اس بیان میں کہ مشرکوں کی نجاست سے مراد ان کا باطنی خبیث اور ان کی بداعتقادی ہے نہ کہ ان کا نجس العین ہونا۔ ملامقصودعلی تبر یز ی کی طرف صادر فرمایا ہے:
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفٰى سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔
) میرے مشفق مخدوم نہیں معلوم تفسیرحسینی کےبھیجنے سے آپ کا مقصود کیا تھا۔ تفسیر والی آیت کریمہ ائمہ حنفیہ کے موافق بیان کرتی ہے اور نجاست سے شرک اور خبث باطن اور بداعتقادی مرادرکھتا ہے اور یہ جو بعدازاں اس نے کہا ہے کہ یہ لوگ نجاسات سے پرہیز نہیں کرتے۔ یہ بات آج کل اکثر اہل اسلام میں بھی موجود ہے اور اس باعث سے عام اہل ایمانوں اور کافروں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوسکتا۔ اگر نجاست سے پرہیز نہ کرناہی آدمی کی نجاست کا سبب ہے تو پھر معاملہ تنگ ہے۔
ولا حرج في الإسلام (اسلام میں کوئی تنگی نہیں اور یہ جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے کہ مشرک کتوں کی طرح نجس العین ہیں۔ اس قسم کی شاذ و نادر نقلیں دین کے بزرگواروں سے بہت آتی ہیں، لیکن یہ سب تاویل اور توجیہ پرمحمول ہیں۔ یہ لوگ کس طرح نجس العین ہو سکتے ہیں جبکہ آنحضرت ﷺنے یہودی کے گھر سے کھانا کھایا ہے اور مشرک کے برتن سے وضو کیا ہے اور حضرت فاروق رضی الله عنہ نے بھی نصرانی عورت کے گھڑے سے وضو کیا ہے اور اگر کہیں کہ ہوسکتا ہے کہ آیت کریمہ اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ مشرک نجس ہیں) ان روایتوں سے متاخر ہو اور ان کی مناسخ ہو۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ صرف تواند بود ( ہوسکتا ہے)کافی نہیں اس کے متاخر ہونے کو ثابت کرنا چاہئے تا کہ نسخ کا دعوی صحیح ہو۔فان الخصم من وراء المنع( کیونکہ خصم یعنی مناظر بے دلیل نہیں مانتا )اور اگر اس آیت کا متاخر ہونا تسلیم بھی کر لیں تو بھی حرمت کی مثبت نہیں جب کہ مرادنجاست سے خبث باطن ہے، کیونکہ منقول ہے کہ کوئی پیغمبر کسی ایسے امر کا مرتکب نہیں ہوا جس کا انجام اس کی شریعت میں یا کسی دوسرے نبی کی شریعت میں حرمت تک پہنچا ہو اور اخیر میں حرام ہو گیا ہو اگرچہ وہ امر ارتکاب کے وقت مباح ہی کیوں نہ ہو۔ مثلا شراب جو پہلے مباح تھا اور پھر حرام ہوا۔ اس کو کسی پیغمبر نے نہیں پیا۔ اگر مشرکوں کا انجام کار ظاہری نجاست پرقرار پاتا اور کتوں کی طرح نجس عین ہوتے توآنحضرت ﷺجومحبوب رب العالمین ہیں ہرگز ان کے برتنوں کو ہاتھ نہ لگاتے چہ جائیکہ ان کا آب و طعام پیتے کھاتے۔
نیز نجس العین ہر وقت نجس عین ہے۔ پہلی اور پچھلی اباحت کی اس میں گنجائش نہیں۔ اگر مشرک نجس عین ہوتے تو چاہئے تھا کہ ابتدا ہی سے ایسے ہوتے اور آنحضرت ﷺ ان کے ساتھ اول ہی سے ان کے اندازہ کے موافق معاملہ فرماتے ۔ واذ ليس فليس (جب ایسا نہیں تو ویسا بھی نہیں)نیز حرج وتنگی دین میں دور ہو چکی ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ان کی نجات کےحکم کرنے اور ان کو نجس عین جاننے میں مسلمانوں پر کس قدرتنگی آئے گی اور کس قدر رنج و تکلیف میں پڑیں گے۔ آئمہ حنفیہ رضی اللہ تعالی عنہم کاممنون احسان ہونا چاہئے۔ جنہوں نے مسلمانوں کے لیے مخلصی پیدا کر دی ہے اور حرام کے ارتکاب سے بچا دیا ہے۔ نہ یہ کہ ان پر طعن لگائیں اور ان کے ہنر کو عیب خیال کریں۔ مجتہد پر اعتراض کی مجال ہی کیا ہے۔ جب کہ اس کو خطا پر بھی ایک درجہ ثواب کا حاصل ہے اور اس کی تقلید اگرچہ خطا پر ہو۔ پھر بھی نجات کا سبب ہے۔ وہ لوگ جو کفار کے کھانے پینے کی حرمت کے قائل ہیں۔ از روئے عادت کے محال ہے کہ اپنے آپ کو اس کے ارتکاب سے محفوظ رکھےسکیں۔ خاص کر ملک ہندوستان میں جہاں یہ ابتلا زیادہ تر ہے۔ اپنے آپ کو محفوظ رکھنا مشکل ہے۔ اس مسئلہ میں کہ جس میں عام لوگ مبتلا ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ سب سے آسان اور سہل امر فتویٰ دیں۔ اگر اپنے مذہب کے موافق نہ ہو سکے تو جس مجتہد کے قول کے مطابق زیادہ آسانی اور سہولت ہو اس پر فتوی دینا چاہئے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے۔ يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ (اللہ تعالی تم پر آسانی کرنا
چاہتا ہے اوتنگی نہیں چاہتا) ایک اور جگہ فرماتا ہے۔ يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا (اللہ تعالی تم پرتخفیف کرنا چاہتا ہے اور انسان ضعیف پیدا کیا گیا ہے)خلق پر تنگی کرنا اور ان کورنج میں ڈالنا حرام اور خدا تعالی کو ناپسند ہے۔ علماء شافعیہ بعض ان مسائل میں جن میں امام شافعی نے تنگی کی ہے مذہب حنفی پر فتوی دیتے ہیں اور لوگوں پر آسانی کرتے ہیں۔ مثلا زکوۃ کے مصارف میں امام شافعی کے نزدیک صدقہ کو زکوة کے تمام اقسام مصارف تقسیم کرنا چاہئے۔ جن میں سے ایک مؤلفۃ القلوب ہے۔ جو اس وقت مفقود ہے۔ علماء شافعیہ نے مذہب حنفی کے موافق فتوی دیا ہے اور ان اقسام میں سے کسی ایک میں دے دینے پر کفایت کی ہے۔
نیز اگر مشرک نجس عین ہوتے تو چاہئے تھا کہ ایمان لانے سے بھی پاک نہ ہوتے۔ پس معلوم ہوا کہ ان کی نجات خبث باطن اور بداعتقادی کے باعث ہے جو دور ہوسکتی ہے اور صرف باطن پر ہی وقوف ہے جو اعتقاد کامحل ہے اور اندرونی نجاست بیرونی طہارت کے ساتھ مخالفت نہیں رکھتی۔ چنانچہ ہر ادنی اور اعلی کو معلوم ہے۔ نیز کلام حسن انتظام اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ جس میں مشرکوں کے حال کی خبر دی گئی ہے۔ جس کو ناسخ و منسوخ ہونے سےکچھ تعلق نہیں ۔ کیونکہ نسخ حکم شرعی کے انشاء میں ہے۔ نہ کسی شے کی اخبار میں ۔ پس چاہئے کہ مشرک ہروقت نجس ہوں اور مرادنجاست سے خبث اعتقاد ہوتا کہ دلیلیں باہم متعارض اور مخالف نہ ہوں اور ان کا ہاتھ لگانا یا چھونا کسی وقت محذور وممنوع نہ ہو۔ جس دن اس فقیر نے اس بجٹ میں آیت کریمہ وَطَعَامُ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے) پڑھی تھی تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا تھا کہ مراد اس جگہ گیہوں اور چنے اور مسور سے ہے۔ اگر اس توجیہ کو اہل عرف مان لیں تو کچھ مضائقہ نہیں، لیکن انصاف در کار ہے۔ اس تصدیق اور طول کلامی سے اصلی مقصود یہ ہے کہ آپ خلق خدا پررحم کریں اور عام طور پر ان کی نجاست کا حکم نہ دیں اور مسلمانوں کو بھی کفار کے ساتھ ملنے جلنے کے باعث کہ جس سے چارہ نہیں نجس نہ جانیں اور وہمی نجاست کے باعث مسلمانوں کے کھانے پینے سے پرہیز نہ کریں اور اس طرح سب سے بیزار نہ ہوں اور اس کو احتیاط خیال نہ کریں، بلکہ احتیاط اس احتیاط کے ترک کرنے میں ہے۔ زیادہ کیا تکلیف دی جائے ۔ بیت
اند کے پیش تو گفتم غم دل ترسیدم که دل آزرده شوی ورنہ سخن بسیار است
ترجمہ: غم دل اس لیے تھوڑا کہا ہے تجھ سے اے جاناں . کہ آزردہ نہ ہو جائے بہت سن سن کے دل تیرا۔ والسلام
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ73 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی