حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :
جب دل کا معاملہ اللہ تعالی کے ساتھ جمع ہو جاتا ہے تو کوئی چیز اس سے نہیں نکلتی اور کوئی چیز اس سے خالی نہیں ہوتی۔ (یعنی علم و معرفت سے دل خالی نہیں ہو تا اور حکمت اس سے جدا نہیں ہوتی)
آپ رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاہ نے فرمایا: میں ایسامغز ہوں جس کا چھلکا نہیں۔ اور اپنی اولاد سے فرمایا : مجھ سے دور ہو جاؤ ظاہر میں تمہارے ساتھ ہوں لیکن باطن کسی اور کی معیت مجھے حاصل ہے۔
فرمایا : میرے پاس کچھ اور لوگ آتے ہیں ان کے لیے جگہ چھوڑ دو۔ ان کا ادب کرو۔ رحمت عظیم یہاں ہے۔ ان کے لیے جگہ تنگ نہ کرو۔
آپ فرماتے جاتے تھے۔ السلام علیکم ورحمۃ الله و برکاتہ ! اللہ تعالی مجھے بھی اور آپ کو بھی بخش دے۔ اللہ تعالی مجھ پر اور آپ لوگوں پر رحمت فرمائے۔ بسم اللہ تشریف لائیے ۔ مگر مجھے چھوڑ کر جانے کیلئے نہیں(یعنی میں وصال خداوندی چاہتا ہوں)۔ ایک دن اور ایک رات تک آپ رضی اللہ تعالی عنہ یہی فرماتے رہے
یہ بھی فرمایا: تم پر افسوس ! مجھے کسی چیز کی پرواہ نہیں۔ نہ ملک الموت سے اور نہ کسی اور فرشتے سے۔ ہماری ذمہ داری اپنے سوا کسی اور پر مت ڈال۔ یہ کہہ کر آپ نے نعرہ بلند کیا اور اسی روز عشاء کے وقت آپ اپنے خالق سے جا ملے۔
آپ کے بیٹوں عبدالرزاق اور موسی رحمہما اللہ تعالی نے بتایا ہے کہ آپ اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتے پھر انہیں نیچے کر لیتے اور فرماتے ۔ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ برکا تہ توبہ کرو اور نیک لوگوں کی صف میں داخل ہو جاؤ۔ یہ تمہارے پاس بھی آیا چاہتا ہے۔ اور فرماتے۔ نری اختیار کرو۔ پھر اس کے پاس حق اور مستی موت آئے
یہ اللہ تعالی کے اس ارشاد گرامی تلمیح (اشارہ)ہے وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ) آپ رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا : تمہارے اور میرے در میان اور تمام مخلوق کے در میان اس قدر بعد اور دوری ہے جس قدر بعد اور دوری زمین اور آسمانوں کے در میان ہے۔ مجھے دوسروں پر قیاس نہ کرو اور نہ دوسروں کو مجھ جیسا سمجھو۔
آپ کے بیٹے عبدالرزاق نے پوچھا۔ طبیعت کیسی ہے۔ جسم میں کہیں درد تو نہیں۔ آپ نے فرمایا : مجھ سے کچھ مت پوچھو۔ میں بحر عرفان میں غوطہ زن ہوں۔ آپ کے بیٹے عبدالعزیز نے بیماری سے متعلق پوچھا تو فرمایا : میری مرضی کو کوئی نہیں جانتا۔ اور نہ کسی کی سمجھ میں آسکتی ہے۔ اس سے آگاہی انسان کے بس کا روگ نہیں۔ میری بیماری جن اور فرشتہ کی سمجھ سے بھی بالاتر ہے۔ اللہ کے حکم سے اللہ تعالی کا علم نا قص نہیں ہو جاتا۔ حکم بدلتا ہے اور علم لا تبدیل ہے۔حکم منسوخ ہو جاتا ہے مگر علم منسوخ نہیں ہو سکتا۔
يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ مٹاتا ہے اللہ تعالی جو چاہتا ہے اور باقی رکھتا ہے جو چاہتا ہے۔ ظاور اس کے پاس ہے اصل کتاب
لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ نہیں پرسش کی جاسکتی اس کام کے متعلق جو وہ کر تا ہے اور ان تمام سے باز پرس ہوگی“
صفات الہی کی خبریں جو ہمیں کلام اللہ سےپہنچی ہیں وہ دنیا کے اندر اس طرح ظہور پذیر ہوتی رہتی ہیں۔
آپ کے بیٹے حضرت عبد الجبار نے پوچھا : کیا جسم میں کہیں درد ہے؟
فرمایا : دل کے سوا جسم کا انگ انگ میرے لیے باعث تکلیف ہے۔ دل محفوظ ہے اور اللہ تعالی کے ساتھ اس کا معاملہ ہے۔
پھر آپ کی زبان اقدس پر یہ کلمات جاری ہوئے : اس ذات سے مدد طلب کر تا ہوں جس کے سواء کوئی معبود نہیں۔ جو زندہ ہے اور جس کے لیے فنا نہیں۔ ہر عیب سے پاک ہے۔ بلند ہے۔ زندہ ہے۔ موت سے نہیں ڈرتا۔ اپنی قدرت سے ہر چیز پر غالب ہے۔ تمام کو موت دیکر فنا کرنے والا ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اور محمدﷺالله تعالی کے رسول ہیں۔
مجھے آپ کے فرزند موسی رحمۃ اللہ علیہ نے بتایا کہ آپ نے یہ بھی فرمایا : ( تعزز) غالب ہے۔ اگر آپ اس لفظ کو صحیح طریقے سے ادا نہ کر سکے۔ آپ یہی کلمہ بار بار دہراتے رہے پھر زبان صحیح ہو گئی ۔ اور ازیں بعد تین بار الله الله الله کہا۔ آواز پست ہو گئی۔ زبان تالو سے لگ گئی۔ اور روح مبارک قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ رضی اللہ تعالی عنہ ۔
اللہ تعالی ہمیں ان کی برکتوں سے مستفیض فرمائے ۔ ہمارا خاتمہ بالایمان کرے۔ اور تمام مسلمانوں کو ایمان کی دولت عطافرمائے۔ ان تمام کی موت اسلام پر ہو۔ اور ہم سب کو نیک بندوں سے ملائے۔ رسوائی اور عذاب سے محفوظ رکھے۔ تمام تعریف اللہ رب العالمین کیلئے ہیں۔
آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 195 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام