قرآن مجید کے بعض کلمات قدسی آیات کے سمجھنے میں سیادت پناه میرمحب اللہ کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
چونک فقیر پہلے اپنی قصورفہم کے باعث قرآن مجید کے بعض کلمات قدسی آیات کے سمجھنے میں تر ددرکھتا تھا اور ان کی تطبیق و مطابقت میں عاجز ہو جاتا تھا۔ تو دسوسوں کے دفع کرنے کے لیے اللہ تعالی کی عنایت سے اس سے بہتر علاج کوئی نہ پاتا تھا کہ اپنے آپ کو کہتا تھا کہ تو اس نظم قرآن کو حق تعالی کی کلام مانتا ہے اور اس کے ساتھ ایمان رکھتا ہے یا نہیں۔ اگر ایمان نہیں رکھتا ہے تو پھر بھی تیری اپنی سمجھ کا قصور ہے نہ کہ نظم قرآنی میں جو زمین و آسمان کے خالق اورعقل و ادراک کے پیدا کرنے والے کا کلام ہے۔
جب الله تعالی کے فضل سے کلام ربانی کے حق ہونے کا ایمان حاصل تھا۔ تو اس تردید سے وہ وسوسه نیست و نابود دور ہو جاتا اور اس تردد سے نجات مل جاتی۔ اب اللہ تعالی کے فضل سے معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے نظم قرآنی میں جہاں کہیں قصور ادراک کے باعث ترد اور خدشہ کی گنجائش ہے۔ وہی مقام قرآن مجید کے ساتھ ایمان کے زیادہ ہونے کا باعث ہے اور وہی خدشہ فرقان حمید کے اعجاز کے ظاہر ہونے کا واسطہ ہے اور وہ اغلاق یعنی مشکل مقامات اعجاز کی قسموں سے متصور ہوتے ہیں اور وہ اشکال کمال بلاغت اور براعت پرمحمول نظر آتے ہیں۔ جن کے سمجھنے میں انسان عاجز ہے۔
جس قدر ایمان قرآن مجید کے نہ سمجھنے میں حاصل ہے۔ اتنا سمجھنے میں نہیں ہے کیونکہ نہ سمجھنے میں اعجازکاوه راستہ کھلا ہوا ہے جوسمجھنے میں نہیں۔ سبحان اللہ یہی نہ سمجھنا بعض کو گمراہ کر دیتا ہے اور کلام کا منکر بنادیتا ہے اور بعض کے لیے یہی نہ سمجھنا قرآن کے ساتھ کمال ایمان کا باعث ہو جاتا ہے اور ہدایت کی طرف لے آتا ہےيُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا (اکثر کو گمراہ کرتا ہے اور اکثر کو ہدایت دیتا ہے) ۔ رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے بھلائی ہمارے نصیب کر)والسلام ۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ104 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی