اس سوال کے جواب میں کہ المَجازُ قَنْطَرةُ الْحَقِيقَةکے کیا معنی ہیں محمد مقیم قصوری کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
برادرمحمد مقیم نے پوچھا کہ المَجازُ قَنْطَرةُ الْحَقِيقَة یعنی مجاز کو حقیقت کا پل کس معنی سے کہتے ہیں۔ جاننا چاہیئے کہ مجاز حقیقت کاظل ہے جوظل سے اصل کی طرف سیدھا شاہراہ ہے۔ شاید اسی اعتبار سے کہتے ہیں کہمَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ (جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے رب کو پہچان لیا)کیونکہ ظل کی معرفت اصل کی معرفت کو مستلزم ہے اس لیے کہ ظل اپنے اصل کی صورت پر موجود ہے ۔ پس اصل کے انکشاف کا سبب ہوگا۔ لِإَنَّ صُوْرَةَ الشَّيْءِ مَا يَنْكَشِفُ بِهٖ ذَلِكَ الشَّئْ ( کیونکہ شے کی صورت وہ ہے جس سے اس شے کا انکشاف ہوتا ہے لیکن جاننا چاہیئے کہ مجاز حقیقت کا پل اس صورت میں ہے کہ مجاز کی گرفتاری در میان نہ آئے اور نظر ثانیہ تک نہ پہنچے وہ نظر اولی ہی ہے جو حقیقت کا پل ہے جس کی نسبت مخبر صادق نے اَلنَّظْرَةُ الْأُوْلىٰ لَکَ (پہلا دیکھنا تیرے لیے ہے) فرمایا گویا لفظ لَکَ سے اس دولت کے حاصل ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے اور اگر نعوذ بالله مجاز کی گرفتاری در میان آجائے اور نظره ثانیہ تک نوبت پہنچ جائے تو وہی مجاز حقیقت تک پہنچنے کا مانع ہے۔ وہ قنطرہ یعنی پل کیا ہوگا بلکہ بت ہے جو اپنی پرستش کی طرف بلاتا ہے اور دیو ہے جو حقیقت کی طرف سے روگردان کرتا ہے۔ اسی واسطے مخبر صادق علیہ الصلوة والسلام نے نظره ثانیہ کو مضر جان کر اَلنَّظْرَةُ الثَّانِيَةُ عَلَيْکَ (دوسری نظر تیرے لیے وبال ہے) فرمایا ہے اس سے بڑھ کر زیادہ مضر چیز کون ہو گی جوت سے ہٹا رکھی ہے اور باطل کے ساتھ گرفتار کرتی ہے۔ جاننا چاہیئے کہ نظره اولی اس وقت نافع ہے جب کہ اپنے اختیار سے نہ ہو اور اگر اختیار سے ہو تو نظر ثانی کا حکم رکھتی ہے اس مطلب کے ثابت کرنے کے لیے آیت کر یہ قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصارِهِمْ کافی ہے۔ بیوقوف کچے صوفی اس عبارت کے معنی غلط سمجھ کر صورت جمیلہ کے ساتھ گرفتاری پیدا کرتے ہیں اور اس کی ناز و ادا پر فریفتہ ہوتے ہیں ۔ اس طمع پر کہ اس کو حقیقت تک پہنچنے کا وسیلہ اور مطلوب کے حاصل ہونے کا زینہ بنائیں ۔ حاشا وکلا یہ امر سراسر مطلوب کا سد راہ ہے اور مقصود کے حاصل ہونے کا حجاب ہے۔ یہ ایک باطل ہے جو ان میں سے بعض صوفیہ صورتوں کے حسن و جمال کو حق تعالیٰ کا حسن و جمال سمجھ کر ان کے تعلق کو عین حق تعالیٰ کا تعلق جانتے ہیں اور ان کے مشاہدہ کو حق تعالیٰ کا مشاہدہ خیال کرتے ہیں ۔ ان میں سے بعض اس طرح کہتے ہیں ۔ بیت
امروز چوں جمال تو بے پردہ ظاہراست در حیرتم که وعده فرد ابراۓ چیست
ترجمہ بیت ظاہر ہے جب جمال ترابے حجاب آج حیرت ہے پھر کہ دعده فردا کیوں ہوا
تَعَالَى اللہُ عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا اللہ تعالیٰ اس بات سے جو کہتے ہیں بہت ہی برتر ہے) معلوم نہیں ان بیوقوفوں نے حق تعالیٰ کو کیا گمان کیا ہے اور اس کے حسن و جمال کو کیا تصور کیا ۔ شاید انہوں نے نہیں سنا کہ اگر بالفرض اس کی مخلوق میں سے جو بہشت کا ایک بال بھی دنیا میں آپڑے تو اس بال کی چمک اور روشنی کے باعث دنیا میں بھی رات نہ آئے اور اندھیرا نہ چھائے اور حق تعالیٰ کی ایک ہی بجلی سے کوہ طور کا جل کر ریزہ ریزہ ہونا اور حضرت موسی کلیم اللہ علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کا باوجود اس قرب و منزلت کے بے ہوش ہو کر گر پڑنا نص قرآنی سے ثابت ہو چکا ہے لیکن یہ بیوقوف ہر وقت خدا تعالیٰ کو بے پردہ رکھتے ہیں اور آخرت کے رؤیت کے وعدہ پر تعجب کرتے لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا انہوں نے اپنے نفسوں میں تکبر کیا اور سخت سرکش ہوگئے ) علماء اہل سنت و جماعت نے بڑی کوششیں کی ہیں اورنقلی دلیلوں کے ساتھ مخالفوں کے سامنے آخرت کی رؤیت کو ثابت کیا ہے کیونکہ اہل سنت و جماعت کے سوا باقی تمام مخالف گروہ کیا اہل ملت کیا غیر اہل ملت آخرت کی رؤیت کے قائل نہیں بلکہ اس کو محال عقلی سمجھتے ہیں ۔ اہل سنت و جماعت نے بھی اس کو بے کیف کہا ہے اور عالم آخرت پرمخصوص رکھا ہے لیکن ان بوالہوسوں نے اس اعلے دولت کو اسی عالم فانی میں تصور کیا ہے اور اپنے خواب و خیال پر خوش ہورہے ہیں ۔ ۔ رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے بھلائی ہمارے نصیب کر وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ وَالتَّسلِيمَاتُ العُلیٰ اَتَمَّهَا وَاَدْوَمَهَا اور سلام ہو آپ پر اوران لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ191ناشر ادارہ مجددیہ کراچی