مکشوفات مجدد پاک اور ابن عربی میں فرق مکتوب نمبر 67دفتر سوم

 کائنات کی حقیقت اور حضرت ایشان قدس سرہ اور صاحب فتوحات کے مکشوف کے درمیان فرق کے بیان میں میر منصور کی طرف صادر فرمایا ہے:   

یہ عرصہ کائنات جو معائن(معائنہ میں آنا) و مشاہد(مشاہدہ میں آنا) و منبسط (کشادہ)و مسطح(پھیلا ہوا) وطویل وعریض خیال میں آتا ہے۔ حضرت شیخ محی الدین بن عربی اور اس کے تابعداروں کے نزدیک(یہ سب کچھ) حضرت وجود ہے جس کے سوا خارج میں کچھ موجود ہیں اور وہ حق تعالیٰ  کی ذات کا وجود ہے جس کو ظاہر وجود کہتے ہیں ۔ یعنی وہ وجود جو اپنی وحدت اور بساطت پر ہے۔ صور علمیہ متکثرہ ( جن کو باطن وجود کہتے ہیں اور اعیان ثابتہ  سے تعبیر کرتے ہیں) کے انعکاس اورتلبس کے باعث متکثرہ(بکثرت) اور منسبط اور طویل و عریض متخیل ہوتا ہے اورفر ماتے ہیں کہ اس صفحہ میں اور کسی لباس میں اور مختلف صورتوں شکلوں میں عام و خاص کا مشاہدہ محسوس حق تعالیٰ  ہی ہے جو عوام کو عالم محسوس ہوتا ہے ۔ حالانکہ عالم ہر گز خانہ علم سے باہر نہیں آیا اور وجود خارجی کی بو نہیں پائی بلکہ ان علمیہ صورتوں کے عکس ہیں جنہوں نے حضرت وجود کے آئینہ میں ظاہر ہو کر خارج میں نمود پیدا کیا ہے اور عام کو وجود کے وہم میں ڈالا ہے۔ مولوی جامی علیہ الرحمتہ نے فرمایا ہے ابیات 

مجموعه کون رابقا نون سبق کردیم تصفح ورقا بعد ورق

حق که ندیدیم و نخواندیم درد جز ذات حق و شیون ذاتیہ حق

ترجمہ ابیات 

سارے عالم کا سبق پڑھ کر دیکھا اس کے ہر ایک ورق کو الٹا کر دیکھا ہر برگ میں ہر ذرہ میں ہر صورت میں حقا کہ خدائے بزرگ و برتر دیکھا ۔

اور جو کچھ اس فقیر کا مکشوف اور معتقد ہے وہ یہ ہے کہ یہ عرصہ عرصہ وہم (وہم کا میدان)ہے اور یہ صورتیں اور شکلیں جو اس عرصہ میں ہیں ممکنات کی صورتیں اور شکلیں ہیں جنہوں نے حق تعالیٰ  کی صفت سے مرتبہ حس ووہم میں ثبوت و استحکام حاصل کیا ہے اور اس صفحہ(ہستی) میں جو کچھ مشہود(مشاہدہ) ومحسوس ہے سب ممکنات کی قسم سے ہے۔ اگر چہ بعض سالکوں کو وہ مشہود واجب کے ساتھ متوہم ہوتا ہے اور حقیقت کے طور پر ظاہر ہوتا ہے لیکن درحقیقت عالم کے افراد و اقسام سے ہے حق تعالیٰ  وراء الوراءہے اور ہماری دید و دانش سے جدا اور ہمارے کشف و شہود(مشاہدہ)  سے مبرا ہے۔ بیت

 خلق راوجہ کے نمایداو در کدام آئینه درآیداو

 ترجمہ بیت: کب وہ خلقت کو منہ دکھاتا ہے کونسے آئینے میں آتا ہے۔ 

حاصل کلام یہ کہ یہ عرصہ متو ہم اس عرصہ خارجیہ کا ظل ہے جو مرتبہ وجودتعالیٰ  کے لائق ہے جس طرح کہ اس مرتبہ کا وجود اس مرتبہ کے وجود کا ظل ہے ۔ اس مرتبہ وہم کو اگر اس اعتبار سے کہ مرتبہ خارج کاظل ہے ۔ خارج بھی کہیں تو ہوسکتا ہے جس طرح کہ وجود ظلی کے اعتبار سے اس کو موجود بھی کہتے ہیں ۔ یہ عرصہ وہم عرصہ خار جی کی طرح واقعی اورنفس الامری (اصل حقیقت)  ہے اور احکام صادقہ رکھتا ہے اور دائمی معاملہ اسی پر وابستہ ہے جیسے کہ حضرت مخبر صادق نے اس کی نسبت خبر دی ہے ۔ اب ملاحظہ کرنا چاہیئے کہ ان دونوں مکشوفوں میں سے کون ساحق تعالیٰ  کی تنزیہ و تقدیس کے زیادہ قریب اور لائق ہے اور اس پاک بارگاہ کے لیے بہتر اور مناسب ہے اور ان دونوں میں سے کون سا بدایت و توسط حال کے ساتھ مناسب رکھتا ہے اور کون سا انتہا کے حال کے مناسب ہے۔ کئی سالوں تک اس فقیر کامکشوف و معتقد اول رہا ہے اور اس مقام میں بہت احوال عجیبہ اور مشاہدات غریبہ گزرے ہیں اور اس مقام سے بہت حظ حاصل کیے ۔ آخر کار الله تعالیٰ  کے فضل سے معلوم ہوا کہ جو کچھ دیکھا اور جانا گیا ہے سب حق تعالیٰ  کا غیر ہے جس کی نفی لازم ہے کچھ مدت کے بعد حق تعالیٰ  کے کرم سے معاملہ نفی 

سے انتفاء (نیست ہونے)تک پہنچ گیا اور وہ باطل جو اپنے آپ کوحق ظاہر کرتا تھا ۔ دید و دانش سے گر گیا اور غیب الغیب کے ساتھ تعلق حاصل ہو گیا اور موہوم موجودسے اور حادث قدیم سے متمیز و جدا ہوگیا جومکشوف ثانی کا حاصل ہے۔ 

رباعی للمولف

درعرصہ کا ئنات بادقت فہم بسیار گزشتیم بسرعت چوں سہم

گشتیم ہم چشم وندیدیم درو جزظل صفات آمد ثابت در وہم  

ترجمہ رباعی عرصہ  عالم میں بہت غور کیئے تیر کی مانند دنیا میں پھرے آنکھ بنے پر بھی بجز ظل صفات اور نشان کچھ نہ ہمیں اس کے ملے ۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ (الله تعالیٰ  کے لیے حمد ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم بھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے اللہ تعالیٰ  کے رسول حق کے ساتھ آئے ہیں)۔ ) والسلام۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ193ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں