حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :
میں تمہیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی تکلیف کا شکوہ کسی سے نہیں کرنا۔ کوئی بھی ہو۔ دوست ہو یا دشمن۔ یہ تکلیف تیرے رب کی طرف سے ہے اس پر اسے الزام نہ دے۔ بلکہ بھلائی کا اظہار کر اور شکر بجا لائے بغیر نعمت کے جھوٹا شکر اس سچے شکوے سے بہتر ہے جو تونے مصیبت کے آنے پر کیا ہے۔ کیونکہ یہ اس ذات کا شکوہ ہے جس نے پہلے تجھے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ ۔
رب قدوس کا ارشاد ہےوَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا اور اگر گنناچاہو تو اللہ کی نعمتوں کو تو تم ان کا شمار نہیں کر سکتے
اللہ تعالی کی تم پر کتنی نوازشیں ہیں۔ اور تو ہے کہ انہیں جانتا ہی نہیں ہے۔ خلق سے لومت لگا۔ کسی فرد مخلوق سے مانوس نہ ہو۔ اپنی حالت سے کسی کو مطلع نہ کر۔ بلکہ تراانس اللہ عزوجل سے ہو اور تجھے صرف اس سے سکون ملے۔ تیرا گلہ و شکوہ صرف اس کے سامنے ہو۔ دوسرا کوئی تجھے نظر بھی نہ آئے۔ کیونکہ دوسرا کوئی نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان نہ کچھ دے سکتا ہے اور نہ چھین سکتا ہے۔نہ کسی ذلت کامالک ہے اور نہ عزت کا۔ نہ بلند کر سکتا ہے اور نہ پست نہ کسی کے ہاتھ میں فقر و افلاس ہے اور نہ دولت و غنی۔ نہ کوئی کسی کو حرکت دے سکتا ہے اور نہ کسی متحرک کو ساکن کر سکتا ہے۔ سب چیزیں اللہ تعالی کی پیدا کردہ ہیں اور سب کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں ہے۔ ہر چیز اس کے اذن اورحکم سے جاری ہے اور ہر ایک نے اس کے ہاتھ ایک مدت معینہ تک چلنا ہے۔ ہر چیز کا اس کے ہاں اندازہ مقرر ہے جو پہلے ہوا ہے وہ بعد میں اور جو بعد میں ہوتا ہے وہ پہلے نہیں ہوسکتا۔
رب قدوس کا ارشاد گرامی ہے۔وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
اور اگر پہنچائے تجھے اللہ تعالی کوئی تکلیف تو نہیں کوئی دور کرنے والا اسے بجز اس کے۔ اور اگر ارادہ فرمائے تیرے لیے کسی بھلائی کا تو کوئی رد کرنے والا نہیں اس کے فضل کو۔ سرفراز فرماتا ہے اپنے فضل و کرم سے جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں سے اور وہی بہت مغفرت فرمانے والاہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔
اگر تو نے شکوہ کیا حالانکہ تو خیر و عافیت سے ہے اور تیرے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے محض اس لیے کہ اور نعمتیں عطا ہوں اور تو نے اللہ کے فضل و کرم سے آنکھیں موند لیں تو تو نے اللہ تعالی کی نعمتوں کی ناقدری کی۔ خیر و عافیت کو حقیر خیال کیا۔ اللہ تعالی تجھ سے ناراض ہو گا اور تجھے ان نعمتوں سے محروم کر دے گا۔ سب کچھ چھین کر تیرے گلے اور شکوے کوسچ ثابت کر دے گا۔ تو اور زیادہ مصیبتوں میں مبتلا ہو گا۔ اس کی عقوبت میں شدت آجائے گی۔ اپنی نظر سے تجھے گرا کر ذلیل و رسوا کر دے گا۔
شکوہ سے پوری طرح احتراز کر ٹکڑےٹکڑے ہو جائے تیرا گوشت قینچیوں سے کاٹ دیا جائے پھر بھی شکوہ کی زبان نہ کھول۔ اپنے آپ کو (شکوه و شکایت سے دور رکھ اور خوف خداکر۔ اللہ تعالی سے ڈر۔ اس ذات سے حذر کر، چھوڑ دے چھوڑ دے۔ شکوے کی روش کو چھوڑ دے۔ پر ہیز کر پر ہیز اگر مصائب صرف اس وجہ سے آتے ہیں کہ انسان اپنے رب کا شکوہ کر تا ہے۔ بھلا اس ارحم الراحمین کا شکوہ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ جو خیر الحاکمین، حلیم اور رؤوف رحیم ہے اس کی شکایت میں زبان کھلے حاشا وکلا۔ وہ تو اپنے بندوں پر بڑا لطف و کرم کرنے والا ہے کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ وہ حلیم و مشفق طبیب کی مانند اپنے بندوں
سے محبت کرنے والا اور انہیں رحمت کی نظر سے دیکھنے والا ہے۔ کیا شفیق ومہربان والد اور مہربان ورحیم والدہ کو تہمت دی جاسکتی ہے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا۔
اللَّهُ أَرْحَمُ بِعَبْدِهِ مِنْ هَذِهِ الْمَرْأَةِ بِوَلَدِهَا اللہ تعالی اپنے بندے پر اس سے زیادہ مہربان ہے جتنی ماں اپنے بچے پر مہربان ہوتی ہے“
حسن ادب سے کام لے۔ اے انسان مصیبت آئے اور صبر کایارہ نہ ہو توبہ تکلف صبر کر۔ اگر رضاء و موافقت کی ہمت نہیں تو صبر سے کام لے۔ اگر فناء و نیستی حاصل نہیں تو موافقت کر۔ اگر مفقود کر دیا گیا ہے تو فنا اختیار کر۔ اے کبریت احمر ! تو کہاں ہے تو کہاں پایا اور دیکھا جارہا ہے؟
کیا تو نے اللہ تعالی عزوجل کا یہ ارشاد گرامی نہیں سنا:
کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِتَالُ وَہُوَ کُرۡہٌ لَّکُمۡ وَعَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡـًٔا وَّہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ وَعَسٰۤی اَنۡ تُحِبُّوۡا شَیۡـًٔا وَّہُوَ شَرٌّ لَّکُمۡۗ وَاللّٰہُ یَعۡلَمُ وَاَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ فرض کیا گیا ہے تم پر جہاد اور وہ نا پسند ہے تمہیں۔ اور ہو سکتا ہے کہ تم ناپسند کرو کسی چیز کو حالانکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہواور ہو سکتا ہے کہ تم پسند کرو کسی چیز کو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو اور (حقیقت حال)اللہ ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔
حقیقت اشیاء کاعلم مخفی رکھا گیا ہے اور تجھے اس سے محجوب کر دیا گیا ہے۔ سوئے ادبی نہ کر۔ کوئی چیز تجھے پسند ہے یانہ پسند حکم خداوندی پر نظر رکھ ۔ اگر تو تقوی کی حالت میں ہے جو کہ راہ سلوک کا پہلا قدم ہے تو مصیبت ہویا نعمت شرع کی اتباع کر۔ اگر حالت ولایت میں ہے جو راہ سلوک میں دوسرا قدم اور تجھ میں ابھی خواہش باقی ہے توامر کی اتباع کر اور اس سے تجاوز نہ کر۔ فعل خداوندی سے موافقت کر اور شیوه تسلیم ورضا اختیار کر۔ اگر بدلیت ، غوثیت اور صدیقیت کی حالت میں ہے جو راہ سلوک کی انتہاءہے تو فناو محو ہو جا۔
تقدیر کے راستے سے ہٹ جا اور اس کی راہ میں نہ آ، خواہش نفسانی اور حرص و ہوا کو ختم کر دے اور شکوہ کی زبان پر مہر لگادے۔
(حسب حالت) اگر تو نے ایسا کیا : یعنی شریعت کی پابندی کی۔ امر باطن کی پابندی کی یافنا کو اختیار کیا تو اگر وہ خیر ہے تو اللہ تعالی تجھے خوشگوار زندگی دے گا اور لذت و سرور میں اضافہ فرمائے گا اور اگر وہ شر ہے تو اس میں اپنی اطاعت میں اللہ تعالی تیری حفاظت فرمائے گا۔ تجھ سے ملامت دور کرے گا۔ مصیبت میں تجھ کو مغفور کر دے گا یعنی تجھ پر یہ حالت طاری کر دے گا کہ تجھے مصیبت کا احساس بھی نہیں ہو گا حتی کہ اپنے وقت پر مصیبت ٹل جائے گی اور شر دور ہو جائے گا جس طرح رات گزرتی ہے تودن کو چھوڑ کر چلی جاتی ہے اور موسم سرمامیں سردی ختم ہوتی ہے تو گرمی آجاتی ہے۔
یہ گردش لیل و نہار اور موسموں کی تبدیلی اہل علم کیلئے قدرت خداوندی کے دلائل ہیں ان سے نصیحت پکڑو۔ پھر انسان میں گناه، خطا اور جرم کا داعیہ ہے۔ اسی وجہ سے وہ اللہ تعالی کی نافرمانی کرتا ہے اور عصياں شعار ہو جاتا ہے لیکن یاد رکھ کریم کی بارگاہ میں تو صرف وہ حاضر ہو سکتا ہے جو ان گناہوں اورلغزشوں سے پاک ہو۔ اللہ تعالی کے آستانہ کی چوکھٹ پر بوسہ صرف وہی دے سکتا ہے جو دعاوی(دعوے) کے میل کچیل سے پاک ہو۔ جس طرح کہ بادشاہ کاہمنشین صرف وہ ہو سکتا ہے جو ہر قسم کی ناپاکی میل کچیل اور گندگی سے پاک صاف ہو۔ یہ مصیبتیں گناہوں کو مٹانے والی اور انسان کو پاک کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ نبی کریم کا ارشاد ہے۔
حُمَّى يَوْمٍ كَفَّارَةُ سَنَةٍ ایک دن کابخار سال بھر کے گناہوں کا کفارہ ہے۔
آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 83 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام