تجلی ذات ،رؤیت اخروی اور عارف کے اسرارمکتوب نمبر79دفتر سوم

 عارف کی ذات موہوب حقانی کےبیچونی اسرار اور تجلی ذات اور آخرت کی رؤیت کے ثبوت میں خواجہ محمدمعصوم کی طرف صادر فرمایا ہے: ۔ 

جب عارف کا معاملہ شیون وصفات سے گزر جاتا ہے اور ذات تعالیٰ و تقدس کے وجوہ و اعتبارات سے برتر جاتا ہے اور اس مقام سے کہ جس کو ہم نے حقیقت صلوۃ سے تعبیر کیا ہے برتری و بلندی حاصل کر لیتا ہے تو اس وقت توجہ متوجہ الیہ کی طرح بیچون (بے مثل )ہوتی ہیں کیونکہ چون (م) کو بیچون کی طرف کوئی راستہ نہیں اورمتوجہ سے مراد عارف کی ذات ہے جس سے تمام وجوه و اعتبارات دور دور ہو چکے ہوتے ہیں اور کُنْہ ( ماہیتِ الٰہی جو ادراک سے پرے ہے۔انتہا، غایت) سے مراد وہی ذات مجردہ (غیر مادی) ہے جو بذات خود بلاکسی وجہ  و اعتبار کے اپنی مطلوب و معروف ذات وکنہ کی طرف متوجہ ہے اور یہ جو ہم نے کہا ہے کہ کُنْہ سے مرادوہی ذات مجردہ   ہے اس لیے کہ شے کی کُنْہ وہ ہے جو شے کے تمام وجہ و اعتبارات کے ماوراء ہے اور شے کی ذات بھی وہی ہے جو تمام وجوه و اعتبارات کے ماسوا ہے کیونکہ شے کے وجوہ و اعتبارات سے جو کچھ بھی اعتبار کیا جائے شے کی ذات ان سب سے ماوراء ہے۔ مرتبہ ذات میں کسی امر کے اثبات کی گنجائش نہیں ۔ اس مرتبہ میں جو کچھ ثابت کیا جائے وجوه و اعتبارات میں داخل ہے ۔ذات ان سب سے ماوراءہے۔ اس مقام میں نفی اور سلب کے سوا کوئی اور امر متصورنہیں ۔ اگر علم بامتیاز ہے تو وہ بھی سلب ہے اور اگر تعبیر تفسیر ہے تو وہ بھی مسلوب ہے اور وہ چیز جس میں اثبات کی گنجائش نہیں اور سلب کے بغیر تعبیر میں نہیں آتی بیچونی کا حصہ رکھتی ہے اور مجہول الکیفیت ہے اور وہ توجہ جو مرتبہ ذات میں ثابت کی جاتی ہے وہ متوجہ کی عین ذات ہے اور ایک ذات کے سوا اور کچھ نہیں رہتا ۔ اس لیے دہ توجہ بھی جو عین ذات ہےبیچونی کا حصہ پالتی ہے پس ثابت ہوا کہ توجہ و متوجہ(توجہ کرنے والا) متوجہ الیہ(جسس کی طرف توجہ کی جائے) کی طرح بیچون ہوں گے۔ اگر چہ ایک بیچون اور دوسرےبیچوں میں بہت فرق ہے۔ ۔

 مَا لِلتُّرَابِ وَ رَبُّ الْاَرْبَابِ(چہ نسبت خاک را با عالم پاک ،خاک کو عالم پاک سے کیا نسبت)

توجہ اور متوجہ میں ذات کی بیچونی کا حصہ اس لیے ثابت کیا گیا ہے کہ متوجہ الیہ صرف بیچون حقیقی ہے جب ممکن کی ذات و کُنْہ مجہول الکیفیت و بیچون ہو اور کچھ بھی ثابت نہ ہو تو پھر واجب تعالیٰ کی ذات جو کمال لطافت و تقدس وتنزہ میں ہے کس طرح ادراک میں آسکتی ہے اور اس سے کیا حاصل ہوسکتا ہے۔ بیت . 

آگاه از خویشتن چونیست جنین چه خبر دار از چناں چین

 ترجمہ بیت جنیں کو خبر جبکہ اپنی نہیں وہ کیا جانتا ہے چناں و چنیں ،

 اس ارحم الراحمین نے کمال رافت و مہربانی کو جو سراسر چون ہےبیچونی کا حصہ عطا فرمایا ہے تا کہ بیچون حقیقی سے آگاہی پیدا کرے اور اس کے ساتھ گرفتاری حاصل کرے۔

وَلِلْأَرْضِ مِنْ كأسِ الكِرَامِ ‌نَصِيْبُ ترجمہ: ہے کاسہ کریم سے حصہ زمین کو۔

اور جنہوں نے کُنْہ ذات کی معرفت کو محال کیا ہے وہ معرفت متعارف ہے جو کیف و چون کی قسم سے ہے اس کا تعلق بیچون سے محال ہے لیکن وہ امر جو عالم بیچون سے ہو اور بیچون کے اتصال سے بیچون کے ساتھ حاصل ہو جائے اور اس دولت عظمی سے حظ حاصل کرلے وہ کیوں محال ہوگا۔ معرفة غريبة ومسئلة عجيبةفلما ظهرت إلى الأن من أهل الكشف والعرفان (اس معرفت غریب اور مسئلہ عجیب کو آج تک کسی اہل کشف و عرفان نے ظاہرنہیں  کیا۔ یہ ذات مجرد جوبیچونی کا حصہ رکھتی ہے اورمفصل بیان ہو چکی ہے۔ اس تام المعرفت عارف کے ساتھ مخصوص ہے جو حضرت ذات مجردسے واصل ہوتا ہے اور اس درجہ بلند میں فاءد بقاء حاصل کر لیتا ہے اور یہ دولت اس بقاء و ذاتی کا اثرہے۔ سوائے اس عارف کے باقی تمام ممکنات کوذات کا کچھ حصہ حاصل نہیں ہوتا بلکہ ان کی ذات ہرگز نہیں ہوتی تا کہ ان کی صفات اس ذات کے ساتھ قائم ہوں جو اپنے اصول یعنی اسماء وصفات کے ظلال اور شیون و اعتبارات کے عکوس ہوتے ہیں جو اپنے اصول یعنی اسماء و صفات کے ساتھ قیام رکھتے ہیں نہ کہ کسی ایسے امر کے ساتھ کہ جس کوذات سے تعبیر کیا جائے ۔ انسان کے ساتوں لطائف جو تمام ممکنات میں سے زیادہ تر جامع ہیں کیا خفی اور کیا اخفی سب صفات ہی کا اثر ہوتے ہیں اور اس کے جسمانی وروحانی قوی ذات حق کے اسماء و اعتبارات کے پرتو ہوتے ہیں ۔ نفس ذات کا کچھ حصہ بھی عطاءنہیں فرمایا ہوتا اور ان کوذات کے ساتھ قیام نہیں بخشا ہوتا۔

 سوال:جب اسماء وصفات کا اپنا قیام خود بخود نہیں بلکہ ان کا قیام ذات تعالیٰ و تقدس کے ساتھ ہے تو پھر اور چیز کا قیام ان کے ساتھ کس طرح ہوگا؟ جواب: میں کہتا ہوں کہ دوسری چیز ان کے ساتھ اس وقت قائم نہیں ہوسکتی جبکہ وہ موجود ہو اور اگر اس نے مرتبہ وہم میں ثبوت و استقرار پیدا کیا ہو تو پھر ان کے ساتھ کیوں نہ قائم ہوگی جبکہ نہایت ہی ضعیف ہے اور یہ جو ہم نے لکھا اور کہا ہے کہ ممکن کی ذات عدم ہے یہ بعینہ ایسا ہے جیسے کہہ دیں کہ ممکن کی ذات ہے ہی نہیں ۔ ذاته عدم ( اس کی ذات عدم ہے اور لا ذات لہ ( کوئی اس کی ذات نہیں دونوں کے ایک ہی معنے ہیں ۔ اگر چہ فلسفی تحقیق ان دونوں مفہوموں کے درمیان تغائر ثابت کرتی ہے لیکن وہ لاحاصل ہے۔ درحقیقت ان کا مرجع ایک ہی ہے۔ عدم جب اپنے لیے نہیں ہے تو پھر دوسروں کے کام کیا آسکے اور جب اپنے آپ کو نہیں اٹھا سکتا تو دوسروں کو کس طرح اٹھا سکے۔ اس مبحث کی تحقیق یہ ہے کہ چونکہ اسماء و صفات کے عکس عدم کے آئینہ میں ظاہر ہوئے ہیں اس لیے ان کا قیام بظاہر اس آئینے کے ساتھ دکھائی دیتا ہے اور وہ آئینہ ان کے قیام کے اعتبار سے ان کی ذات کی طرح متخیل ہوتا ہے ورنہ درحقیقت ان کا قیام اپنی اصل کے ساتھ ہے اور آئینے کے ساتھ کچھ تعلق نہیں رکھتے اور وہم کے سواعدم کے آئینہ کے ساتھ ان کا کچھ کام نہیں ۔ اس آئینہ کا جوہر یاذات ہونا یہاں کیا گنجائش رکھتا ہے۔ جب عدم حاضر ہونے کی قابلیت نہیں رکھتا پھر جو ہر کس طرح ہو سکے ۔ ایساتام المرفت عارف جومرتبہ ذات تعالی و تقدس سے واصل ہے اور جس نے ذات کے ساتھ بقاء حاصل کیا ہے ہمیشہ عنقائے مغرب(نادر الوجود) کا حکم رکھتا ہے جو عزيز الوجود اور غریب الوقوع یعنی کمیاب ہے۔ اس فناء و بقاء کے بعد اس کو ایسی ذات کرامت فرماتے ہیں جس کے ساتھ اسماء وصفات کے ان ظلال وعکوس کا قیام ہوتا ہے جو اس کی حقیقت ہیں، جس طرح کہ ان کے اصول یعنی اسماء کا قیام حضرت ذات کے ساتھ ہے ان اسماء کے ظلال کا قیام اس ذات کے پرتو کے ساتھ ہوتا ہے جو اس عارف کو عطا فرماتے ہیں ۔ پس یہ عارف جوہر و عرض سے مرکب ہوتا ہے اور ممکن کے باقی افرادسب اعراض ہی ہوتے ہیں جن میں جوہریت کی کچھ بونہیں ہوتی ۔ فتوحات مکیہ والے نے کیا اچھا کہا ہے کہ عالم اعراض مجتمعہ ہے جوذات واحد کے ساتھ قیام رکھتے ہیں لیکن شیخ  قدس سره دودقیقے اس جگہ چھوڑ گیا ہے ایک یہ کہ عارف اکمل کو اس حکم سے الگ نہیں کیا دوسرے یہ کہ اس کا قیام ذات واحد کے ساتھ مقرر کیا ہے حالانکہ اس کا قیام اپنے اصل کے ساتھ ہے جو اسماء وصفات ہیں نہ کہ ذات تعالیٰ کے ساتھ اگر چہ اسماء و صفات کا قیام ذات کے ساتھ ہی ہے کیونکہ حضرت ذات کو عالم سے ذاتی استغنا ہے اس درجہ بلندی کے ساتھ عالم کا قیام کیسے ہوسکتا ہے اور عالم کیا ہے جو اس مرتبہ اعلی کے ساتھ قیام کی ہوش رکھے ۔ بیت 

ما تماشاکنان کوتاه دست تو درخت بلند بالائی

 ترجمہ: بیت ہم تماشا کناں ہیں کوتاه دست تو نہایت بلند بالا درخت 

اس عارف کا معاملہ عالم سے جدا ہے اور اس کاحکم عالم کے احکام سے الگ ہے۔ محب ذاتی کے ذریعے المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ (آدمی اسی کے ساتھ ہو گا۔ جس کے ساتھ اس کو محبت ہوگی) کے موافق اپنے اصل سے گزر کر اپنے اصل الاصل کے ساتھ معیت پیدا کرلیتا ہے اور اپنے آپ کو اس اصل الاصول میں فانی کر دیتا ہے اور 

اكرم الأکرمین آیت کریمه هَلْ جَزَاءُ ‌الْإِحْسَانِ إِلَّا ‌الْإِحْسَانُ ( احسان کا بدلہ احسان ہوتا ہے) کے موافق فنا کے عوض اس کو بقاء عطا فرماتا ہے اور جس چیز میں وہ فانی ہوا تھا اس کے ساتھ اس کو بقا بخش کر اپنی ذات و صفات و اسماء کا مظہر اور جامع آئینہ بنا دیتا ہے۔ پس تمام افراد عالم اس عارف کی جامعیت کے مقابلہ میں ایسے ہیں جیسے قطرہ دریائے محیط کے مقابلہ میں کیونکہ حضرت ذات تعالیٰ کے مقابلہ میں اسماء و صفات کا کچھ قدر ومقدار نہیں ۔ قطرہ کا بھی دریا کے مقابلہ میں کچھ نہ کی قدرو مقدار ہے لیکن ان کا اس کے مقابلے میں اتنا بھی نہیں۔ اس بیان سے اس عارف کے علم ومعرفت و درک و ادراک کو دوسروں کی نسبت قیاس کرنا چاہیئے اور اس کی عظمت و بلندی کو سمجھنا چاہیئے ۔ ۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( یہ الله تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور الله تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔)

 اس صاحب دولت کو جب بقاء ذاتی سے مشرف کرتے ہیں تو ایک ایسی ذات عطا کرتے ہیں جس کے ساتھ اس کی صفات مثل علم و قدرت وغیرہ کا قیام ہوتا ہے جن کا قیام پہلے باقی تمام افراد عالم کی طرح ان کے اصول کے ساتھ تھا۔ اس بقاء اکمل کے حاصل ہونے کے باوجود کلمه انا کا اطلاق جو اس سے زائل ہوا ہوتا ہے پھرعود نہیں کرتا اور مراتب بقاء میں سے کئی مرتبہ میں اپنے اوپر کلمہ انا کا اطلاق نہیں کر سکتا کیونکہ بقاء اکمل فناء اتم پر مترتب ہے جو کلمہ انا کا نام و نشان مٹا دیتا ہے اور عودو رجوع کی بھی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ الزائل لا يعود (دور ہٹا ہوا پھر نہیں آتا) مشہور قضیہ ہے اور جو عود کرے وہ زائل نہیں ہوتا بلکہ مغلوب و مستور ہوتا ہے اور کسی عارضہ کے باعث پوشیدہ ہوتا ہے جو اس عارضہ کے دور ہونے کے بعد غالب آجاتا ہے۔ فان المغلوب قد يغلب ( کیونکہ کبھی مغلوب بھی غالب آجاتا ہے) جاننا چاہیئے کہ مرتبہ عالیہ ذات تعالیٰ و تقدس کا حصہ اسی صاحب دولت کے ساتھ مخصوص ہے جو ذات کے حصول سے باقی ہوتا ہے اور صفات نے اس کے ساتھ قیام پایا ہوتا ہے اس کے سوا اور جو کوئی خواہ کسی قسم کا فناء و بقاء حاصل کرے۔ اس کا حصہ اسماء وصفات ہی سے ہوگا نہ کہ ذات سے اگر چہ اسماء و صفات ذات سے الگ نہیں ہیں لیکن ذات کا نصیب اور ہے اور صفات کا نصیب اور اگر چہ ذات سے صفات کا الگ نہ ہونا بعض لوگوں کو وہم میں ڈال دیتا ہے اور صفات کے نصیب کوذات کا نصیب ظاہر کرتا ہے لیکن ہر ایک کے نشانات وعلامات الگ الگ ہیں اور ایک دوسرے کے علوم و معارف جدا جدا جو اس دولت عظمی کے پانے والوں پر پوشیده نہیں ہیں لیکن واضح رہے کہ تجلی ذاتی اس بزرگ کے ساتھ مخصوص نہیں ہوسکتا ہے کہ اس کے سوا کسی اور کو بھی تجلی ذاتی ہو لیکن نفس ذات تعالیٰ سے نصیب حاصل نہ ہو کیونکہ تجلی ایک قسم کی ظلیت چاہتی ہے جو مرتبہ ثانی کا ظہور ہے اورنفس ذات کا نصیب جو کہا گیا ظلیت کی تاب نہیں لاسکتا۔ بلکہ نفس تجلے اور ظہور سے بھی روپوش ہوجاتا ہے۔ ذات کا وہ ظہور جو صفات میں سے کسی صفت کے ساتھ ثابت ہو وہ بھی مرتبہ ثانی میں ذات کا ظہور ہے لیکن تجلی ذات نہیں بلکہ ذات تعالیٰ کے اعتبارات میں سے کسی اعتبارکی تجلی ہے کیونکہ ذات عزشانہ تمام اعتبارات کی جامع بلکہ سب سے منزہ ہے۔ اسی لیے اعتبارات میں سے کسی اعتبارکی تجلی تجلی  ذاتی نہیں ہوتی۔

سوال : شیخ محی الدین ابن عربی اور اس کے تابعین قدس سرہم نے تعین اول کو تجلی ذات کہا ہے اور تعین عملی جملی میں جو ذات کے اعتبارات میں سے ایک اعتبار ہے ذات کا ظہور ہے جو جامعیت رکھتا ہے۔

 جواب: جو کچھ اس درویش کا معتقد ہے وہ یہ ہے کہ وہ ظہورعملی جملی بھی جس کو انہوں نے تعین اول سے تعبیر کیا ہے ۔تجلی ذاتی نہیں بلکہ ذات کے شیوات میں سے ایک شان سے ماخوذ ہے۔ نچلی ذات تمام شیون و اعتبارات کی جامع بلکہ تمام شیون و اعتبارات سے برتر ہے۔ اس جگہ علم کا اعتباربھی دوسرے ان ذاتی اعتبارات کی طرح ہے جن کےوصول کا ہاتھ اس مرتبہ مقدسہ کے دامن غنا سے کوتاہ ہے اگر کہیں کہ مرتبہ ثانی کا ظہورعلم پرمنحصر ہے کیونکہ خارج میں نفس ذات ہے پس مرتبہ ثانی میں اس کا ظہور خانہ علم میں ہوگا کیونکہ ظہورعلم میں ہے یا خارج میں تیسری شق ظاہر نہیں ہوئی جس میں ظہور ثابت کیا جائے تو میں کہتا ہوں کہ وہ قادر جس نے شان علم میں جو ذات کے اعتبارات میں سے ایک اعتبار ہے ظہور فرمایا ہے اس بات پر بھی قادر ہے کہ اس طرح ظہور فرمائے کہ ظہورعلم کا اعتبار اس ظہور جامع کابض اور جزو ہو بلکہ اس طرح ظہور فرمائے کہ اعتبار علم اور باقی تمام اعتبارات کی وہاں گنجائش ہی نہ ہو اور وہ ظہور جامع کا مرتبہ مرتبہ خارج اور مرتبہ علم کے ماوراء ہو جو خارج کاظل ہواورعلم سے کچھ تعلق نہ رکھتا ہوتجلی ذات کو تعین علم کے ساتھ مقید کرنا دریا کو کوزہ میں بند کرنا بلکہ پانی سراب میں ڈھونڈتا ہے ایک شاعر کہتا ہے۔ بیت 

کسے درصحن کا چی قلیه جويد           أضاع العمر في طلب المحال

ہاں علم کا امتیاز تمام ذاتی اعتبارات میں سے زیادہ تر جامع ہے جس قدر اس میں کمالات ذات کا شمول ہے اس قدر کسی اور اعتبار میں نہیں ہے۔ ہاں اگر مجاز کے طور پر ظہورعلمی کو ظہور ذاتی کہیں اور اس پر تجلی ذات کا اطلاق کریں تو ہوسکتا ہے اگر چہ ان کے اطلاقات سے بعید ہے اور ان کے مذاق سے دور ہے جیسے کہ ان کے کلام کے دیکھنے والوں پر پوشیدہ نہیں۔

سوال:شیخ محی الدین ابن عربی قدس سرہ نے آخرت کی رؤیت کو لطیفہ جامعہ مثالیہ کی صورت میں مقرر کیا ہے۔ تمہارا معتقد اس مسئلہ میں کیا ہے؟ 

جواب : صورت جامعہ مذکورہ کی رؤیت حق تعالیٰ کی رؤیت نہیں ہے بلکہ اس کے کمالات کے مظاہر میں سے ایک مظہر کی رؤیت ہے جس نے عالم مثال میں حصول پیدا کیا ہے۔ بیت 

يَرَاهُ الْمُؤْمِنُوْنَ بِغَيْرِ كَيْفٍ                                وَ إِدْرَاکٍ وَ ضَرْبٍ مِنْ مِّثَالٍ

مومن خدادیکھیں گے جنت میں خوش خصال بے کیف وبے شباہت و بے شبہ وہ بے مثال ۔

  حق تعالیٰ کی رؤیت کو صورت کی رؤیت پر مقرر کرنا درحقیقت حق تعالیٰ کی رؤیت کی نفی کرنا ہے نیز وہ صورت جو عالم مثال میں حاصل ہو اگرچہ جامع ہولیکن عالم مثال ہی کے اندازه پر ہوگی اور عالم مثال اگرچہ وسعت رکھتا ہے لیکن اس کے عوالم مخلوقہ میں سے ہے وہ جامعیت صورت جو اس میں ہے کیا گنجائش رکھتی ہے کہ تمام کمالات و جو بیہ ذاتیہ کی جامع ہو سکے اور سب کو ضبط کر سکے تا کہ اس مرتبہ مقدسہ کا آئینہ بن سکے اور اس کی رؤیت حق تعالیٰ کی رؤیت ہو سکے جب صفت علم جو صفات و جو بیہ میں سے ہے اور تمام ذاتی صفات میں سے جا ملے ہے اس امر کی گنجائش نہیں رکھتی اگر چہ تمام ذاتی صفات و اعتبارات کی جامع ہے جیسے کہ اس کی تحقیق گزر چکی ہے تو پھر عالم مثال جوممکن ومخلوق ہے اس کی صورت تمام کمالات و جو بیہ کی جامع کس طرح ہو سکتی ہے اور اگر فرضاً اور تقدیراً اس کو جامع کہیں بھی تو اس مرتب مقدسہ کے ظلال میں سے ایک ظل ہوگی اورظل کی رؤیت درحقیقت اصل کی رؤیت نہیں ہے ۔ مخبر صادق علیہ الصلوة والسلام نے رؤیت آخرت کو چودھویں رات کے چاند کی رؤیت کے ساتھ تشبیہ دی ہے اور کوئی پوشیدگی نہیں چھوڑی اورظل کی رؤیت ایسی ہے جیسے طشت آب میں چاند کو دیکھیں جس کو بلند فطرت والے لوگ پسند نہیں کرتے اس قدر ادراک میں آتا ہے کہ اس مرتبہ مقدسہ کا ظہور خانہ علم کے باہر حاصل ہوسکتا ہے اور مرتبہ خارج کے ظل میں ثبوت پیدا کرسکتا ہے جیسے کہ گزر چکا ۔ اس ظہور جامع کا ایک ظل جامع خانہ علم میں ہوتا ہے جس کوتعن اول سے تعبیر کرتے ہیں اور اس ظل جامع کا عالم مثال میں ایک اور جامع ہوتا ہے جو جامع علمی کا آئینہ دکھائی دیتا ہے ۔یہ ظل جامع مثالی جو عالم مثال میں لطیفہ کی صورت پر ظاہر ہوتا ہے اس انسانی صورت پر ثابت ہوتا ہے جو تمام مخلوقات میں سے زیادہ تر جامع ہے ۔ فَإِنَّ اللهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ (الله تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ) ممکن ہے کہ اسی اعتبار سے آیا ہولیکن حق تعالیٰ کی رؤیت وہ  ہے جوان ظہورات اور صورتوں کے ماوراء ہے اور بے کیف بیچون کی قسم سے ہے۔رؤیت آخرت پر ایمان لے آنا چاہیئے اور اس کی کیفیت اور چند و چون میں مشغول نہ ہونا چاہیئے۔ آخرت کے خلق ووجود کو دنیا کےخلق ووجود کے ساتھ کوئی نسبت نہیں تا کہ ایک کے احکام کو دوسرے پر قیاس کیا جائے وہاں کی آنکھ جدا ہے اور وہاں کا فہم و ادراک الگ۔ اس کے لیے دوام ابدی ہے اور اس کے لیے زوال وفنا اس کے لیے سراسر لطافت و نظافت ہے اور اس کے لیے خبث و کثافت شیخ  قدس سرہ خانہ علم کے باہرحق تعالیٰ کا ظہور ثابت نہیں کرتے اور مجالی ومظاہر کے ماسوا مشاہدہ و شہود(مشاہدہ) ورؤیت  کی تجویز نہیں کرتے ۔

آن ایشا نندمن چنینم یارب ترجمہ: وہ ایسے ہیں میں ایسا ہوں خدایا

کیا کیا جائے اس میدان شیخ قدس سرہ ہی ہے جس کے ساتھ کبھی لڑائی ہے اورکبھی صلح کیونکہ اسی نے سخت معرفت و عرفان کی بنیاد رکھی ہے اور اس کوشرح و بسط دے کر توحید و اتحاد کومفصل طور پر بیان کیا ہے اور تعدد و تکثیر کا منشا ظاہر فرمایا ہے وہی ہے جس نے وجود کو بالکل حق تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے اور عالم کو موہوم ومتخیل بنایا ہے وہی ہے جس نے وجود کے لیے تنزلات ثابت کیے ہیں اور ہر مرتبہ کے احکام کو جدا کیا ہے وہی ہے جس نے عالم کو عین حق جانا ہے اور ہمہ اوست(سب کچھ وہی ہے) کہا ہے اور باوجود اس کے حق تعالیٰ کے مرتبہ تنزیہ کو عالم کے ماوراء معلوم کیا ہے اور اس کو دید و دانش سے منزہ ومبرا سمجھا ہے۔ ان مشائخ نے جو  شیخ قدس سره سے پہلے ہیں اگر اس بارہ میں گفتگو کی ہے تو رموز و اشارات کے طور پر کچھ بیان کیا ہے اور اس کی شرح وبسط میں مشغول نہیں ہوئے اور وہ مشائخ جوشیخ کے بعد ہیں ۔ ان میں سے اکثر نے شیخ کی تقلید کی ہے اور اس کی اصطلاح کے موافق گفتگو کی ہے۔ ہم پسماندوں نے بھی اس بزرگ کی برکات سے استفادہ کیا ہے اور اس کے علوم و معارف سے بہت فائدے حاصل کیے ہیں۔ جَزَاهٗ اللهُ سُبْحَانَهٗ عَنَّاخَيْرَ الْجَزَاءِ( اللہ تعالیٰ اس کو ہماری طرف سے جزائے خیر دے) لیکن چونکہ بشریت کے موافق خطا وصواب ایک دوسرے کے ساتھ ملا جلا ہے اور انسان احکام میں کبھی خطا پر ہے اور کبھی صواب پر اس لیے اہل حق کے سواداعظم کے احکام کی موافقت کو صواب کا مصداق اور ان کی مخالفت کو خطا کی دلیل سمجھنا چاہیئے ۔ کہنے والا خواہ کوئی ہو اور خواہ کوئی کلام ہو۔ مخبر صادق علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ (تم پر سواد اعظم یعنی بڑے گروہ کی تابعداری لازم ہے ) نیز مقرر ہے کہ صنعت کی تکمیل مختلف فکروں اور بہت سی نظروں کے ملنے پر موقوف ہے سیبویہ اگر چہ  علم نحو کے احکام کا بانی ہے لیکن وہ نحوجس نے متاخرین کے فکروں اور نظروں کے ملنے سے کمال وتنقیح(خالص) پیدا کی ہے وہ اور کچھ ہو گیا ہے اور اور ہی زیب وزینت پایا گیا ہے بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ دوسری قسم کا بن گیا ہے اور علیحدہ احکام حاصل کر چکا ہے۔ رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے بھلائی ہمارے نصیب کر)

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ226ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں