تقیہ کی حقیقت

تقیہ کے معنی ڈرنا اور خوف کرنا ہے اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نےخلفاء ثلاثہ کے ڈر سے ان کی بیعت کر لی تھی اور دل میں ان کی بیعت کو درست نہیں جانتے تھےبظاہر تمام کاموں میں ان کے ساتھ شامل رہتے اور نعوذباللہ دل میں ان کو غلط کار اور بےدین سمجھتے تھے اور اس کے عقیدے کو تقیہ سے تعبیر کرتے اور تمام آئمہ اور اہل بیت کےحق میں ان کے تقیہ کرلینے کا عقیدہ رکھتے ہیں

سورہ آل عمران کی آیت 28 کی رو سے تقیہ کے یہ معنی ہیں کہ جب آدمی کو جان کا خوف ہو تو صرف زبان سے کوئی بات ایسی کہہ دینی جائز ہے جس سے جان بچ جائے خلاف شریعت کسی عمل میں تقیہ جائز نہیں ہے۔ چنانچہ سفیان ثوری نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ تقیہ صرف زبان سے ہے عمل میں نہیں ہے

شیعہ اکثر عراق ایران میں پھیلا اور ایران میں مجوس کے ہاں یہ تقیہ ہمیشہ سے چلا آتا تھا۔ چنانچہ دساتیر نامہ ساسان اول کے (40) جملہ میں مرقوم ہے ان کی تقلید سے یہ مسئلہ اس گروہ نے بھی اپنے مذہب میں جاری کیا اور جہاں کہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آئمہ اہلبیت سے خلفاء ثلاثہ کی مدح منقول ہے اس کے جواب میں اس تقیہ سے کام لیا اور کہہ دیا کہ وہ تقیہ کرتے تھے۔ اس لغویات کو روشن دماغ شیعہ بھی ہرگز نہیں تسلیم کرتے اور آئمہ کبار کی نسبت حق پوشی اور نفاق کا عیب لگانے سے ازحد ڈرتے ہیں۔ ہاں جو لوگ ذاکروں کی تقلید اور ان کے رطب و یابس روایات حکایات پر یقین کرنے والے اس کو مانتے ہیں

اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ حق بات کو ضرورچھپادو، اگر ظاہرکروگے تو مجرم ٹھہروگے۔ چنانچہ انھوں نے اس بارہ میں آئمہ اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف جھوٹی روایات منسوب کردی ہیں کہ وہ کہتے ہیں ہمارا دین لوگوں پہ مت ظاہر کیا جائے، اسی کو وہ تقیہ کہتے ہیں۔ چنانچہ بقول شیعہ حضرت امام جعفر صادق (رض) نے کہا : اتقواعلی دینکم فاحجبوہ بالتقیۃ فانہ لا ایمان لمن لاتقیۃ لہ، یعنی اپنے دین کو بچاؤ اور اسے تقیہ کے ذریعہ لوگوں سے چھپادو، کہ جس کے پاس تقیہ نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔ (اصول کافی کتاب الایمان والکفرصفحہ 458 مطبوعہ دارالمجتبی نجف اشرف، عراق) اور بقول شیعہ حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ نے کہا : التقیۃ حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ نے کہا : التقیۃ دینی ودین ابائی ولاایمان لمن لاتقیۃ، یعنی تقیہ میرا اور میرے باپ دادا کا دین ہے اور جو تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں۔ (اصول کافی کتاب الایمان والکفرصفحہ ٤٥٩) اور بقول شیعہ حضرت امام زین العابدین ( رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اشرف اخلاق الائمۃ والفاضلین من شیعتنا استعمال التقیۃ، یعنی آئمہ اہل بیت اور ہمارے فاضل شیعہ لوگوں کے اخلاق میں سے افضل ترین کام تقیہ کا استعمال ہے۔ (تفسیر امام حسن عسکری صفحہ ٢٩٣ مطبوعہ منشورات ذوی القربی، قم) حالانکہ یہ سب من گھڑت روایات ہیں ‘ یہ آئمہ کرام ایسی باتیں نہیں کہہ سکتے۔ یہ کس قدر ظلم ہے کہ جھوٹ کے بڑے بڑے انبار گھڑ کرآئمہ اہل بیت رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کردیے گئے۔
اہل تشیع کی ان من گھڑت روایات سے معلوم ہوا کہ آئمہ اہل بیت رضی اللہ عنہ کا دین انبیاء کرام علیھم السلام کے دین سے مختلف ہے، انبیاء اور ان کے نائبین نے تو جانیں قربان کردیں مگر کلمہ حق کو نہ چھپایا، مگر آئمہ کہتے ہیں کہ جس نے حق کو ظاہر کردیا اور تقیہ چھوڑ دیا وہ مسلمان ہی نہیں۔ تو صاف معلوم ہوا کہ انبیاء کا دین اور ہے اور آئمہ کا دین اور ہے اور یہ آئمہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کی شان میں شدید گستاخی ہے۔
دراصل تقیہ (حق کا چھپانا) ملحدین کا دین ہے، وہ جھوٹ سے آئمہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر وہ کونسا دین ہے جسے شیعہ فرقہ عام مسلمانوں سے چھپاتا پھرتا ہے ؟ جاننا چاہیے کہ وہ امہات المومنین اور خلفاء راشدین پہ لعنتیں بھیجنا اور تمام اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کو کافرومرتد قرار دینا ہے۔ (معاذاللہ ثم معاذاللہ) دراصل اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اللہ کی طرف سے امام منصوص ہیں، مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کی امامت سے منہ موڑا اس لیے وہ سب کافرومرتد ہوگئے معاذاللہ۔ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے بزعم شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق مارا اس لیے وہ سب سے بڑے مرتد ہیں، معاذاللہ ثم معاذاللہ۔ پھر اس بات پہ انھوں نے جھوٹی روایات گھڑگھڑکرئ آمہ اہل بیت امام جعفر صادق اور امام باقر اور دیگرآئمہ رحمہم اللہ کی طرف منسوب کردیں، تو یہ وہ غلیظ عقائد ہیں جن کو اہل تشیع تقیہ کے پردے میں چھپاتے ہیں۔
اگر تقیہ آئمہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کا دین ہوتا تو امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ میدان کربلا میں اظہار حق کے لیے خاندان سمیت جام شہادت نوش نہ فرماتے ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں