حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :
جب تجھے وصول الی اللہ کی دولت مل گئی تو اللہ کی توفیق اور اس کے قریب کرنے سے تجھے قرب خداوندی کا مقام حاصل ہو گیا۔
: وصول الی اللہ کا مطلب یہ ہے تو خلق سے ، حرص و ہوا سے اور خواہش وارادہ سے نکل جائے اور اللہ تعالی کے فضل اور اس کے ارادہ کے ساتھ ثابت ہو جائے۔ بلکہ اس کے حکم،امر اور فعل کے ساتھ تھے ثبات مل جائے۔ اس حالت کوفتاء یا وصول الی اللہ کہتے ہیں۔
وصول الی اللہ وہ عادی اور معقول وصول نہیں کہ ایک جسم دوسرے تک پہنچ گیا کیونکہ اللہ تعالی کی تو یہ شان ہے۔
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ نہیں ہے اس کی مانند کوئی چیز اور وہی سب کچھ سنے والا دیکھنے والا ہے
اللہ تعالی اس بات سے کہیں بلند ہے کہ اسے اس کی مخلوق کے مشابہ ٹهہرایا جائے یا اس کی تخلیق کردہ اشیاء پراسے قیاس کیا جائے۔
وصول الى اللہ اہل وصول کے نزدیک معروف چیز ہے۔ اللہ تعالی اپنے بندوں کو خود اس کیفیت سے آگاہ فرما دیتا ہے۔ ہر ایک کا اس میں مقام جداجدا ہے۔ اور کسی کو دوسرے کے ساتھ شریک نہیں کرتا۔ یہ اللہ اور اس کے رسولوں، نبیوں اور ولیوں کے درمیان راز ہے۔ جس کی حقیقت کو بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اور اس سے یا تو اللہ تعالی آگاہ ہے اللہ تعالی کے یہ محبوب بند ے ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مرید کے راز سے شیخ بے گانہ ہوتا ہے اور شیخ اور اللہ تعالی کے در میان راز سے مرید بے گانہ ہوتا ہے۔ حالانکہ مرید سلوک میں شیخ کی حالت کے دروازے کی چوکھٹ تک پہنچ چکا ہو تا ہے۔ پس جب مریدی کی حالت کو پہنچ جاتا ہے تو اسے شیخ سے الگ کر لیا جاتا ہے اور اس کی روحانی کفالت سے واپس لے لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالی اپنے بندے کو اپنے کرم و عنایت کی گود میں لے لیتا ہے اور دنیا سےوہ کلی لا تعلق ہو کر اللہ کابن جاتا ہے۔ گویاشیخ کی حقیقت اس دایہ کی تھی جو دو سال تک دودھ پلانے کا فریضہ سرانجام دیتی ہے اور جب دو سال کا عرصہ بیت جاتا ہے تو اب بچے کو دودھ نہیں پلایا جاتا۔ اسی طرح اب خلق کے ساتھ اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ اس لیے کہ حرص و ہواب زائل ہو چکی۔ اور شیخ کا فریضہ خواہش و اراده کو توڑنا تھا اب جبکہ خواہش و ارادہ زائل ہو گئے تو کوئی کدورت اور نقص باقی نہیں رہا اس لیے شیخ کی ضرورت نہیں رہی۔
جب تواصل بحق ہو گیا جیسا ہم نے بیان کیا تو ماسوا اللہ سے احتراز کر۔بجز حق کے اور کوئی وجود نہ دیکھے ۔ نہ نفع و نقصان میں نہ منع و عطا میں اور نہ ہی خوف ور جاء میں۔ بلکہ خدائے عزوجل کو تقوی و مغفرت کا ابل یقین کرے۔ تیری نظر ہمیشہ اس کے فعل پر ہے لمحہ بہ لمحہ اس کے حکم پر متوجہ رہے۔ ہمیشہ اس کی تابعداری کر اور دنیا اور آخرت میں سب سے کٹ کر اسی کا ہور ہے۔
دل خلق خدا کو نہ دے۔ ان کو اس طرح بےبس سمجھ جس طرح کہ ایک آدمی جس کے ہاتھ ایک جابر ، عظیم مملکت فرمانروا، سطوت کے مالک بادشاہ نے پیٹھ پیچھے باندھ دئیے ہوں۔ اس شخص کے گلے میں قلادہ اور پاؤں میں بیڑی پڑی ہو۔ پھر اسے صنوبر کے ایک بڑے درخت کے ساتھ لٹکا دیا جائے جو ایک وسیع و عمیق نہر کے کنارے کھڑا ہو۔ نہر سے منہ زور موجیں اٹھ رہی ہوں۔ پانی تیزی سے چل رہا ہو۔ بادشاہ اپنی کرسی پر بڑے تمکنت کے ساتھ بیٹھا ہو۔ اور کرسی بھی وہ کہ اس کی اونچائی آسمان تک پہنچی ہو۔ بادشاہ عظیم ہو۔ مطلق العنان ہو۔ جو چاہے کرے جیسے چاہے تصرف کرے۔ اور بادشاہ کی کرسی کے نزدیک ہرقسم کا اسلحہ تیر و کمان، نیزے،بھالے، تلواریں سب کچھ موجود ہو۔ بادشاہ جس چیز سے چاہے اسے قتل کرے۔ جتنے تیر چاہے اس کے جسم پر برسائے۔ کیا اس بادشاہ کو چھوڑ کر مصلوب شخص سے بہتری کی امید رکھنا، بادشاه سے بے خوف ہو کر مصلوب سے ڈرنا مناسب ہے ؟ ہر گز ہر گز نہیں۔
مخلوق سے لوگ اور بادشاہ حقیقی کو چھوڑ دینا قرین دانشمندی نہیں۔ کیا ایسے شخص کو پاگل ، مجنون اور فاترالعقل نہیں کہا جائے گا۔
ہم بصیر ت کے بعد اندھے پن سے وصول کے بعد دوری سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں۔ اور دعا کرتے ہیں کہ مالک حقیقی! ہمیں قرب کے بعد دوری سے ہدایت کے بعد ضلالت و گمراہی سے اور ایمان کے بعد کفر سے محفوظ رکھ۔
دنیا اس بڑی نہر کی مانند ہے جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔ روز بروز اس کا پانی بڑھ رہا ہے۔ یعنی دنیا میں بنی آدم کی شہوات ولذات جن میں روز بروز اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ نوع بنوع اسلحہ سے مراد آلام و مصائب ہیں۔ اور اس کی قسمت میں کئی مسائل کا سامنا لکھا ہے جو نعمتیں اسے میسر ہیں وہ بھی آفات سے محفوظ نہیں۔ یوں عقلمند کیلئے دنیا کی زندگی میں راحت و آرام کا کوئی سامان نہیں۔ عیش و عشرت تو در حقیقت آخرت کی چیز ہے۔ مگر اس کے حصول کے لیے ایقان کی دولت درکار ہے۔ صرف اہل ایمان ہی اخروی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا : لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَةِ آخرت کی راحت کے سواء کوئی راحت نہیں۔ ایک اور حدیث ہے۔ لَا رَاحَةَ لِلْمُؤْمِنِ دُونَ لِقَاءِ رَبِّهِ مؤمن کے لیے اپنے رب کی ملا قات کے علاوہ کوئی چیز راحت نہیں۔ پھر فرمایا۔ الدُّنْيَا سِجْنُ المُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الكَافِرِ اس دنیا مومن کیلئے زندان اور کافر کیلئے جنت ہے‘ایک حدیث میں فرمایا :
التَّقِيُّ مُلْجَمٌ متقی کے منہ میں لگام ہوتی ہے ۔
ان احادیث اور واضح دلائل کے ہوتے ہوئے کو ئی دنیا میں راحت و سکون کی زندگی کا دعوی کیسے کر سکتا ہے۔ ساری راحت تو مخلوق سے الگ ہونے اور اللہ کریم سے موافقت اور خود سپردگی میں ہے پس بندہ مو من تو دنیا سے نکل چکا۔پس ایسی صورت میں اس دنیا کی نعمتیں رافت ورحمت لطف و کرم اور صدقہ و خیرات ہیں۔
آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 80 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام