تصدیق قلبی اور یقین قلبی کے درمیان فرق کے بیان میں ملا شیر محمد لاہوری کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)
سوال: بعض محققین متکلمین نے مُؤمَن بِهٖ (یعنی جس کے ساتھ ایمان لایا جائے) بہ کے ساتھ دل کے گرویدہ ہونے کو ایمان کی حقیقت کہا ہے۔ اس کے کیا معنی ہیں؟ اورگرویدہ ہونے مراد سے مُؤمَن بِهٖ کی نفس تصدیق و یقین قلب ہے یا مُصَدَق بِهٖ (جس کی تصدیق کی جائے)کے ساتھ دل کی نفس تصدیق و یقین کے سوا کوئی اورزائد امر بھی ہے؟
جواب: دل کا گرویدہ ہونا دل کے یقین کے ماسوا ہے۔ اگر چہ تصدیق کے ماورا ءنہیں ، لیکن اسی یقین پرمتفرع (زائد)ہے یقین حاصل ہونے کے بعد دل دو حال سے خالی نہیں ہوتا۔ یا مُؤمَن بِهٖ مومن بہ کی تعلیم اور اس کی فرمانبرداری ہوگی۔ یا اس کا انکار وجحود(دانستہ انکار) ہو گا۔ تسلیم وانقیاد (فرمانبرداری)کی علامت یہ ہے کہ مُؤمَن بِهٖ کے ساتھ دل راضی ہو جاتا ہے اور سینہ کھل جاتا ہے اور جحود وانکار کی علامت مُصَدَق بِهٖ کے ساتھ دل کی کراہت اور سینہ کی تنگی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ (جس شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت دینا چاہتا ہے اس کے سینے کو کھول دیتا ہے اور جس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کے سینے کو اسلام کیلئے تنگ کر دیتا ہے۔ گویا کہ وہ آسمان میں چڑھتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر پلیدی ڈالتا ہے جو ایمان نہیں لاتے) مُصَدَق بِهٖ کے ساتھ تصدیق و یقین کے حاصل ہونے کے بعد دل کو مُصَدَق بِهٖ کے ساتھ تعلیم و انقیادکا حاصل ہونامحض حق تعالیٰ کی بخشش اور اس کے لامتناہی کرم پر موقوف ہے۔ اسی واسطے ایمان کو اللہ تعالیٰ کی بخشش کہتے ہیں اور مُصَدَق بِهٖ کے ساتھ تصدیق و یقین کے حاصل ہونے کے بعد جحودو انکار کا باعث نفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) کی ردی صنعتوں کا راج اور مضبوط ہونا ہے۔ جو حب جاہ اور بلندی اور ریاست پر پیدا ہوا ہے اور دوسرے کی متابعت اور تقلید کو قبول نہ کرنے پرمخلوق ہے اور چاہتا ہے کہ سب اس کی تصدیق اور اس کی تابعداری کریں اور وہ خود کسی کی تقلید و متابعت اور تسلیم و انقیاد نہ کرے۔ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَكِنْ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا، لیکن وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے) الله تعالیٰ نے بعض کومحض اپنے فضل وکرم سے اس پیدائشی مرض سے نکال کر انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی جو سیدھے راستہ کی ہدایت کرنے والے ہیں) تعلیم و انقیاد سے مشرف فرمایا اور ہمیشہ کے لیے جنت کا وعدہ دیا جو اس کی رضا کا گھر ہے اور بعض کو اپنے طور پر چھوڑ دیا اور جبرا قہرایعنی زبردستی ان کو ان طبعی رذائل سے نہ نکالا اور اس دولت کی طرف ہدایت نہ دی لیکن انبیا علیہم الصلوة والسلام کو بھیچ کر اور کتابوں کو نازل کر کے صراط مستقیم کو بیان کر دیا ہے اور مصدق و مکذب اور عاصی و مطیع کو بڑے مبالغہ کے ساتھ خوشنجری اور خوف دلایا ہے اور فریقین پر حجت کو درست کردیا ہے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ156ناشر ادارہ مجددیہ کراچی