حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :
نبی کریم ﷺکی حدیث دَع مَا يَريبُك إِلَى مَا لَا يَريبُك ؟ مشکوک ومشتبہ چیز کو چھوڑ کر غیر مشکوک و غیر مشتبہ چیز کو اختیار کر کے متعلق
جب مشتبہ اور غیر مشتبہ دونوں پہلو کسی چیز میں پائے جارہے ہوں تو عزیمت پر عمل کرنا چاہیئے اور وہ پہلو اختیار کرنا چاہیئے جس میں کسی قسم کا اشتباه اور شک نہ ہو اور مشکوک اور مشتبہ پہلو کو ترک کر دینا چاہیئے۔
اگر مشتبہ اور مشکوک چیز ایسی ہو جو دل میں شک پیدا نہ کرے جیسا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا : الْإِثْمُ حَوَّازُ الْقُلُوبِ گناہ وہ ہے جو دلوں میں کھٹکتا ہے“
تو بھی توقف کرے اور امر باطنی (الہام)کا انتظار کرے۔ اگر (بذریعہ الہام )حکم مل جائے تواسے قبول کر لے اور اگر روک دیا جائے تودستکش ہو جائے اور اس طرح کا رویہ اختیار کرے کہ گویا کہ وہ چیز معدوم ہے اس کا دین میں کوئی وجود ہی نہیں۔ پھر اپنے پروردگار کے دروازے پر واپس آجا اور اسی کی بارگاہ سے رزق کا طالب ہو۔ اللہ کریم یاد دہانی کی احتياج نہیں رکھتاوہ تجھ سے یا کسی اور سے غافل نہیں۔ وہ تو کفار و منافقین اور اس کی رحمت سے اعراض کرنے والوں کو بھی کھلاتا ہے۔ بھلا بنده مؤمن کو کیسے بھول سکتا ہے جو اس کی توحید کا اقرار کرتا ہے، اس کی اطاعت بجا لاتا ہے اور رات دن اس کے حکم کی بجا آوری میں کوشاں رہتا ہے۔
اس حدیث پاک کا ایک اور مفہوم بھی مشتبہ کو چھوڑ دے اور غیر مشتبہ اختیار کر “ یعنی جو چیز لوگوں کے ہاتھ میں ہے اسے چھوڑ دے۔ اسے طلب نہ کر اور دل کو اس سے نہ لگا۔ مخلوق سے نہ کوئی امید و توقع وابستہ کر اور نہ ہی ان سے اندیشہ رکھ اور اللہ عزوجل کے فضل و کرم کو قبول کر جس میں کوئی شک نہیں تو التجا کرے تو صرف ایک ہی ذات ہے۔ امید رکھے تو صرف ایک سے۔ ڈرے تو صرف ایک سے اور کوشش ہو تو بھی صرف ایک کیلئے یعنی وہ جو تیرارب ہے۔ اس کے ہاتھ میں بادشاہوں کی پیشانی کے بال ہیں۔ اس کے دست قدرت میں مخلوق کے وہ دل نہیں جو جسموں پر حکمرانی کرتے ہیں۔ مخلوق کے پاس جو کچھ ہے اس کی ملکیت ہے۔ مخلوق ، اس کی توقعات اور تمنائیں اور تجھے دینے میں ان کے ہاتھ کی حرکت اس کے اذن، امر اور تحریک کی بدولت ہے۔ اور اگر کسی کا ہاتھ تیرے حضور کوئی چیز پیش کرنے سے رکتا ہے تو بھی اس مالک کے روکے سے رکتا ہے۔ رب قدر کا ارشاد ہے۔
وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ اور مانگتے ہو اللہ تعالی سے اس کے فضل و کرم ) کو“
إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًاۚ إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ بیشک جن کو تم پوجتے ہو اللہ تعالی کو چھوڑ کر وہ مالک نہیں تمہارے رزق کے ۔ پسں طلب کیا کرو اللہ تعالی سے رزق کو اور اس کی عبادت کیا کرو اور اس کا شکر ادا کیا کرو۔ اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے“
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ
اور جب پو چھیں آپ سے اے میرے حبیب! میرے بندے میرے متعلق تو انہیں بتاؤ میں ان کےنزدیک ہوں۔ قبول کر تا ہوں دعا کرنے والے کی دعا کو جب وہ دعامانگتا ہے مجھ سے“
ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ تجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا
إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ بلاشبہ اللہ تعالی ہی سب کو روزی دینے والا ، قوت والا اور زوروالا ہے“
إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍبیشک اللہ تعالی رزق دیتا ہے جسے چاہتا ہے بے حساب ۔
عقیده جبر شیطانی وسوسہ ہے
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاه نے فرمایا :
خواب میں میں کیا دیکھتا ہوں کہ انسانوں کا ایک جم غفیر ہے۔ اپنے قریب میں شیطان لعین کو دیکھتا ہوں۔ فوراً اسے قتل کرنے کا ارادہ کرتا ہوں۔ وہ لعین مجھ سے مخاطب ہوتا ہے اور کہتا ہے آپ مجھے کیوں قتل کرتے ہیں۔ آخر میراگناہ کیا ہے۔ میرے مقدر میں اگر برائی تھی تو میں نیکی کیسے کر سکتا تھا۔ اگر میری قسمت میں نیکی کرنا لکھا ہوتا تو میں قسمت کو تبدیل کر کے برائی تو نہیں کر سکتا تھا۔ میرے ہاتھ میں کیا تھا کہ مجھے سزا کا حکم سنادیا گیا۔
اس لعین کی صورت مخنثوں جیسی تھی۔ چہرہ لمبوتر، ناک پتلی اورلمبی، ٹھوڑی پر تھوڑے سے بال اور شکل صورت نادم سی اور حقیر سی تھی۔ اس کی گفتگو میں کمال نرمی تھی۔ شیطان یہ گفتگو کر کے ندامت اور خوف کی ہنسی ہنسا۔ یہ خواب گیارہ ذی الحجہ561ھ کی رات کا ہے۔
آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 88 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام