریں گے “ لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! آپ ہمیں بتائیں وہ کون لوگ ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ ایسے لوگ ہوں گے جن میں آپس میں خونی رشتہ تو نہ ہو گا اور نہ مالی لین دین اور کاروبار ہو گا لیکن وہ اللہ کی ذات کی خاطر ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہوں گے ، قسم اللہ کی ، ان کے چہرے (مجسم) نور ہوں گے ، وہ خود پرنور ہوں گے انہیں کوئی ڈر نہ ہو گا جب کہ لوگ ڈر رہے ہوں گے ، انہیں کوئی رنج و غم نہ ہو گا جب کہ لوگ رنجیدہ و غمگین ہوں گے “ اور آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : «أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ » یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔(سنن ابو داؤد:کتاب الاجارہ باب الرھن)
اولیاء ولی کی جمع ہے اور ولی قرب و دنو کے معنی میں مستعمل ہے اور ولی کو ولی اس لیے کہا گیا کہ اسے اخلاف عبادت سے قرب روحانی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوجاتا ہے اور ولی محب خالص کو بھی کہتے ہیں اور ولی بمعنی نصیر بھی مستعمل ہے۔(تفسیر الحسنات)
ولی کا معنی ہے قرب رکھنے والا ‘ دوست ‘ مددگار۔جبکہ دو یا زیادہ چیزوں کا براہ راست بلاواسطہ تعلق و اتصال۔ مجازاً اس سے مراد ہوتا ہے قرب خواہ مکانی ہو ‘ یا نسبی ‘ یا دینی ‘ یا اعتقادی ‘ یا دوستی اور مدد کے لحاظ سے ہو۔ (تفسیر مظہری)
کوئی بھی ولی صحابہ میں سے ادنیٰ درجے کے صحابی کے برابر بھی ہرگز نہیں ہو سکتا انبیاء سے موازنہ کرنا ہی غلط ہےاس مسئلہ پر اجماع کا اتفاق ہے۔
صرف انبیاء معصوم ہوتے ہیں اولیاء کرام سے غلطیاں سرزد ہو سکتی ہیں۔
اصطلاح میں ولی وہ شخص ہوتا ہے جو ولایت خاصہ کا حامل ہو آپ اسے ولی اللہ کہیں شیخ کہیں پیرومرشد کہہ لیں بہرصورت صرف وہ شخص اس منصب کا حقدار ہے جو خود ولایت خاصہ کے مدارج طے کر چکا ہو اور سالکین یا مریدین کو بھی ان مقامات تک لے جانے کا اہل ہو۔
“وَلایت اور وِلایت کا فرق” ایک تبصرہ