گزشتہ صحبت پر افسوس کرنے اور نئے اسرار کی طرف اشارہ کرنے میں جناب پیر زادہ خواجہ محمد عبداللہ اور خواجہ جمال الدین حسین ولد خواجہ حسام الدین کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) قرة العینین ومسرة الاذنین یعنی میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور کانوں کی خوشی خواجہ محمد عبد اللہ اور خواجہ جمال الدین حسین ظاہری باطنی جمعیت کے ساتھ آراستہ ہیں آپ نے عجیب تغافل اور نا مہربانی فرمائی کہ نز دیک پہنچ کر سر ہند میں نہ آئے اور اس غریب کا حال نہ پوچھا اور آشنائی کے حقوق بجا نہ لائے۔ فقیر خواجہ محمد افضل کا کیا گلہ کرے کہ وہ پہلے ہی فقیر کی دوستی سے کوسوں بھاگتے اور ڈرتے ہیں اور میر منصور کی نسبت کیا ہے کہ وہ ہمیشہ صحبت کی آرزو ہی کرتے رہتے ہیں، لیکن قوة سے فعل میں نہیں آتی اور صحبت کا موقع نہیں ملتا۔ فقہا بزرگ کا قول ہے۔ الراضی بالضرر لا يتق النظر (ضرر کا راضی شفقت کا مستحق نہیں)لشکر اگر چہ ظلمات کا دریا ہے، لیکن آب حیات اسی میں ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی عنایت سے گو۔نادر طور پر ہی ہو۔ وہ گوہر ہاتھ آتا ہے کہ دوسری جگہ میں اگر اس گو ہرکا شبہ ہی میسر ہو جائے تو غنیمت ہے۔ جس بہادر نے کچھ قیمت و قدر حاصل کی ہے۔دشمنوں کے غلبہ کے وقت حاصل کی ہے۔ اگر چہ سلامتی گوشہ میں ہے۔ لیکن غزاو شہادت کی اعلی دولت معرکہ اور لڑائی میں ہے۔ گوشہ نشینی ضعیفوں اور اہل ستریعنی عورتوں کے لیے مناسب ہے۔ حدیث میں آیا ہے۔ الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِطاقتورمومن ضعیف مومن سے اچھا ہے) میدان جنگ میں نکلنا اور بڑے گھمسان کی لڑائی کرنا بڑی ہمت والے مردوں کا کام ہے۔ قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَى سَبِيلًا ( کہ ہرایک اپنی اپنی طرز پرعمل کرتا ہے۔ تمہارا رب جانتا ہے کہ تم میں سے زیادہ ہدایت والا کون ہے) رخصت کی مدت گزرنے کے بعد جب لشکر کی طرف آنے لگا۔ تو فرزندی محمد سعید کو گھر میں چھوڑ آیا جب ان فیوض و برکات اور علوم و معارف کو جو فرزند کی جدائی کے بعد ظاہر ہوئے تھے ملاحظہ کیا تو اس کی جدائی سے پشیمان ہوا اور موقع کو غنیمت جان کر اس کو بلا لیا۔ چھوٹے بڑے سب اس امید پر آئے ہیں کہ ان برکات سے فائدہ حاصل کریں۔ عجب معاملہ ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ہم ملامتی گروہ اور قلندریہ زمرے میں ہیں۔ حالانکہ ہم ان دونوں گروہوں سے جدا ہیں اور ہمارا کاروبار بھی ان سے الگ ہے۔ نئے نئے علوم کا کچھ بیان اس مکتوب (نمبر 53 دفتر اول)سےسن لیں جس کا عنوان یہ ہے۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًالا عينا ولا أثرا شهودا و وجودا (انسان پر ایک ایسا زمانہ تھا کہ اس کا کچھ نام ونشان نہ تھا۔ نہ اس کا عین تھا نہ اثر اور نہ شہو د اورنہ وجود ) آپ نے مکتوب میں دیکھا ہے کہ فقیر نے زوال و جودی کوالحار و زندقہ کہا ہے ۔ مگر یہاں اس کو لکھ کر اللہ تعالیٰ کے کرم سے اس کا علاج کر دیا ہے۔
قياس کن گلستان من بہار مرا ترجمہ: اس گلستان سے میری بہار کو قیاس کرلے
یہ سب دولتیں انہی واقعات کی برکات سے ہیں۔ لو لاھالما وجھت تلك (اگر یہ واقعات نہ ہوتے تو یہ برکات بھی حاصل نہ ہوتیں۔ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ يا الله تو ہمارے نور کو کامل کر اور ہمیں بخش۔ تو ہر چیز پر قادر ہے) مولانامحمد مراد چونکہ ان حدود کی طرف جانے والے تھے۔ اس لیے یہ کلمہ لکھے گئے ہیں۔ انجام بخیر ہو۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ166ناشر ادارہ مجددیہ کراچی