قلب ونفس کے فناء او علم حصولی اور حضوری کے زوال میں فقیر محمد ہاشم کشمی کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
فناء ماسوائے حق کے نسیان سے مراد ہے اور ماسوی دوقسم پر ہے۔ ایک آفاق دوسرےا نفس۔ آفاق کا نسیان یہ ہے کہ آفاق کا علم حصولی نہ رہے اور انفس کا نسیان یہ ہے کہ ا نفس کا علم حضوری زائل ہو جائے، کیونکہ علم حصولی آفاق کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اورعلم حضوری نفس کے ساتھ اشیاء کے علم حصولی کا مطلق طور پر زائل ہونا بھی اگر چہ مشکل ہے، کیونکہ اولیاء کا نصیب ہے لیکن علم حضوری کامطلق طور پر دور ہونا بہت ہی مشکل ہے اور اولیاء میں سے کاملین کا حصہ ہے عجب نہیں کہ اکثرعقلمند اس کی تجویز بلکہ تصور کو محال جانیں اور مدرک یعنی عالم پر مدرک یعنی معلوم کے حاضر نہ ہونے کو سفسط یعنی خواب و خیال سمجھیں، کیونکہ ان کے نزدیک نفس شے پر شے کا حضور ضروری ہے۔ پس جب ان کے نزدیک علم حضوری کا ایک لمحہ کے لیے بھی زائل ہونا جائز نہیں تو پھر اس علم کا مطلق طور پر اس طرح زائل ہونا کہ پھرکبھی اعادہ نہ کرے۔ کس طرح جائز ہوگا۔ پہلانسیان جوعلم حصولی کی نسبت ہے فناء قلب سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا نسیان جوعلم حضوری کی نسبت ہے فناء نفس کامستلزم ہے۔ جو اتم و اکمل ہے۔ فناء کی حقیقت اس مقام میں ہے اور پہلی فناء اس فناء کی صورت کی طرح ہے اور اس کے ظل کی مانند ہے، کیونکہ علم حصولی در حقیقت علم حضوری کاظل ہے۔ اس لیے علم حضوری کی فنا کلی ظل ہوگی۔ اس فناء کے حاصل ہونے سے نفس مقام اطمینان میں آ جاتا ہے اور حق تعالیٰ سے راضی و مرضی ہو جاتا ہے اور بقاء و رجوع کے بعد تکمیل و ارشاد کا معاملہ اس کے متعلق ہوتا ہے اور عناصر اربعہ
جو بدن کے ارکان ہیں اور ان سے کوئی کسی امرکا تقاضا کرتا ہے اور کسی شے کو چاہتا ہے ان کی مختلف طبیعتوں کیساتھ اس کو جہادغزا حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ دولت بدن کے لطائف میں سے نفس کے سواکسی کو بھی حاصل نہیں۔ یہی ہے جو ابلیس کی انانیت کو جوعنصر آتش سے پیدا ہے سیاست و حکومت سے درست کرتا ہے اور قوت شہو یہ اورغضبیہ اور تمام برے اوصاف کو جن میں تمام چار پائے اور حیوانات شریک ہیں۔ حسن تربیت کے ساتھ اعتدال پر لاتا ہے۔ سبحان اللہ وہی لطیفہ جو تمام لطائف میں بدتر ہوتا ہے۔ سب سے بہتر ہو جاتا ہے۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے خِيَارُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقِهُوا (جو جاہلیت میں تم سے بہتر تھے وہ اسلام میں بھی تم میں سے بہتر ہیں جب دین کوسمجھ لیں)
تنبیہ: قلب سے ماسوی کے نسیان کی علامت یہ ہے کہ قلب میں ماسوا کا گزر نہ رہے۔ یہاں تک کہ اگر قلب کو تکلف کے ساتھ بھی ماسوا یاد دلائیں تو بھی اس کو یاد نہ آئے بلکہ اس کو قبول نہ کرے اورنفس عالم کے علم حضوری کے زائل ہونے کی علامت یہ ہے کہ عالم بالکل منتفی( نیست و نابود) معلوم ہو جائے اور اس کا کوئی عین واثر نہ رہے تا کہ اس سے علم و معلوم کا زائل ہونا مقصود ہو
کیونکہ علم و معلوم اس مقام میں نفس عالم ہی ہے۔ جب تک نفس عالم زائل نہ ہو علم و معلوم منتفی نہیں ہوتے۔ پہلی فناء فناء آفاق ہے اور دوسری فناء فناءا نفس جوفناء کی حقیقت ہے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ158ناشر ادارہ مجددیہ کراچی