حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :
تعجب ہے۔ اس قدر اپنے رب پر تیری ناراضگی کہ اس نے تیری دعا کو قبول نہیں فرمایا۔ تو کہتا پھرتا ہے کہ اللہ تعالی نے مخلوق سے سوال کرنے کو مجھ پر حرام کیا اور حکم دیا کہ میں صرف اس کی جناب میں سوال کروں۔ اب جبکہ میں اس کی بارگاه میں سوال کرتا ہوں تو وہ جواب نہیں دیتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ذرا بتا تو تو آزاد ہے یاغلام ؟اگر تو کہتا ہے کہ میں آزاد ہوں تو تو کافر ہے اور اگر کہتا ہے کہ میں غلام ہوں تو پھر یا تو اپنے پروردگار کو تاخیر اجابت دعاپر الزام دیتا ہے۔ اس کی حکمت رحمت پر شک کرتا ہے حالانکہ کہ اس کی رحمت تجھے اور تمام کائنات کو شامل ہے۔ وہ تمہارے حالات سے واقف ہے۔ یا تواللہ عزوجل کو الزام نہیں دیتا۔
اگر تو اللہ تعالی کو تہمت نہیں دیتا۔ اس کی حکمت، ارادے اور دعا کی قبولیت میں اس نے تیرے لیے جوفوائدر کھ دیئے ہیں ان کا اقرار کرتا ہے تو تجھ پر لازم ہے کہ اس کا شکر ادا کرے کیونکہ اس نے تیرے لیے زیادہ صحیح چیز اور نعمت کو اختیار کیا اور نقصان دہ چیز سے تجھےبچالیا۔
اگر تو تاخیر قبولیت دعا میں اسے الزام دیتا ہے تو اسے تمت دینے کی وجہ سے تو کافر ہے کیو نکہ الزام دیکر تو الله تعالی کی طرف ظلم کی نسبت کر رہا ہے حالانکہ وہ کریم ہے اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتا۔ اور نہ ہی وہ ظلم کو پسند فرماتا ہے۔ یہ ناممکنات میں سے ہے کہ اللہ کریم کسی پر ظلم کرے۔ کیونکہ وہ تیرا مالک ہے بلکہ ہر چیز کامالک۔ اور مالک اپنی ملک میں جیسے چاہے تصرف کر سکتا ہے۔ اسے ظالم کہنا صحیح نہیں کیونکہ ظلم یہ ہے کہ کسی دوسرے کی ملک میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کیا جائے۔ لہذا اللہ کریم کے فیصلے سے ناراض نہ ہو۔ اگرچہ یہ فیصلہ تیری طبع اور نفس کے خلاف ہے اور ظاہری طور پر نقصان دہ محسوس ہوتا ہے مگر تیری بھلائی کا ضامن ہے۔
تجھ پر لازم ہے کہ شکر کر اور صبر سے کام لے۔ اللہ کریم کو الزام نہ دے۔ اس سے ناراض نہ ہو۔ نفس کی رعونت اور خواہش کی پیروی نہ کر کیونکہ نفس اور خواہش کا تو کام ہی راہ خداوندی سے بھٹکادیناہے۔
ہمیشہ دعا کرتے رہئیے۔سچے دل سے اس کی بارگاہ میں التجاء کیجئے اور حسن ظن رکھئے کہ اللہ کریم ضرور مہربانی فرمائے گا۔ وہ ضرور اپناوعدہ ایفا کرے گا۔ مشکل آسانی میں بدل جائے گی۔ اللہ تعالی سے حیاء لازم ہے۔ اس کے علم کی موافقت کر۔ توحید پر قائم رہ۔ اس کے احکام کی پیروی کر۔ اطاعت بجالانے میں دیر نہ کر اور گناہوں کے قریب بھی نہ جا۔ جب اس کریم کا تیرے لیے کوئی فیصلہ صادر ہویاتجھ میں کوئی فعل جاری ہو تو مردہ بن جا۔
اگر تہمت اور سوئے ظن سے نہیں بچ سکتا تو یادر کھ نفس برائی کا حکم دیتا ہے۔ اپنے رب کا نافرمان ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ظلم اور زیادتی کو نفس کی طرف منسوب کر۔ اس جفاشعار کی پیروی سے احتراز کر۔ اس کی سنگت سے بچ۔ اس کے قول و فعل پر خوش نہ ہو۔ ہر حال میں اس سے الگ رہ کیونکہ یہ اللہ تعالی کا دشمن ہے۔ تیرا دشمن ہے۔ اور شیطان کا دوست ، نائب جاسوس اور ہم نشین ہے جو اللہ تعالی کا دشمن اور تیرا دشمن ہے۔ اللہ سے ڈر۔ اس کی گرفت سے بچ۔ احتیاط کر احتیاط۔ نجات کی کو شش کر نفس کو الزام دے۔ اسی کو ظالم ٹهہرا اور اسے اللہ تعالی کایہ ارشاد گرامی پڑھ کرسنا
مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا کیا کرے گا اللہ تعالی تمہیں عذاب دیکر اگر تم شکر کرنے لگو اور ایمان لے آؤ اور اللہ تعالی بڑا قدر دان ہے۔ سب کچھ جاننے والا ہے“
ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ
یہ سزا ہے اس کی جو تیرے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور بلاشبہ اللہ تعالی بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں“
إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا وَلَكِنَّ النَّاسَ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ یقینا اللہ تعالی ظلم نہیں کر تا لوگوں پر ذرہ برابر لیکن لوگ ہی اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں ۔
اللہ تعالی کی خاطر اپنے نفس کا دشمن بن جا۔ اس سے کشتی کر۔ لڑ اور تلوار سونت کر میدان میں آجا۔ اللہ تعالی کی سپاہ اور لشکریوں کا ساتھ دے۔ کیونکہ وہی لوگ دشمن خدا کے سخت ترین دشمن ہیں رب قدوس نے فرمایا تھا اے داؤد ! اپنی خواہش کو چھوڑ دے کیونکہ میری بادشاہی میں خواہش نفس کے علاوہ اور کوئی مجھ سے مخالفت کرنے والا نہیں۔
آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 168 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام