حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :
جب انسان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس مصیبت سے نکلنے کی پہلے خود کو شش میں کامیاب نہ ہو تو پھر دوسروں سے مدد طلب کرتا ہے۔ مثلا فقر و افلاس میں سلاطین امراء و منصب داروں کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ بیمار ہو تو طبیب کے پاس جاتا ہے۔ اگر یہاں بھی کام نہ بنے اور مایوسی ہو پھر باگاہ خداوندی میں عاجزی و انکساری سے التجا کر تا ہے۔ اللہ کریم کی بارگاہ میں سر نیاز جھکا دیتا ہے۔ جب تک اپنی مدد آپ کے تحت کچھ کر سکتا ہے مخلوق کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ جب تک مخلوق سے تائید ملتی رہتی ہے خالق کی طرف رجوع نہیں کرتا اور جب مخلوق سے اور اپنے آپ سے مایوس ہو جاتا ہے تو پھر امیدوبیم کی کیفیت میں خالق تعالی کی بارگاہ میں عرض کناں ہو تا ہے۔
لیکن اللہ کریم ا سے دعا سے درماندہ کر دیتا ہے(یعنی وه د عامانگ مانگ کر تھک جاتا ہے) اور اس کی دعا قبول نہیں فرماتا۔ حتی کہ انسان تمام اسباب سے تعلق توڑ دیتا ہے۔ ایسے میں بندے میں اللہ کا حکم جاری ہو تا ہے۔ اور خالق اپنا فعل صادر فرماتا ہے۔ پھر بند ہ روح محض بن جاتا ہے (یعنی شریت دم توڑ دیتی ہے اور روحانیت کار فرما ہو جاتی ہے) بندہ ہر طرف اللہ کریم کے فعل کو دیکھتا ہے۔ پس وہ صاحب یقین اور موحد بن جاتا ہے اسے یقین ہو جاتا ہے کہ حقیقی فاعل تو اللہ عزوجل ہے۔ اس کے سوانہ کوئی حرکت دینے والا ہے اور نہ حرکت کو روکنے والا۔
خیر وشر، نفع و نقصان، منع و عطا، بسط و کشاد ، موت و حیات، عزت وذلت، غنی و فقر سب اللہ عزوجل کے دست قدرت میں ہے۔ انسان کو جب یہ یقین ہو جاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو تقدیر کے ہاتھ میں دے دیتا ہے جس طرح شیر خواربچہ دایہ کے ہاتھ میں ، میت غسال کے ہاتھ میں اور گیند کھلاڑی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وہ اسے اپنی مرضی سے ادھر ادھر ۔ دائیں بائیں ، اوپر نیچے جیسے چاہتا ہے الٹ پلٹ کر تا ہے۔ جس طرح میت ، گیند اور بچے کی کوئی حرکت اپنی نہیں ہوتی اسی طرح انسان کی کوئی حرکت اس کی اپنی نہیں رہتی وہ اپنے آپ کو کلیتاً اللہ تعالی اور اس کے فعل کے سپرد کر دیتا ہے اور اپنے آپ سے غائب ہو جاتا ہے۔ نہ وہ کچھ سنتا ہے اور نہ کچھ سمجھتا ہے۔
اور اگر دیکھتا ہے تواسی کے دکھائے دیکھتا ہے۔ سنتا اور جانتا ہے تو اسی کے کلام کو سنتا اور اس کے بتائے سے جانتا ہے۔ وہ اسی ذات اقدس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس کے قرب کی سعادت سے بہرہ ور کیا جاتا ہے۔ حضوری کی نعمت سے مزین و مشرف ہو تا ہے۔ اللہ کریم کے وعدہ سے خوش ہوتا ہے اور سکون حاصل کرتا ہے۔ اسکی ذات سے مطمئن اس کے کلام سے مانوس ہو تا ہے۔ غیر اللہ سے وحشت و نفرت کرتا ہے۔ اللہ کے ذکر سے نجات اور پناه چاہتا ہے۔ اس پر بھروسہ ، اس پر توکل کرتا ہے۔ اس ذات اقدس کے نور معرفت سے ہدایت حاصل کرتا ہے۔ اپنے ظاہر وباطن کو منور کر تا ہے۔ اسی کے عطا کردہ علوم لدنی سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ اس کی قدرت کے اسرار پر جھانکتا ہے۔ اسی سے سنتا ہے۔ اس سے یاد کرتا ہے۔ اسی کی حمد وثناکرتا ہے صرف اس کی نعمتوں کا شکر ادا کر تا ہے اور اس کے ہاتھ اللہ کی بارگاہ کے علاوہ کسی کے آگے بند نہیں ہوتے۔
آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 53 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام