حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :
یوں مت کہہ کہ میں بارگاه الہی میں التجا نہیں کرتا۔ کیونکہ جو مقسوم ہے وہ بن مانگے مل جائے گا اور جو قسمت میں نہیں لکھادعا کرنے سے بھی نہیں ملے گا۔
دنیاو آخرت کی ہر بھلائی اور ضرورت کی ہر چیز کا سوال کر بشر طیکہ وہ حرام اور مفسد نہ ہو۔ کیونکہ اللہ کریم نے حکم دے رکھا ہے کہ مجھ سے مانگو اور یہ ترغیب دی ہے کہ میری جناب میں التجا کرو۔ فرمایا :
ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔
ایک اور جگہ فرمایا
:وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ اور مانگتے رہو اللہ تعالی سے اس کے فضل و کرم كو۔
نبی کریم ﷺنے فرمایا : ادْعُوا اللَّهَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالإِجَابَةِ اللہ تعالی سے اس حالت میں دعا کرو کہ قبولیت دعا کا تمہیں یقین ہو
“ ایک دوسری حدیث ہے۔ فرمایا : إِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَاسْأَلُوهُ بِبُطُونِ أَكُفِّكُمْ اپنے ہاتھ پھیلا کر اللہ تعالی سے سوال کرو“
اس کے علاوہ اور بہت ساری احادیث اس ضمن میں پیش کی جاسکتی ہیں۔
یہ نہ کہنا کہ میں نے سوال کیا اور اللہ تعالی نے میرا مطلوب مجھے عطا نہیں فرمایا لہذااب میں سوال نہیں کروں گا۔ بلکہ ہمیشہ اس کی بارگاہ میں التجا کر۔
اگر یہ تیر امقسوم ہوا تو اللہ تعالی دعا کے بعدتجھے عطا فرمادے گا اور دعا کی وجہ سے تیرے ایمان ، یقین اور عقیدۂ توحید کو پختہ فرمادے گا۔ اس دعا کی برکت
سے مخلوق سے سوال نہ کرنے اور تمام احوال میں اور ضروریات میں خلق سے لونہ لگانے کی نعمت میں اضافہ فرمادے گا۔
اور اگر مسئولہ چیز تیری قسمت میں نہیں تو دعا کی برکت سے اللہ کریم تجھے اس سے غنی کر دے گا۔ تو تقدیر پر راضی ہو جائے گا۔ اگر تو فقیر یا مریض ہے تو فقر اور مرض میں بھی تجھے آرام و سکون نصیب ہو جائے گا۔ قرض ہے تو قرض خواہ کے دل میں نرمی اور رفق پیدا کر دے گا اور تجھ سے تقاضا کرے گا بھی توسختی نہیں کرے گا بلکہ نہایت نرمی سے پیش آئے گا۔ اور کشائش تک تجھے مہلت دے دے گا یا پھر دعا کی بر کت سے تیسرا قرض معاف کر دے گا۔ یا قرض میں کمی کر دے گا۔ اگر دنیا میں اس نے قرض معاف نہ کیا تو آخرت میں تجھے اس دعا کی وجہ سے بہت زیادہ ثواب ملے گا کیونکہ اللہ تعالی کریم، غنی اور رحیم ہے۔ اپنی بارگاه کے مسائل کو دنیاو آخرت میں خائب وخاسر نہیں ٹھہراتا۔
دعا بہر حال مفید ہے۔ اس کا فائدہ یا تو فوری طور پر سامنے آجاتا ہے یا اس کے ظاہر ہونے میں کچھ دیر لگتی ہے حدیث پاک میں ہے۔
إن المومين يري في صحيفته يوم القيامة حسنات لم يعملها . ولم يدربها فيقال له . إنها بدل مسألتك
التي سالتها في دار الدنيا
وجہ یہ ہے کہ دعا کرنے والا الله تعالی کا ذکر کر تا ہے اس کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہے۔ عدل وانصاف کو عملی جامہ پہناتا ہے۔ حقدار کاحق ادا کر تا ہے۔
تکبر ، خود پسندی اور نخوت و غرور کو چھوڑ کر عاجزی اپناتا ہے۔ اور یہ سب اعمال صالحہ عنداللہ ثواب کا موجب بنتے ہیں۔
آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 172 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام