ہر شےکا وقت مقرر ہے

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

کتنے تعجب کی بات ہے کہ تو اپنے پروردگار سےنالاں ہے۔ اسے الزام دیتا پھرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے مجھ پر ظلم کیا۔ مجھے روزی نہیں دی۔ غنی نہیں بنایا۔ مجھے مصائب و آلام سے نجات نہیں دی۔ 

کیا تجھے یہ بات معلوم نہیں کہ ہر کام کیلئے ایک مقرر وقت ہے جسے پہلے سے لکھا جا چکا ہے۔ ہر ایک مصیبت اور دکھ نے آخر مٹنا ہے۔ ہر تکلیف کی انتہاء ہے اپنی مدت پر اسے ختم ہونا ہے سو اس تکلیف سے نجات نہ پہلے ہو سکتی ہے اور نہ ہی مقررہ وقت کے بعد۔ 

مصیبت کے اوقات میں عافیت نہیں ہوسکتی اور سختی کا وقت آسانی کے وقت کے ساتھ نہیں بدل سکتا۔ اور محال ہے کہ فقر کی حالت غنی میں بدل جائے۔ 

ادب کو ملحوظ خاطر رکھ ۔ خاموشی، صبر ، رضا اور موافقت کو اختیار کرے۔ اللہ سے نالاں رہنے اور اسے تہمت دینے سے توبہ کر ۔ بارگاہ خداوندی میں انسانوں کی طرف تقاضائے طبیعت بشری بغیر کسی گناہ کے انتقام اور بلاوجہ گرفت نہیں۔ 

اللہ کریم ازل سے یکتا ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اس کی ابتداء نہیں۔ اسی نے ہر چیز تخلیق کی۔ اور ہر چیز کے فوائد اور نقصانات پیدا کیے ۔ وہ ہر چیز کی ابتداء کو بھی جانتا ہے اور انتہاء کو بھی۔ اس کے اختتام کو بھی جانتا ہے اور انجام کو بھی۔ وہ اپنے فعل میں مقیم ہے۔ اپنی صنعت گری میں مضبوط ہے۔ اس کے فعل میں تناقض نہیں۔ کسی چیز کو فضول پیدا نہیں کرتا۔ اس کا کوئی کام عبث نہیں۔ وہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے۔ اسے اس کے افعال میں ملامت نہیں کیا جاسکتا۔ 

اگر صبر ورضا اور اللہ کے فعل سے موافقت اور غنی کی ہمت نہیں تو فراخی اور کشائش کا انتظار کر حتی کہ مصیبت کے دن پورے ہوں اور مرور وقت کے ساتھ ساتھ اللہ کریم حالت میں تبدیلی فرما دے۔ جس طرح سردی گرمی میں اور رات دن میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اگر تو مغرب اور عشاء کے در میان دن کی روشنی تلاش کرے تو ممکن نہیں۔ بلکہ یہ کہ اس کی تاریکی میں اضافہ ہوتا جائے گا حتی کہ تاریکی اپنی انتہاء کوپہنچ جائے گی۔ پھر فجر طلوع ہو گی اور ہر طرف دن کی روشنی چھاجائے گی۔ تو چاہے یانہ چاہے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اگر توعین دوپہر کے وقت رات کی واپسی طلب کرے تو تیری دعا قبول نہیں ہوتی اور دوپہر کی روشنی میں تاریکی کا خواب پورا نہیں ہو گا کیونکہ یہ طلب بے وقت ہے۔ سو تو خائب و خاسر ،بےنیل و بے مرام رہے گا سب کچھ چھوڑ دے۔ سر تسلیم خم کر۔ اپنے رب کے بارے حسن ظن رکھ اور صبر سے کام لے جو تیرا ہے تجھ سے چھینانہیں جائے گا اور جو تیر انہیں تجھے دیا نہیں جائے گا۔

بخداتوطلب کر اللہ تعالی کی بارگاہ میں آہ وزاری کرے گڑ گڑا کر دعا کر اطاعت وانقیاد کے جذبہ سے اور اس کی فرمانبرداری کی نیت سے۔ کیونکہ اس کا حکم ہے۔ 

ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ”مجھے پکارو۔ میں تمہاری دعا قبول کروں گا

 وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ اور مانگتےر ہو الله تعالی سے اس کے فضل و کرم کو۔

 اور دوسری کئی آیات و احادیث اس حقیقت پر گواہ ہیں۔ 

تو اس کی بارگاہ میں دست سوال دراز کر۔ وہ ضرور کرم فرمائے گا لیکن اس کی قبولیت کے لیے ایک وقت ، ایک مدت مقرر ہے۔ جب اللہ تعالی اراده فرمائے گا دعا قبول ہو جائے گی۔ یا پھر دعا کی قبول نہ ہونے میں کوئی دنیاوی یا اخروی مصلحت پوشیدہ ہو گی۔ یا تیری دعا اور اللہ کے فیصلے اور اس کی مدت کے پورے ہونے میں موافقت ہو جائے گی۔ (ادھر تو دعا کرے گا ادھر اس کی قبولیت اور تیرے مقصود کے بر آنے کاوقت آچکاہو گا) قبولیت میں تاخیر کی وجہ سے اسے الزام نہ دے اور مایوس نہ ہو دعا کرنے میں بہر حال فائدہ ہے نقصان نہیں۔ اگر تجھے فوری فائدہ نہیں پہنچا تو کوئی نقصان بھی تو نہیں پہنچا۔ اگر فوری نجات نہیں ہوئی تو کل کو اس کا ثواب توملے گا۔ حدیث مبارکہ ہے۔ 

إن العبد يرى في صحائفه يوم القيامة حسنات لم يعرفها فيقال له إنها بدل سؤالك في الدنيا. الذي لم يقدر قضاء فيها له 

قیامت کے روز بندہ اپنے نامہ اعمال میں ایسی نیکیاں دیکھے گا جن سے وہ ناواقف ہو گا۔ اس سے کہا جائے گا یہ دنیا میں کی گئی تیری دعا کا بدلہ ہے جس کے بارے اللہ کا فیصلہ پورا نہیں کیا گیا تھا او كما قال رسول الله “ 

دعا کرنے سے اور کچھ بھی حاصل نہ ہو تو کم از کم اللہ وحدہ لاشریک کی یاد کی سعادت تو حاصل ہو ہی جائے گی۔ اس میں اللہ کی وحدانیت کا اقرار بھی ہے۔ کیونکہ تو صرف اللہ تعالی سے دعا کر رہا ہے اور اس کے سواء کسی اور کے دروازے پر دستک نہیں دے رہا۔ تیرے لیل و نہار ، صحت و تندرستی غنی و فقر کی حالت اورتنگی کی حالت بلکہ تیری پوری زندگی دو حالتوں میں منقسم ہے۔ 

با تو دعا ہی نہیں کر رہا بلکہ اللہ کے کیے پر راضی ہے۔ اور اس کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کے موافقت فعل ربی کی راہ پر گامزن ہے۔ اور غسال کے ہاتھوں میں میت اور دائیہ کے ہاتھوں شیر خوار بچے کی مانند بے حس و حرکت ہے۔ یا پھر گھڑ سوار کے ہاتھوں گیند کی مانند ہے کہ وہ جس طرف چاہتا ہے لے جاتا ہے۔ جس سمت چاہتا ہے الٹتا پلٹتا ہے۔ پس اللہ تعالی خود تجھ میں کام کر رہا ہے اور تو اس کے سامنے کوئی حرکت نہیں کر رہا۔ اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دیا ہے۔ 

اگر اللہ تعالی کی طرف سے تمہیں نعمتیں میسر ہوں تو تیری طرف سے شکر اور حمد و ثناکی جاتی ہے۔ اور اس کے بدلے اللہ تعالی اپنی عطائیں اضافہ فرماتا ہے۔ 

جیسا کہ اس کا ارشاد ہے: ‘ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ اگر تم سابقہ نعمتوں پر شکر کرو گے تو میں تمہارے لیے ان میں اور اضافہ کروں گا۔

 اگر دکھ اور تکلیف ہو تو اللہ کی توفیق ثابت قدمی، نصرت، نماز اور رحمت کی وجہ سے تو صبر ورضا کو اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالی تجھ پر اپنا فضل فرماتا ہے۔ جیسا کہ اس کا ارشاد گرامی ہے۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“

 یعنی اللہ ان کی مدد فرماتا ہے اور انہیں ثابت قدم رکھتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو بندہ صبر کر کے اپنے نفس خواہش اور شیطان کے خلاف اللہ تعالی کی مدد کرتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔ 

إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ اگر تم اللہ (کے دین)کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد فرمائے گا اور میدان جہاد میں تمہیں ثابت قدم رکھے گا ۔

جب اللہ پر اعتراض اور تسخط(ناراضگی) کی روش ترک کر کے اپنے نفس کی مخالفت میں اللہ تعالی کی مدد کرے گا اور اپنے نفس کے خلاف اللہ کا مددگار بن جائے گا اور اللہ کی رضا کی خاطر تلوار ہاتھ میں لیے نفس پر پہرہ دے گا اور جب بھی نفس کفر ، شرک اور اپنی رعونت سے حرکت کرے گا تو تواپنے صبر ، رب کی موافقت اس کے فعل پر طمانیت اور وعدہ خداوندی  پررضا کے ذریعے اس کا سر قلم کر دے گا تو اللہ تعالی تیرا معاون اور مددگار بن جائے گا۔ 

صبر ہی پراللہ تعالی کی طرف سے انسان پر شفقت و مہربانی کی نظر ہوتی ہے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (١٥٥) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ  أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ۔ اور خوشخبری سنایئے ان صبر کرنے والوں کو جو کہ پہنچتی ہے انہیں کوئی مصیبت تو کہتے ہیں بیشک ہم صرف اللہ ہی کے ہیں اور یقینا ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ہیں وہ (خوش نصیب)ہیں جن پر ان کے رب کی طرح طرح کی نوازشیں اور رحمت ہے اور یہ لوگ سیدھی راہ پر ثابت قدم ہیں۔

 دوسری حالت یہ ہے کہ تو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر عاجزی و انکساری سے دعا کرے۔ اور نیت یہ رکھے کہ وہ عظیم ذات ہے اور مجھ پر لازم ہے کہ اس کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اس کی بارگاہ میں سوال کروں اور وہ اس لائق ہے کہ اس کی جناب میں دست سوال دراز کیا جائے۔ کیونکہ وہ کائنات کا مالک ہے اور اس کا حکم ہے کہ مجھ سے مانگو اور مجھ سے رجوع کرو۔ اللہ کریم نے دعا کو وجہ سکون ، اللہ اور بندے کے در میان رابطہ اور اپنے قرب کا ذریعہ اور وسیلہ بنایا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ تاخیر کی وجہ سے اسے تہمت نہ دے۔ اس سے نالاں نہ ہو۔ کیونکہ ہر کام اپنے وقت پر انجام پاتا ہے۔ 

ان دو حالتوں میں سے ایک حالت کو اپنانے اور دونوں حالتوں سے تجاوز کرنے والوں سے نہ ہو جا۔ کیونکہ کوئی تیسری حالت ہے ہی نہیں۔ 

حد سے تجاوز کرنے والوں اور ظالموں سے نہ ہو جا۔ ورنہ اللہ تمہیں ہلاک کر دے گا اور تیری ہلاکت کی اللہ کو کوئی پرواہ نہیں۔ جیسے کہ پہلی امتوں کو دنیا میں بھی سخت عذاب سے دوچار کیا اور آخرت میں انہیں دردناک عذاب کامستحق ٹھہرایا۔

سبحان الله العظيم. یاعالما بحالي عليك اتکالی

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 116 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں