حبیب،خلیل اور کلیم کے مبادی تعینات مکتوب نمبر 93دفتر سوم

تعین اول وجودی کی تحقیق اور حبیب خلیل کلیم علیہم الصلوة والسلام کے مبادی تعینات کے درمیان فرق کے بیان میں حضرت مخدوم زادہ خواجہ محمد سعید کی طرف صادر فرمایا ہے۔ 

جو کچھ آخر کار میں(حق تعالیٰ کے) فضل وکرم سے اس فقیر پرمکشوف کیا ہے۔ یہ ہے کہ حضرت ذات تعالیٰ کا تعین اول حضرت وجود کاتعین ہے جو تمام اشیاء کومحیط ہے اور تمام اضداد کا جامع اور خیر اور بڑی برکت والا ہے۔ حتی کہ اس طائفہ عالیہ کے اکثر مشائخ نے اس کوعین ذات کہا ہے اور ذات سبحانہ پر اس کی زیادتی کو منع کیا ہے۔ یہ تعین نہایت ہی دقت و لطافت والا ہے کہ ہر ایک شخص کی آنکھ اس کو نہیں پاسکتی اور اصل سے جدا نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تعین اب تک پوشیدہ رہا اور متعین سے جدا نہ ہوا۔ بہت لوگ اس کو خدا سمجھ کر اس کی پرستش کرتے رہے اور اس کے سوا کسی اور معبود و مطلوب کو طلب نہ کرتے رہے۔ آثار خار جی کا مبداء اسی کو جانتے رہے اور ہر روز و حوادث کا پیدا کرنے والا اس کوسمجھتے رہے۔ حق کی اس کے ماسوی سے یہ تمیز ایک دولت تھی جو اس مسکین کے لئے جمع تھی اور معبورحقیقی کے ساتھ غیر معبود کی مشارکت کی نفی انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا پس خوردہ تھا جو ان کے اس غلام کے لئے محفوظ تھا۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ (الله تعالیٰ کے لیے حمد ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم بھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے اللہ تعالیٰ کے رسول حق کے ساتھ آئے ہیں)۔ ) فقیر پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ تعین اول وجودی حضرت خلیل الرحمن علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کا رب اور ان کا اور ان کی خلت کا مبدء تعین ہے اور یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ اس تعین کا مرکز جو اس کے تمام اجزاء میں سے اشرف جزو ہے اور اصل کے ساتھ اقربیت کی نسبت زیادہ تر رکھتا ہے۔ حضرت حبیب اللہ ﷺکا رب اور ان کا اور ان کی محبت کا مبدء تعین ہے۔

 سوال: جب تعین اول حضرت خلیل کارب ہوا تو ہمارے پیغمبر نے کس لئے فرمایا ہے کہ ۔ أَوَّلَ مَا ‌خَلَقَ ‌اللَّهُ ‌نُوْرِیْ (سب سے اول الله تعالیٰ نے میرے نور کو پیدا کیا)

 جواب: چونکہ دائرہ کا مرکز دائرہ کے تمام اجزاء سے اسبق اور اول ہوتا ہے اور نیز جز وکل پر مقدم ہوتا ہے اس لئے آنحضرت کا مبدء تعین جس کو حضور نے اپنے نور سے تعبیر فرمایا ہے۔ سب سے افضل اور اسبق ہوگا۔ 

دائرہ کا مرکز دائرہ کا جزو ہے اور دائرہ اس کا کل ہے لیکن یہ ایسا جزو ہے جس سے کل کے تمام اجزاء پیدا ہوئے ہیں کیونکہ محیط دائرہ (دائرہ کا مرکز)کے تمام اجزاء اس جزو کے ظلال ہیں جو اس دائرہ کا مرکز ہے اگر یہ جزو نہ ہوتو دائرہ کا نام ونشان ظاہر نہ ہو۔ پس واضح ہوا کہ حضرت خلیل کا رب اور مبدء تعین تعین اول ہے اور تعین اول کا منشاء اور مبدأ جو اس کا مرکز اور اس کے تمام اجزاء میں سے اشرف جزو ہے۔ حضرت خاتم الرسل کا رب اورمبدءو تعین ہے۔ پس سب سے اول واسبق حضرت خاتم النبوت کی حقیقت ہے اور دوسروں کے ظہور کا منشاء و مبدأ بھی یہی حقیقت ہے۔ اسی وا سطے حدیث قدسی میں حضرت حبیب الله کی شان میں آیا ہے۔ لَوْلَاكَ لَمَا ‌خَلَقْتُ ‌الْأَفْلَاكَ  وَلَوْلَاكَ لَمَا أَظْهَرْتُ الرَّبُوْبِيَّةَ اگر تو نہ ہوتا تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا اور اپنی ربوبیت کو ظاہر نہ کرتا) چونکہ حضرت خاتم الرسل کا مبدءو تعین تعین اول )جوحضرت خلیل کا مبدء تعین ہے)کے دائرہ کا مرکز ہے۔ اس لئے ولایت محمدی جس کا منشاء محبت ہے۔ ولایت خلیلی کا مرکز ہے جس کا منشاء خلت ہے اور ولایت خلیلی با وجود اولیت کے ولایت محمدی اورذات تعالیٰ کے درمیان حاجز وحائل نہیں ہے کیونکہ دائرہ کا مرکز دائرہ سے سبقت ذاتی رکھتا ہے۔ اس لئے خلف یعنی پچھلا سلف یعنی پہلے کا حاصل نہیں بلکہ معاملہ برعکس ہے اس مرکز کی سبقت اور قرب کے لئے دوسری وجہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی عنایت سے اس نقطہ مرکز میں جوں جوں دور جائیں اس نقطہ سے جو اس محبت کا حاصل ہے۔ محب ومحبوب متمیز ہو جاتے ہیں اور دائرہ کی صورت پیدا ہوجاتی ہے جس کا مرکز محبوبیت(محبوب ہونے کی کیفیت)  ہے اور اس کا محیط محبیت (محبت کرنے کی کیفیت)۔ یہ محبيت ولایت موسوی کا مبدأ ہے اور محبوبیت ولایت محمدی کا مبدأ پس یہ مرکز محبوبیت مرکز محبیت سے جو اس کا دائرہ ہوا ہے پیش قدم ہے اور حضرت ذات تعالیٰ کے بہت نزدیک ہے کیونکہ مرکز کیلیے وہ سبقت و قرب حاصل ہے جو دائرہ کے لئے نہیں۔ ایسے ہی اس مرکز کو محيط دائرہ کی نسبت بھی وہ سبقت و قرب حاصل ہے جو محيط کیلئے نہیں ہے۔ پس ولایت محمدی ولایت موسوی سے بھی اقرب واسبق ہے۔ ولایت محمدی کی سبقت وقرب کے لئے تیسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس مرکز محبوبیت میں جب دور تک جائیں تو یہ مرکز بھی دائرہ کی صورت پیدا کر لیتا ہے جس کا مرکز محبوبیت صرف دکھائی دیتا ہے اور اس کا محیط محبیت سے ملی ہوئی محبوبیت ظاہر ہوتا ہے جو حضرت علیہ الصلوة والسلام کی تبعیت بلکہ ولایت موسوی کی تبعیت سے بھی جومحیط دائرہ(دائرہ کا مرکز) کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے۔ آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام کے افراد امت میں سے کسی ایک فرد کو نصیب ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ولایت محمدی ہمیشہ کے لئے ہی مرکز ہے اور محبیت کا مبدأ بھی اسی ولایت کے برکات سے ہے جس کے ملنے سے مرکز ثانی دائرہ بنا ہے جس سے ایک اور تیسرا مرکز پیدا ہوا ہے۔ جاننا چاہیئے کہ یہ تیسری مرکزیت کام کو بہت آگے لے گئی اور نزدیک تر سے نزدیک تر بنادیا۔ 

برکریماں کا رہا دشوار نیست                     کریموں پر نہیں مشکل کوئی کام

اس سے بڑھ کر دقائق واسرار کیا ظاہر کئے جائیں اور تعین اول کے ماوراء کی نسبت اس سے زیادہ کیا کہا جائے۔ اگر چہ تعین اول کے ماوراء جو کچھ ہے ایک یا دو واسطہ سے اس کی جزو یا جزو کی جزو ہے لیکن نظر کشفی میں کئی در جے تعین اول سے سبقت رکھتا ہے اور اس سے کئی مرتبے مطلوب کے نزدیک تر ہے۔

 سوال: جو کمال جز و کومیسر ہوتا ہے۔ وہ کل کو بھی میسر ہوتا ہے کیونکہ کل اس جزو اور دوسرے اجزاء سے مراد ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ سبقت وقرب جزو میں پیدا ہو اورکل میں نہ ہو۔ 

جواب: جو کمال جزو میں بطریق اصالت پیدا ہوتا ہے۔ وہ کل میں جزو کی تبعیت اور وساطت کے طور پر ہوتا ہے نہ کہ اصالت کے طور پر اور شک نہیں کہ اصالت کو وہ سبقت ہے جو تبعیت کو نہیں اور اصل کو وہ قرب ہے جو فرع کونہیں ۔ پس اگر مرکز دائرہ اپنے کمالات مخصوصہ میں دائرہ سے آگے بڑھ جائے تو ہوسکتا ہے۔ اس جواب کی تحقیق یہ ہے کہ جزو کا کمال کل میں اس وقت سرایت کرتا ہے جبکہ وہ کمال اس جزو کی ماہیت اصلیہ سے پیدا ہوا ہو اور اگر جزو میں اس قسم کا کمال ہو جو جزو کی ماہیت کے بدلنے کے بعد پیدا ہوا ہو تو پھر لازم نہیں کہ کل میں سرایت کرے کیونکہ وہ جزو اپنی ماہیت کے بدل جانے کے بعد اس کل کا جز نہیں رہا تا کہ اس میں سرایت کرے۔ مثلا چاندی جس کا ایک جز واکسیر کے عمل سے سونا ہو جائے اور چاندی کی ماہیت سے سونے کی ماہیت میں بدل جائے تو نہیں کہہ سکتے کہ اس جزو کا کمال سنہرا پن چاندی میں جو اس کا کل ہے سرایت کر جائے گا کیونکہ وہ جز وماہیت کے بدلنے کے بعد اس کا جز نہیں رہا تا کہ اس میں سرایت کرے۔ فافھم وقس عليہ معرفة ما نحن فيه (پس سمجھ اورمذکورہ بالامعرفت کو اسی پر قیاس کرلے)

 سوال: تعین اول وجودی کا وجود خارج میں ہےنہ کہ صرف ثبوت علمی رکھتا ہے۔ ان دونوں قسموں سے ایک بھی درست نہیں۔ ان دونوں میں سے ہر ایک کی تردید ہوسکتی ہے کیونکہ ان بزرگواروں کے نزدیک خارج میں ایک ذات احد تعالیٰ کے سوا کچھ موجود نہیں ہے اور اس خارج میں تعینات وتنزلات کا کوئی نام و نشان نہیں اور اگرثبوت عملی کہیں تو لازم آتا ہے کرتعین علمی اس سے سابق اور اول ہے اور یہ خلاف مقرر ہے۔ 

جواب: میں کہتا ہوں کہ نفس امر میں ثابت ہے اور اس اعتبار سے کہ علم کے ماوراء میں اس کا ثبوت ہے۔ اگر اس کو ثبوت خارجی بھی کہہ دیں تو بھی ہوسکتا ہے وَاللَّهُ ‌سُبْحَانَهُ الْمُلْهَمُ ‌الصَّوَابَ اللہ تعالیٰ بہتری کا الہام کرنے والا ہے۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ273ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں