عارف کامل کی خصوصیات مکتوب نمبر 65دفتر سوم

 اس بیان میں کہ بقاء ذات کے بعد عارف کی صفات میں سے ہر ایک صفت اور  لطائف میں سے ہر ایک لطیفہ ذات کی کلیت میں ظہور کرتا ہے۔ مولانا ظفر احمد رومی کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ 

عارف کامل تام المعرفت کو بقا ء ذات کے بعد جب صفات و اخلاق کا ملہ عطا فرماتے ہیں تو ان صفات میں سے ہر ایک  صفت  اس کی ذات کی کلیت کے طور پر متصف ہوکر ظہور کرتی ہے۔ یہ نہیں کہ اس کی ذات کا کچھ حصہ کسی  صفت  سے متصف ہو اور کچھ حصہ کسی  صفت  سے یعنی اس کی ذات بتمامہ علم اور بتما مہ سمع اور بتمامہ بصر ہوتی ہے۔ جیسے کہ محققین صوفیہ نے حق تعالیٰ  کی صفات کے بارے میں کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ  کی ذات کلہ علم ہے اور کلہ قدرت اور کلہ سمع  اور کلہ بصر ہے یہی وجہ ہے کہ مومن لوگ بہشت میں اللہ تعالیٰ  کو بے جہت دیکھیں گے کیونکہ بالکل بصرہی بصر ہو جائیں گے اور جب ہمہ تن بصر ہوں گے تو پھر جہت کی کیا گنجائش ہوگی ۔ صوفیہ نے کہا ہے کہ جو کچھ عام مومنوں کو چنیں و چناں(بحث و تکرار) کے بعد آخرت میں میسر ہوگا وہ خاص مومنوں یعنی اولیاء کو دنیاہی میں میسر ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ان کا ادھار ان کا نقد ہے۔ پھر قیاس کرنا چاہیئے کہ ان کا ادھار کیا کچھ ہوگا ۔ ع 

قياس کن گلستان من بہار مرا ترجمہ: اس گلستان سے میری بہار کو قیاس کرلے 

۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( یہ الله تعالیٰ  کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور الله تعالیٰ  بڑے فضل والا ہے۔)

) اسی طرح اس عارف کے لطائف میں سے ہر ایک لطیفہ اس وقت اس کی کلیت کے رنگ میں ظہور کرتا ہے یعنی عارف بتمامہ لطیفہ روح اور بتمامہ لطیفہ قلب ہو جاتا ہے۔ باقی انسانی لطائف یعنی نفس ناطقہ اور سر اور خفی اور اخفیٰ بھی اسی قیاس پر ہیں ۔ اسی طرح اس کے اجزاء میں سے ہر ایک جزو اور اس کے عناصر میں سے ہر ایک عنصرکل کا حکم پیدا کر لیتا ہے۔ یعنی عارف اپنے آپ کو ہمہ تن عنصرخاک معلوم کرتا ہے اور ہمہ تن عنصرآب تصور کرتا ہے۔ جب لطیفہ قلب جو حقیقت جامع ہے کل کے رنگ میں رنگا جاتا ہے تو وہ تعلق جو اس کی مضغہ قلبیہ سے ہوتا ہے دور ہو جاتا ہے اور یہ مضغہ اس وقت خالی رہ جاتا ہے اور جسد بے روح کی طرح دکھائی دیتا ہے اور ایسا متخیل ہوتا ہے کہ اس آمد و رفت(فنا و بقاء) میں اس کو اس راستہ کی گرد بھی نہیں لگی اور وہ اپنی اصلی صرافت(خالصیت) پر ہے جس طرح دیگ پختہ میں کوئی دانہ کچا اصلی صرافت پر رہ جائے نہ آگ کی گرمی اس میں تاثر کرے اور نہ پانی کی رطوبت اس کو پہنچے۔ حاصل کلام یہ کہ قلب اس تعلق کے رفع ہونے اور خالی ہو جانے کے بعد تمام اجزاء کے رنگ میں رنگا جاتا ہے اور دوسرے اجزاء کی طرح کل کاحکم پیدا کرلیتا ہے۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ189ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں