لشکر کی تلوینات ارباب جمعیت کے لیے تمکین مکتوب نمبر 72دفتر سوم

 اس بیان میں کہ لشکر کی تلوینات ارباب جمعیت کے لیے تمکین ہے اور اس استفسار کے جواب میں جو مولود خوانی کے بارہ میں کیا گیا تھا۔ خواجہ حسام الدین کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالیٰ  کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)صحیفہ شریفہ جو ازروئے کرم و شفقت کے اس فقیر کے نام لکھا تھا۔ اس کے مطالعہ سے مشرف ہوا۔ اللہ تعالیٰ  کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ آپ صحت و عافیت سے ہیں اور دور افتادہ دوستوں کے حالات سے غافل نہیں ہیں۔ اس طرف کے فقراء کے احوال و اوضاع حمد کے لائق ہیں کہ عین  بلا میں عافیت اور عین تفرقہ (انتشار و پراگندگی)  میں جمعیت حاصل ہے وہ فرزند  دوست جو ہمراہ ہیں ان کے اوقات بھی جمعیت سے گزر رہے ہیں اور ان کے احوال میں ترقی ہورہی ہے۔ غرض لشکر ان کے حق میں خانقاہ شخص ہے کہ لشکریوں کی عین تلوینات (ایک حال یا صفت سے دوسرے حال یا صفت میں تبدیل ہوتے رہنا)  میں ان کو تمکین (سالک کا مطلوب حقیقی سے واصل ہونا)  حاصل ہے اور عین مختلف گرفتاریوں میں جو اس مقام کو لازم ہیں ایک ہی مطلب کے گرفتار ہیں ۔ نہ ان کے ساتھ کسی کا تعلق ہے نہ ان کو کسی سے واسطہ اس کے علاوہ بے اعتبار و حبس و قید میں گرفتار ہیں ۔ یہ ایک قید ہے جس کے عوض خلاصی کو کوڑی کے برابر نہیں لیتے۔  اَلْحَمْدُلِلہِ  سُبْحَانَہٗ  وَالْمِنَّةُ عَلىٰ ذٰلِكَ وَعَلىٰ جَمِيْعِ نِعَمَائِهٖ (اس نعمت پر اور اللہ تعالیٰ  کی تمام نعمتوں پر اس کی حمد اور احسان ہے ) میرے مخدوم قرة العينين ( یعنی خواجہ باقی باللہ کے دونوں فرزندوں) کی طرف خط بھیجنے سے مقصود ان بعض نعمتوں کے فوت ہو جانے پر اظہار افسوس تھا کہ وطن میں جن کے حاصل ہونے کی امیدتھی اور لشکر میں آنا اورصحبت رکھنا آپ کی صلاح پر وابستہ ہے کیونکہ آپ لشکر اور لشکریوں کے اوضاع و احوال کو بہتر جانتے ہیں اور اس مقام کا نفع ضرر اچھی طرح پہچانتے ہیں ۔ آپ نے لکھا تھا کہ اگر تم لکھو کہ آفات سے محفوظ ہوں گے تو آجائیں ۔ اَلْغَيٓبُ عِنْدَ اللهِ (غیب اللہ تعالیٰ  کو معلوم ہے ) اللہ تعالیٰ  کی حمد ہے کہ باوجود یہ کہ ارباب تفرقہ (انتشار و پراگندگی)  سے بہت میل جول ہے لیکن اللہ تعالیٰ  کے کرم سے ہمراہیوں میں سے کسی کو بھی اب تک تفرقہ   کی آفت نہیں پہنچی اور مطلب سے نہیں روکا ۔ نیز آپ نے مولود خوانی کے بارہ میں لکھا تھا کہ قرآن مجید کو خوش آواز سے پڑھنے اور نعت و منقبت کے قصائد کو خوش آوازی سے پڑھنے میں کیا مضائقہ ہے۔ ہاں قرآن مجید کے حروف کی تحریف اور ان کا تغیر تبدل اور مقامات نغمہ کی رعایت اور اس طرز پر آواز کا پھیرنا اور سر نکالنا اور تالی بجانا وغیرہ وغیرہ جو شعر میں بھی ناجائز ہیں سب ممنوع ہیں۔ اگر اس طرح پر پڑھیں کہ کلمات قرآنی میں تحریف واقع نہ ہو اور قصیدوں کے پڑھنے میں بھی شرائط مذکورہ بالا ثابت نہ ہوں اور وہ بھی کسی غرض صحیح کے لیے تجویز کریں تو کوئی ممانعت نہیں۔ میرے مخدوم فقیر کے دل میں آتا ہے کہ جب تک آپ اس دروازہ کو بالکل بندہ نہ کریں گے بوالہوس نہیں رکیں گے اگر آپ تھوڑا بھی جائز رکھیں گے تو بہت تک پہنچ جائے گا۔ قَلِيْلُہٗ يُفْضِیْ إِلىٰ كَثِيْرِہٖ ( تھوڑا بہت کی طرف لے جاتا ہے ) مشہور قول ہے دالسلام 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ202ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں