اس بیان کو مردوں کے ارواح کو صدقہ کرنے کی کیفیت کیا ہے۔ ملا صادق ترک طرف صادر فرمایا ہے:۔
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفٰى سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔
ایک دن خیال آیا کہ اپنے قریبی رشتہ دار مردوں میں سے بعض کی روحانیت کے لیے صدقہ کیا جائے۔ اسی اثناء میں ظاہر ہوا کہ اس نیت سے اس میت مرحوم کو خوشی حاصل ہوئی اور خوش وخرم نظر آئی۔ جب یہ صدقہ کے دینے کا وقت آیا پہلے حضرت رسالت خاتمیت علیہ الصلوة والسلام کی روحانیت کے لیے اس صدقہ کی نیت کی جیسا کہ عادت تھی۔ بعدازاں اس میت کی روحانیت کے واسطے نیت کر کے دے دیا۔ اس وقت اس میت میں ناخوشی اور اندوہ محسوس ہوا اورکلفت و کدروت ظاہر ہوئی۔ اس حال سے بہت تعجب ہوا اور نا خوشی اورکلفت کی کوئی وجہ ظاہر نہ ہوئی حالانکہ معلوم ہوا کہ اس صدقہ سے بہت برکتیں اس میت کو پہنچی ہیں، لیکن خوشی اور سرور اس میں ظاہر نہیں ہوا۔ اسی طرح ایک دن کچھ نقدی آنحضرت ﷺکی نذر کی اوراس نذر میں تمام انبیاء کرام کو بھی داخل کیا اور ان کو آنحضرت کا طفیلی بنایا۔ اس امر میں آنحضرت ﷺکی مرضی و رضامندی معلوم نہ ہوئی۔ اسی طرح بعض اوقات جو میں درود بھیجتا تھا اگراسی مرتبہ میں تمام انبیاء پربھی درود بھیجتا۔ تو اس میں آنحضرت ﷺکی مرضی ظاہر نہ ہوتی۔
حالانکہ معلوم ہو چکا ہے کہ اگر ایک کی روحانیت کے لیے صدقہ کر کے تمام مومنوں کو شریک کر لیں تو سب کوپہنچ جاتا ہے اوراس شخص کے اجر سے کہ جس کی نیت پر دیا جاتا ہے کچھ کم نہیں ہوتا۔ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ بیشک رب تیرا بڑی بخش والا ہے اس صورت میں ناخوشی اور ناراضگی کی وجہ کیا ہے۔ مدت تک یہ مشکل بات دل میں کھٹکتی رہی۔ آخرکار الله تعالی کے فضل سے ظاہر ہوا کہ ناخوشی اورکلفت کی وجہ یہ ہے کہ اگر صدقہ بغیر شرکت کے مردہ کے نام پر دیا جائے تو وہ مردہ اپنی طرف سے اس صدقہ کوتحفہ اور ہدیہ کے طور پر آنحضرت ﷺکی خدمت میں لے جائے گا اور اس کے وسیلے سے برکات فیوض حاصل کرے گا لیکن اگر صدقہ دینے والا خودآنحضرت کی نیت کرے گا تو میت کو کیا نفع ہوگا۔ شرکت کی صورت میں اگر صدقہ قبول ہو جائے تومیت کو صرف اسی صدقہ کا ثواب ملے گا اور عدم شرکت کی صورت میں اگر مقبول ہوجاۓ، اس صدقہ کا ثواب ملے گا اور اس صدقہ کے تحفہ اور ہدیہ کرنے کے فیوض و برکا ت بھی حبیب رب العالمین علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس سے پائے گا۔
اسی طرح ہرشخص کے لیے کہ جس کوشر یک کریں یہی نسبت موجود ہے کہ شرکت میں ایک درجہ ثواب ہے اور عدم شرکت میں دودرجہ کہ اس کو مردہ اپنی طرف سے اس کے حضور پیش کرتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ہدیہ تحفہ جوکوئی غریب کسی بزرگ کی خدمت میں لے جائے بغیرکسی کی شراکت کے اگر چہ طفیلی ہو تو اس تحفہ کا خود پیش کرنا بہتر ہے یا شرکت کے ساتھ۔ کچھ شک نہیں کہ بغیر شرکت کے بہتر ہے اور وہ بزرگ اپنے بھائیوں کو اپنے پاس سے دے دے تو اس بات سے بہتر ہے کہ یہ بے فائدہ دوسروں کو داخل کر نے اور آل واصحاب جوآنحضرت ﷺکے عیال کی طرح ہیں۔ ان کو جوطفیلی بنا کرآنحضرت ﷺکے ہدیہ میں داخل کیا جاتا ہے۔ پسندیدہ اورمقبول نظر آتا ہے۔
ہاں متعارف ہے کہ ہدایات مرسولہ میں اگر کسی بزرگ کے ساتھ اس کےہمسروں کو شریک کریں تو اس کے ادب ورضامندی سے دور معلوم ہوا ہے اور اگر اس کے خادموں کوطفیلی بنا کر ہدیہ بھجیں تو اس کو پسند آتا ہے، کیونکہ خادموں کی عزت اسی کی عزت ہے۔ معلوم ہوا کہ زیادہ تر مردوں کی رضامندی صدقہ کے افراد میں ہے نہ صدقہ کے اشتراک میں،لیکن چاہیئے کہ جب میت کےلئےصدقہ کی نیت کریں تو اول آنحضرتﷺ کی نیت پر ہدیہ جدا کرلیں۔ بعدازاں اس میت کے لیے صدقہ کریں، کیونکہ آنحضرت ﷺکےحقوق دو سروں کے حقوق سے بڑھ کر ہیں۔ اس صورت میں آنحضرتﷺ کے طفیل اس صدقہ کے قبول ہونے کا بھی احتمال ہے۔یہ فقیر مردوں کے بعض صدقات میں جب نیت کے درست کرنے کے لیے اپنے آپ کوعاجز معلوم کرتا ہے تو اس سے بہتر علاج کوئی نہیں جانتا کہ اس صدقہ کو آنحضرت ﷺکی نیت پرمقرر کرے اور اس میت کوانکا طفیلی بنائے۔ امید ہے کہ ان کے وسیلہ کی برکت سے قبول ہوجائے ۔
علماء نے فرمایا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا درود اگررياء سمعہ سے بھی ادا کیا جاۓ تو مقبول ہے اور آنحضرت ﷺتک پہنچ جاتا ہے۔ اگرچہ اس کا ثواب درودبھیجنے والے کون ملے، کیونکہ اعمال کوثواب نیت کے درست کرنے پر موقوف ہے اور آنحضرت ﷺکے قبول کے لیےجو مقبول ومحبوب ہیں۔بہانہ ہی کافی ہے۔ .
آیت کریمه وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًاتجھ پر الله تعالی کا بڑا فضل ہے) آنحضرت ﷺکی شان میں نازل ہوئی ہے۔ علیه وعلى اله الصلوة والسلام وعلی جميع إخواني الكرام من الأنبياء والملائكة العظام إلى يوم القيام
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ102ناشر ادارہ مجددیہ کراچی