اسماء و صفات کے ظلال
وہ اسماء وصفات جنہیں خزائن الہی اور گوہر معانی کہتے ہیں کیونکہ ہر اسم اور صفت میں بے بہا احکام و آثار مخفی ہوتے ہیں
وہ ذرائع اور واسطے جن کے ذریعے اللہ کی ذات، اسماء اور صفات کا فیض مخلوق تک پہنچتا ہے ان واسطوں اور ذرائع کو آسانی کے ساتھ سمجھنے کے لئے ظلال( ظل کی جمع) کہہ دیا جاتا ہے اللہ تعالی صفات و جودیہ ،حقیقیہ ، جیسے : حیات وغیرہ، صفات اضافیہ جیسے: رازق و خالق، صفات سلبیہ جیسے: ”لم يلد ولم يولد، وغیرہ، اور اسمائے حسنی سے موصوف و متصف ہے، جیسا کہ قرآن و حدیث میں تصریح ہے۔ اور اولیائے کرام کے کشف سے ثابت ہے کہ اسماء و صفات الہی کے ظلال ہیں، خود بنفسہ اسماء و صفات الہی ، انبیاء و ملائکہ کے مبادی تعینات ہیں، اور اسماء و صفات الہی کے ظلال، ما سوا انبیاء و ملائکہ کے مبادی تعینات ہیں ۔
ظلال سے کیا مراد ہے؟
ظل جس کی جمع ظلال ہے اس وجود اضافی اور ذات کے ہر ظہور اور ہر تعین کو کہتے ہیں کیونکہ تمام ممکنات عدم محض میں جن کا ظہور اسم نور کے مظہر سے ہوا اور اس وجود خارجی نے ان ممکنات کے عدم کی ظلمت کو اپنے گوناگوں نورانی صورتوں میں چھپا لیا اور اس وجود حقیقی کا ظل بن گیا
ظلال سے وہ سایہ وغیرہ مراد نہیں جو عوام سمجھتے ہیں، بلکہ ظلال مخلوق الہی میں سے وہ لطائف ہیں، جن کو اسماء و صفات الہی سے نسبت تام ہے، اسی مناسبت کے باعث وہ اس فیض کا واسطہ ہیں، جو وجود اور توابع وجود، مثلا: قدرت، قوت ، سمع، بصر وغیرہ کا ، اسماء و صفات الہی سے جہان والوں پر ہو رہا ہے، پس جب یہ لطالف فیض کا واسطہ ہوں، تو گویا ظل بنے ، وگر نہ ممکن ، مخلوق اور حادث، واجب الوجود، خالق اور قدیم کا ظل کیسے بن سکتے ہیں؟ حدیث میں وارد ہے
إن لله سبحانه سبعين حجاباً من نور لو كشفها لأحرقت سبحات وجهه كل من أدركه بصره(احیاء العلوم )
اور مسلم کی روایت ہے
حِجَابُهُ النُّورُ – لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَيْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِه (صحیح مسلم)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی کے لئے ستر ہزار پردے ہیں ، نور اور ظلمت کے، اگر وہ پردےدور ہو جائیں ، تو بے شک اس کے منہ کی روشنی جلادے خلقت کو، جہاں تک اس کی آنکھ جاتی ہے، لیکن تمام مخلوق کو ۔
ان حجاب (پردوں) سے وہی ظلال مراد ہیں، لیکن اگر ظلال کی پیدائش نہ ہوتی ، تو تمام جہان معد وم ہو جا تا، کیونکہ اللہ تعالی غنی عن العالمین ہے۔
اگر مخلوق کے مبادی تعینات اسماء و صفات باقی مخلوق کے مادی تعینات ہوتے ، تو تمام جہان اور مخلوق ، انبیاء و ملائکہ کے رنگ میں معصوم ہوتی ، جبکہ صفات جلال کا مقتضا یہ تھا کہ بعضے صفات جلال کا مظہر یعنی کافر و فاسق اور بعض صفات جمال کا مظہر یعنی مومن و صالح ہوں ، تا کہ صفات کے مظاہر یعنی آثار رحمت و قہر وغیرہ ظہور میں آئیں ۔
جو حجاب ، نورانی ہیں، وہ مؤمنین کا مبدا تعین ہیں، اور جو حجاب ظلمانی ہیں، وہ فساق و فجار کا مبدا تعین ہیں ، غوث الثقلین رحمة الله علیہ فرماتے ہیں:
خَرَقْتُ جَمِیْعَ الْحُجُبِ حَتّٰی وَصَلْتُ اِلیٰ مُقَامِِ لَقَدْ کَانَ جَدِّیْ فَاَدْنَانِیْ
یعنی تمام حجابوں سے گزر کر میں اس مقام تک پہنچا جہاں میرے دادا، نانا یعنی حضور ﷺ تھے، پھر قریب کیا مجھ کو ۔
یعنی میں تمام مراتب ظلال کو، جس کو ولایت صغری کہتے ہیں، طے کر کے مبدا تعین حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام، جو مرتبہ صفات میں ہے اور جس کو ولایت کبری کہتے ہیں، میں گیا۔
مبادی تعین انبیاء و ملا ئکہ میں فرق
مبادی تعین انبیاء و ملائکہ میں اس طور فرق ہے کہ صفات کے دو اعتبار ہیں، ایک صفات کا فی نفسہ وفي ذاتہ ہونا، دوم یہ کہ یہ صفات اللہ تعالی کے ساتھ قائم ہیں، لہذا اس کی صفتیں پہلی جہت کے اعتبار سے انبیاء کی مربی ہیں، اور دوسری جہت کے اعتبار سے ملائکہ کی مربی ہیں، پس ولایت ملائکہ بہ نسبت ولایت انبیاء کے خدا تعالی کی طرف اعلی و اقرب ہوئی ، مگر ملائکہ کو اپنے مقام سے ترقی نہیں ہوتی، اس لئے کہ: ” وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامٌ مَعْلُومٌ (الصافات :163) یعنی ہم میں سے ہر ایک کا مقام متعین ہے، اس سے ترقی نہیں، اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو اپنے مقام سے بے انتہا ترقی ہوتی ہے، چنانچہ پہلے کمالات نبوت عطا ہوتے ہیں، اس سے آگے کمالات رسالت اور پھر کمالات أولو العزم وغیر ذالک، پر ترقی ہوتی ہے، لہذا انبیا علیہم السلام ، ملائکہ سے افضل ہیں ۔
ظلال، سیر فی اللہ اور عروج کے مقامات:
یاد رکھنا چاہے کہ ظلم کا بھی ظل ہوتا ہے، اس ظل کا پھر ظل، پھر تیسرا، چوتھا مرتبہ، جہاں تک اللہ چاہے، کیونکہ ظلال کی کوئی حد نہیں ، صوفی ذکر کی کثرت، سنت پر عمل اور تاثیر صحبت کے باعث ایک ظل تک پہنچتا ہے، پھر ثانی، پھر ثالث وغیرہ میں فنا حاصل کرتا ہے۔ اسی کو مولانا روم نے فرمایا:
ہفصد و هفتاد قالب دیده ام ہم چو سبزه بارہا روئیده ام
یعنی ایک ظلال میں فنا ہو کر دوسرے میں فنا و بقا ہوا، پھر تیسرے میں فنا و بقا ہوا ، تا ہفصد و هفتاد ( سات سو ستر ) تک ۔
یہاں تک کہ اگر فضل الہی تعالی شامل حال ہوا تو متابعت ﷺ، دائرہ اسماء و صفات میں داخل ہوتا ہے، اور جو سیر اس میں واقع ہوگی ، وہ سیر فی اللہ ہے، یہ دولت در اصل انبیا علیہم السلام کا حصہ ہے، دوسروں کو ان کی تابعداری میں نصیب ہوتی ہے، پس اس سے ولایت کبری میں داخل ہوا، جو تین دائروں اور ایک قوس پر مشتمل ہے، اس کے بعد فضل الہی سے مقام عروج طے کرتا ہے، ایک دائرہ سے فوقانی ( (اوپر کا )دائرہ اس سے پہلے دائرہ کے لئے بمنزلہ اصل کے ہے، أصول سہ گانہ ( تینوں دائر وں ) کے بعد قوس میں سیر واقع ہوتی ہے، بفضلہ تعالی، یہ سیرمخصوص ہے نفس مطمئنہ کے ساتھ، اس مقام میں شرح صدر ہوتا ہے، الک اس وقت اسلام حقیقی (رضا) سے مشرف ہوتا ہے، یہ منتہائے ولایت کبری ہے، ولایت صغری و کبری کی یہ تمام سیر اسم الظاہر میں ہوتی ہے۔
اس کے بعد بفضلہ تعالی اسم ” الباطن میں سیر کراتے ہیں، یہ ولایت علیا ، ولایت ملائکہ ہے، اس میں ترقیات: عنصر ناری، ہوائی اور آبی کو نصیب ہیں، جب سالک اسم’ الظاہر اور اسم الباطن‘‘ کے یہ دونوں سلوک طے کر چکا، تو گویا وہ عالم قدس میں طیران (پرواز) کے لئے دو بازو تیار کر چکا ہے، اس کے بعد کمالات نبوت میں ترقی ہوتی ہے، بالاصالت یہ ترقی انبیا علیہم السلام کو نصیب ہے طفلی طور پر دوسروں کو بھی نصیب ہوتی ہے، اس میں نصیب اعلى عنصر خاک کو ہوتا ہے، ولایت صغری، کبری اور علیا کے تمام کمالات، کمالات نبوت کے ظلال ہیں، کمالات نبوت، پھر کمالات رسالت، کمالات اولوالعزم ، حقائق کعبہ، قرآن اور صلوۃ وغیرہ وغیرہ، بمتابعت پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کسی کسی کو عطا فرماتے ہیں۔ اس کے اوپر حقیقت معبودیت صرفہ کا مقام ہے، اور کسی کو بھی اس دولت سے حاصل
دائرہِ ظلال
صوفیائے کرام کے نزدیک تمام موجودات ، اسماء و صفاتِ باری تعالیٰ کے ظِلال ہیں اور اسماء و صفات کیطرح ان کے ظِلال بھی بے انتہاء ہیں ارشادِ باری تعالیٰ ہے مَا عِندَكُمْ يَنفَدُ ۖ وَمَا عِندَ ٱللَّهِ بَاقٍۢ ۗ[النحل 94](ترجمہ: جو تمہارے پاس ہے وہ فانی ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی ہے)
جب سالِک اسماء و صفات کے ظِلال سے اسماء و صفات کی طرف سیر کرتے ہوئے دائرہِ ظِلال میں داخل ہوجاتا ہے اور اپنی اص کو پہنچ جاتا ہے تو اس سیر کو سیر الیٰ اللہ کہتے ہیں دائرہِ ظلال کو دائرہِ اسماء و صفات، دائرہِ ممکنات اور دائرہِ ولایتِ صُغریٰ بھی کہا جاتا ہے۔
ظِلال کا مفہوم
ظِلِّ شئ سے مُراد اس شئ کا دُوسرے مرتبے میں ظہور ہے اگرچہ شِبہ اور مثال کے طور پر ہو۔
حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ اصطلاحِ صوفیاء میں یہاں ظِلّ سے سایہ مراد نہیں جس سے کمالِ لطافت میں (معاذاللہ) نقص کا وہم پیدا ہو بلکہ ظِلال مخلوقاتِ الہٰی میں سے ان لطیفوں کو کہا جاتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات سے پُوری پُوری مناسبت ہے اور وہ مخلوق تک اسماء و صفات کا فیض پہنچانے کیلئے واسطے ہوتے ہیں انہی لطیفوں اور واسطوں کو آسانی کیساتھ سمجھنے کیلئے ظِلال کہہ دیا جاتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ سالک سُکر و مدہوشی کے حال میں ان لطیفوں کو ظِلال سمجھ لیتا ہو۔[ارشاد الطالبین]
بعض صُوفیا نے فرمایا ظِلال سے مُراد تعلّقاتِ صفات ہیں جیسے علم کا تعلق معلومات کیساتھ اور قدرت کا تعلق مقدورات کیساتھ ہے یا ظِلال سے مُراد صفات کی تمثال اور نمونے ہیں جیسے زید کی صورت آئینے میں زید کی تمثال اور نمونہ ہے۔
صوفیاء کے نزدیک ظِلال سے مُراد اَسماء و صفات کے حجابات ہیں کیونکہ ظِلالی ہیکلوں کی شکلوں نے ہی لوگوں کو ذات کی دید اور ملاحظہ سے روک رکھا ہے۔[عبقات]
اسماء و صفات کے ظلال ہی حق اور خَلق کے درمیان حائل ہیں اگر یہ ظلال خالق و مخلوق کے درمیان حائل نہ ہوتے تو ذات و صفات کی تجلیات کائنات کو جَلادیتیں جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: حِجَابُہُ النُّوْرُ وَفِیْ رِوَایَۃِ اَبِیْ بَکْرِِ النَّارُ لَوْ کَشَفَہ لَاَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْھِہ مَا اِنْتَھٰی اِلَیْہِ بَصَرُہ مِنْ خَلْقِہ[صحیح مُسلم، مسند احمد](ترجمہ: اللہ تعالیٰ کےنور کے حجابات ہیں اور ابُوبکر رض کی روایت میں نار کا لفظ ہے اگر وہ حجابات دور ہوجائیں تو ذات کی تجلیات جہاں تک پہنچیں مخلوق کو جلا کر رکھ دیں۔)
بعض روایات میں ہے دَوْنَ اللہِ سَبْعُوْنَ اَلْفَ حِجَابِِ مِنْ نُّوْرِِ وَّ ظُلْمَۃِِ الخ[مجمع الزوائد](ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے نور وظلمت کے ستر ہزار حجابات ہیں)
لُغتِ عرب کے مُحاورہ میں سَبْعُون کا لفظ کسی تعداد کی کثرت کو ظاہر کرنے کیلئے بولا جاتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ نُور و ظلمت کے پردے صرف ستّر ہزار ہی ہیں۔ وَاللہُ اَعْلَم
*حدیث میں جن حجابات کا ذکر ہے صوفیائے کرام کے نزدیک ان سے مُراد ظِلال ہیں تو حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر ظِلال نہ ہوتے تو مخلوق اپنے ضغفِ استعداد اور پستیِ مرتبہ کی بناء پر ذات و صفاتِ حق تعالیٰ کے جلال و جبروت کی تاب نہ لاسکتی اور بموجب آیہِ کریمہ إِنَّ ٱللَّهَ لَغَنِىٌّ عَنِ ٱلْعَـٰلَمِينَ[العنکبوت 6](ترجمہ: اللہ تعالیٰ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے) بغیر واسطہِ ظِلال و حجابات اقتباسِ فیض کی اِستعداد و صلاحیت نہ رکھنے کی وجہ سے بالکل نیست و نابود ہوجاتی۔
*صوفیائے عظام نے اسی حدیث کی روشنی میں فرمایا ہے کہ مومنوں کے مَبادئ تعینات نُور کے حجاب ہیں جو اسم الھادی کے ظِلال ہیں اور کافروں کے مَبادئ تعینات ظُلمت کے حجاب ہیں جو اسم المُضِلُّ کے ظِلال ہیں۔ وَاللہُ اَعَلَمْ
*حضرت غوث الثقلین سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ارشاد بھی اسی مفہوم کی خبر دیتا ہے۔
(ترجمہ: میں نے تمام پردوں کو پھاڑ ڈالا یہاں تک کہ میں وہاں پہنچ گیا جہاں میرے جدِّامجد (دادا)تھے تو انہوں نے مجھے قریب کرلیا۔)
مطلب یہ ہے کہ میں نے ظِلال کے تمام مرتبوں کو طے کرلیا جس کو ولایتِ صُغریٰ کہتے ہیں اور اس جگہ سے سرورِ عالم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبداءِ تعین پر پہنچ گیا جو کہ اسماء و صفات کے مرتبے میں ہے اور اسکو ولایتِ کُبریٰ کہتے ہیں۔ وَاللہُ اعَلم
نہیں، ہاں! اللہ سبحانہ اس مقام میں سیر نظری کراتے ہیں