حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :
تو جب بھی کبھی اپنے نفس سے جہاد کرے گا۔ اس پر غالب آئے گا اور مخالفت کی تلوار سے اسے قتل کرے گا تو الله تعالی ہر بار اسے نئی زندگی عطا کر دے گا ۔ وہ تجھ سے جھگڑے گا۔ شہوات و لذات کا تقاضا کرے گا اور اس بات کا خیال نہیں رکھے گا کہ حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے۔ اس کو بار بار زندہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ تو مجاہدہ کر تار ہے۔ نفس کے خلاف تیری کوششیں جاری رہیں اور تو ہمیشہ اجر و ثواب سے نوازا جاتا ہے۔ یہی مفہوم حضور نبی کریم ﷺکی اس حدیث مبارکہ کا ہے۔
رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الْأَكْبَرِ. ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹے ہیں“
آپ کے اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ہمیشہ اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا پڑتا ہے۔ اسے ہر وقت لذات دنیوی اور نفس کے گناہوں میں منہمک رہنے کے خلاف برسر پیکار رہنا پڑتا ہے۔ اسی مفہوم کویہ آیت کر یمہ بھی بیان کرتی ہے۔
وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ اور عبادت کیجئے اپنے رب کی یہاں تک کہ آجائے آپ کے پاس الیقین۔
اللہ تعالی نے اپنے محبوب ﷺ کو عبادت کا حکم دیا۔ اور یہ عبادت مخالفت نفس ہے۔ کیونکہ نفس ہر قسم کی عبادت سے بھاگتا ہے اور اس کی ضد کو پسند کرتا ہے۔ الیقین سے مراد موت ہے یعنی مرنے تک نفس کے خلاف جہاد کرتے رہو۔
اگر کوئی یہ کہے کہ آیت میں خطاب حضور ﷺ کو ہے آپ کے نفس کا عبادت سے بھاگنا بعید از قیاس ہے کیونکہ آپ خواہش سے پاک تھے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى اور وہ توبولتا ہی نہیں اپنی خواہش سے۔ نہیں ہے یہ مگروحی جو ان کی طرف کی جاتی ہے ۔
تو ہم کہیں گے کہ ہاں نبی کریم معصوم عن الخطاء ہیں مگر یہ حکم تعلیم امت اور تقرر شرع کیلئے ہے۔ یہ حکم خاص نہیں بلکہ عام ہے اور قیامت تک ساری امت کیلئے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ پھر ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کو نفس و خواہش پر غلبہ عطا فرمایا ہے تاکہ آپ کو نفس و خواہش نقصان نہ دے سکیں اور آپ کو مجاہدہ کی ضرورت نہ رہے۔ لیکن امت کو نفس و خواہش پر غلبہ نہیں دیا گیا۔ اور انہیں مجاہدہ کی ضرورت ہے۔
بندہ مو من اپنے نفس کے خلاف برسر پیکار رہتا ہے حتی کہ اسے موت آجاتی ہے۔ وہ اپنے رب کی بارگاہ میں جب پیش ہو تا ہے تو اس کے ہاتھ میں مجاہدہ کی ننگی تلوار خون سے لت پت دیکھ کر رب قدوس اسے جنت کی ابدی نعمتوں سے نواز دیتا ہے اور اسے خوشخبری سناتا ہے۔
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى اور جو ڈرتا رہا ہو گا اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے اور اپنے نفس کو روکتا رہا ہو گا (ہر بری) خواہش سے۔ یقینا جنت ہی اس کا ٹھکانا ہو گا ۔
جب بنده مؤمن کو اللہ تعالی جنت عطا فرماتا ہے اور جنت اس کا گھر ، جائے قرار لوٹنے کا مقام بن جاتا ہے۔ اور اللہ تعالی بندے کو اس بات سے محفوظ فرما دیتا ہے کہ وہ اسے اس گھر سے نکال کر کسی اور گھر میں جگہ دے۔ کسی اور ٹھکانے کو منتقل کرے اور دنیا کی طرف لوٹا دے تو روزبر و ز اور لمحہ بہ لمحہ اسے نئی نئی نعمتوں سے نوازتا ہے۔ رنگارنگ کے زیورات اورقسم قسم کی خلعتیں بخشتا ہے جن کی نہ انتہاء ہے ،نہ غایت اور نہ اختتام۔ جس طرح کہ بندہ مو من دنیامیں رہ کر روز بروز لمحہ بہ لمحہ نفس اور خواہش سے لڑتارہا تھا۔
رہا کافر، منافق اور اللہ کا نافرمان تو جب انہوں نے دنیا میں نفس اور خواہش کے خلاف مجاہد ہ ترک کیا۔ ان کی اتباع کی۔ شیطان کا کہامانا تو کفر ، شرک اور دوسری طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہو گئے۔ یہاں تک کہ کفر اور معصیت کی حالت میں انہیں موت آگئی۔ نہ اسلام لانے کی توفیق ہوئی اور نہ توبہ کرنے کا موقع ملا۔ اللہ تعالی نے انہیں اس آگ میں پھینک دیا جو کافروں کیلئے تیار کی گئی ہے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔
وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ اوربچو اس آگ سے جو تیار کی گئی ہے کافروں کیلئے ۔
جب اللہ تعالی ان نافرمانوں کو جہنم رسید کر تا ہے اور جہنم ان کا ٹھکانا ان کا گھر اور ان کے لوٹنے کی جگہ بنتی ہے اور آگ ان کی جلدوں اور گوشت کو کھا جاتی ہے تو انہیں نئی جلدیں اور نئے گوشت دے دیئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد گرامی ہے۔ كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا جب کبھی پک جائیں گی ان کی کھالیں توبدل کر دیں گے ہم انہیں کھالیں دوسری۔
اللہ تعالی انہیں ایسے دردناک عذاب سے دوچار کرے گا کیونکہ انہوں نے دنیا میں اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے ہوئے اپنے نفسوں اور خواہشوں سے موافقت کی ہو گی۔
اہل دوزخ کی جلدیں اور گوشت ہر لحظہ لحظہ تازہ ہورہے ہو گئے تاکہ انہیں سخت سے سخت عذاب اور اہل جنت کو لمحہ بہ لمحہ نئی نئی نعمتوں سے نوازاجائے گا تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ ان نعمتوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔
اس کامیابی کی اصل وجہ دنیامیں نفس سے مجاہد ہ اور ترک موافقت ہے
یہی رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث طیبہ کا مفہوم ہے۔
دنیا آخرت کی کھیتی ہے الدُّنْيَا مَزْرَعَةُ الْآخِرَةِ
آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 174 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام