عالم ارواح ، عالم مثال اور عالم اجسادکی تحقیق مکتوب نمبر 31دفتر سوم

عالم ارواح ، عالم مثال اور عالم اجسادکی تحقیق میں ملا بدرالدین کی طرف صادرفرمایا ہے:۔ 

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفٰى سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔

آپ نے لکھا تھا کہ روح بدنی تعلق سے پہلے عالم مثال میں رہا ہے اوربدن سے جدا ہونے کے بعدپھر عالم مثال میں چلا جائے گا۔ پس قبر کا عذاب عالم مثال میں اس درد کی طرح ہوگا جس کو خواب کی حالت میں عالم مثل  میں محسوس کریں اور یہ بھی آپ نے لکھا تھا کہ اس کلام کی بہت شاخیں اور فروع ہیں۔ اگر قبول کریں تو بندہ اس بات پر بہت سے فروع نکالے گا۔ واضح ہو کے اس قسم کے خیالات صدق سے بالکل خالی ہیں۔ ایسانہ ہو کہ آپ کو غیرمتعارف یعنی غیر مشہور راہ کی طرف رہنمائی کریں۔ اس لیے چند کے باوجودموانع کے اس مبحث کی تحقیق میں لکھے جاتے ہیں۔ والله سبحانه الهادي إلى سبيل الرشاد( اللہ تعالیٰ سیدھے راستے کی ہدایت دینے والا ہے) اے برادر (صوفیاء نے) عالم ممکنات کی تین قسمیں مقرر کی ہیں۔ عالم ارواح و عالم مثال و عالم اجساد عالم مثال کو عالم ارواح اور عالم اجساد کے درمیان برزخ کہتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ عالم مثال ان دونوں عالموں کے معانی اور حقائق کے لیے آئینہ کی طرح ہے۔ کہ اجساد اور ارواح کے معنی اوردقائق عالم مثال میں لطیف صورتوں کی طرح ظہور پاتے ہیں، کیونکہ عالم مثال اور حقیقت کے مناسبت دوسری صورت اورہئیت ہے۔ عالم مثال میں فی ذاتہ صورتیں اورہیئتیں اور شکلیں نہیں ہیں بلکہ صورتیں اور شکلیں اس میں دوسرے عالموں سے منعکس ہوکر ظاہر ہوئی ہیں۔ جس طرح آئینہ جس میں فی نفسہ کوئی صورت شکل نہیں۔ اگر اس میں کوئی صورت موجود ہے تو خارج سے آئی ہے۔ جب یہ بات آپ کو معلوم ہوچکی و پھر جاننا چاہیئے کہ روح بدنی تعلق سے پہلے اپنے عالم یعنی عالم ارواح میں رہا  جو عالم مثال کے اوپر ہے

 اب اگر اس نے بدنی تعلق کے بعد تنزل کیا ہے اورمحبت کے علاقہ کے باعث اجسادمیں اتر آیا ہے تو عالم مثال کے ساتھ کچھ کام نہیں رکھتایعنی نہ اس کو بدنی تعلق سے پہلے عالم مثال کے ساتھ کچھ اور واسطہ تھا اور نہ اب تعلق بدنی کے بعد ہے۔ صرف اس قدر ہے کہ الله تعالی کی توفیق سے بعض اوقات روح اپنے بعض احوال کو عالم مثال کے آئینہ میں مطالعہ کرتا ہے اور اپنے احوال کی خوبی اور برائی کو وہاں سے معلوم کرتا ہے۔ جیسے کہ واقعات اور خوابوں میں یہ بات واضح اور روشن ہے۔ بسا اوقات سالک بغیر اس امر کے کہ حس سے غائب ہو۔ اس بات کو معلوم کر لیتا ہے اور بدن کی مفارقت کے بعد اگر روح علوی ہے تو فوق کی طرف متوجہ ہے اور اگر سفلی ہےتو سفل کا گرفتار ہے۔ عالم مثال سے اس کا کچھ کام نہیں۔ عالم مثال صرف دیکھنے کے لیے ہے نہ کہ رہنے کے لیے۔ رہنے کی جگہ عالم ارواح ہے یا عالم اجساد۔ عالم مثال ان دونوں عالموں کے لیے آئینہ کی طرح ہے جیسے کہ گزر چکا اور وہ درد جو عالم خواب میں عالم مثال میں محسوس ہوتا ہے۔ وہ اس عذاب کی صورت اور شباہت ہے۔ جس عذاب کا مستحق وه خواب دیکھنے والا ہوا ہے اور اس کی تنبیہ کے لیے اس امر کو اس پر ظاہر کیا ہے لیکن قبر کا عذاب اس قسم کا نہیں ہے۔ وہ عذاب کا حقیقت ہے۔ نہ کہ عذاب کی صورت وشباہت۔ نیز وہ درد خواب میں محسوس ہوتا ہے۔ بالفرض اگر حقیقت بھی رکھتا ہو تو دنیاوی دردوں کی کمی سے ہوگا اور قبر کا عذاب آخرت کے عذاب کی قسم سے ہے۔ شَتَّانِ مَا بَيْنَهُمَا ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے۔ ) دنیا کا عذاب آخرت کے مقابلہ میں کچھ اعتبار و مقدار نہیں رکھتا۔ اگر دوزخ کے آگ کی ایک چنگاری دنیا میں آ پڑے تو سب کچھ جلا دے اور نیست و نابود کر دے۔ عذاب قبر کو عذاب خواب کی طرح جاننا عذاب کی صورت اور حقیقت پر اطلاع نہ پانے کے باعث ہے۔ اس اشتباه کہ باعث یہ بھی ہے کہ دنیا کے عذاب اور آخرت کو ایک جیسا سمجھیں، لیکن یہ بھی صاف طور پر باطل ہے۔

 سوال: آیت کریمہ اللَّهُ ‌يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا (الله تعالی قبض کرتا ہے روحوں کو ان کی موت کے وقت اور ان کو جونہیں مرتے اپنی خوابوں میں) سے مفہوم ہے کہ توفی انفس یعنی جانوں کا قبض کرنا جس طرح موت میں ہے۔ اس طرح خواب میں بھی ہے۔ پھر ایک کے عذاب کو دنیا کے عذابوں سے جاننا اور دوسرے کے عذاب کو آخرت کے عذابوں سے کہنا کس وجہ سے ہے۔

جواب: توفی نوم یعنی خواب کاقبض اس قسم کا ہے۔ کہ جیسے کوئی شخص سیروتماشا کے لیے شوق و رغبت کے ساتھ اپنے وطن مالوف سے باہر نکلے۔تا کہ فرح وسرور حاصل کرے اور خوش وخرم اپنے وطن کو لوٹ آئے۔ اس کی سیرگاه عالم مثال ہے۔ جس میں ملک و ملکوت کےعجائبات بھرے ہیں، لیکن موت کاقبض ایسا نہیں ہے، کیونکہ اس وقت وطن مالوف اجاڑ ہو جاتا ہے اور آباد گھر ویران ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواب کے قبض میں کوئی رنج و تکلیف نہیں ہوتی بلکہ فرح وسرور حاصل ہوتا ہے اور موت کے قبض میں بہت سختی اور تکلیف ہوتی ہے۔ پس خواب کے متوفی کا وطن دنیا ہے اور وہ معاملہ جو اس کے ساتھ کرتے ہیں دنیاوی معاملات میں سے ہے اور موت کا متوفی اپنے وطن مالوف کے اجڑ جانے کے بعد آخرت کی طرف انتقال کر چکا ہے۔ اس لیے اس کا معاملہ آخرت کے معاملات میں سے ہے۔ آپ نے سنا ہی ہو گا۔ من مات فقد قامت قيامة (جو شخص مر گیا اس کی قیامت آ گئی) آپ خیالی کشفوں اور مثالی صورتوں کے ظہور سے اہل سنت و جماعت کے مقررہ اعتقادوں کو نہ چھوڑیں اور اپنے خواب و خیال پرمغرور نہ ہوں، کیونکہ اس فرقہ ناجیہ کی متابعت کے بغیر نجات متصور نہیں ۔ اگر آپ کو نجات کی خواہش ہے تو خوش طبعی کو چھوڑ کر جان و دل سے ان بزرگواروں کی اتباع میں کوشش  کریں۔ اطلاع دینا ضروری ہے۔ مَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا ‌الْبَلَاغُ ( قاصد کا کام حکم پہنچا دینا ہے) آپ کی طرزتحریر سے مجھے وہم گزرا تھا کہ ایسا نہ ہو تخیلات آپ کو ان بزرگواروں کی تقلید سے نکال کر اپنے کشفوں کے تابع بنادیںا نَعُوذُ بِاَللَّهِ ‌مِنْ ‌شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا (ہم اس بات سے اور اپنے نفسوں کی شرارتوں اور برے اعمال سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتے ہیں) شیطان بڑا قوی دشمن ہے۔ اس کے مکر سے بخوبی واقف رہیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کو سیدھے راستہ سے بہکا کر گمراہی کے کوچے میں ڈال دے ۔ آپ کو جدا ہوئے ابھی ایک ہی سال ہوا ہے۔ آپ کو کیا ہو گیا کہ وہ احتیاطیں اور کوششیں جو فقیر سنت اور اہل سنت کی محبت کے بارہ میں کیا کرتا تھا اور انہی بزرگواروں کی تقلید میں نجات کو موقوف کہا کرتا تھا۔ شاید سب آپ کو بھول گئیں کہ اپنےمتخیلات کو اپنا مقتدا اور رہنما بنا کر اس پر طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں۔ ظاہری حالات کی روسے ہماری ملاقات بہت بعید معلوم ہوتی ہے۔ آپ اس طرح زندگی بسر کریں جس سے نجات کی امید کا رشتہ نہ ٹوٹ جائے۔ رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا ‌رَشَدًا (يا الله تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے بھلائی ہمارے نصیب کر وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ107ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں