ھو سےیا ہو بہو سے ہے جس سے تشخص مراد ہوتا ہے ۔
یہ اللہ کی ذات کیلئے بولا جاتا ہے جب کوئی چیز نہ تھی نہ خاک نہ پانی نہ ہوا نہ آگ نہ آسمان نہ زمین نہ جنگل نہ پہاڑ نہ حیوان نہ انسان تب ایک حقیقت تھی اپنے آپ سے موجود اس کو عربی میں ھویت اور فارسی میں ہستی بولتے ہیں بعض اسے عشق کہتے ہیں وہ حقیقت اس مرتبہ میں سب قیود سے پاک تھی اور سب کمالات اور صفات اس کے باطن تھے پس اپنے کمالات کے سبب سے کسی طرف متوجہ نہ تھی اپنے پر آپ حاضر تھی اور اپنے غیر طرف متوجہ نہ تھی بلکہ کوئی غیر نہ تھا اور صفات اس کی ذات میں مندرج تھیں پس کوئی نام اور صفت اور کوئی نسبت اور اضافت اس مرتبہ میں ظاہر نہ تھے اور بطون اور ظہور سے پاک تھا اس کو ایک یا بہت نہ بولا جائے بلکہ یہ حقیقت کسی احاظہ اور قید میں نہیں آسکتی اور عام اور خاص اور واحد اور کثرت بولنے کے بجائے بقول حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ الان کما کان یعنی اب بھی اللہ تعالی ویسا ہی ہے جیسا تھا ازل کے اس مرتبہ کو ذات ،غیب ھویت غیب الغيوب ،مرتبہ وحدت ، حقیقت مطلقہ ،غیب مطلق اور مرتبہ احدیت ،ابطن كل باطن هويت مطلقه ،لاتعین ۔ عین الکافور – ذات ساذج – منقطع الاشارات – منقطع الوجدان – احدیت مطلق مجہول النعت – عنقا – نقطہ – گنج مخفی کو کہتے ہیں. اللہ تعالٰی نے فرمایا میں گنج مخفی یعنی ذات کے غلبہ میں صفات سب مخفی تھیں ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ ﮐﮧ ﭘﮩﭽﺎﻧﺎ ﺟﺎﺅﮞ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﺎ
ان پہچان کرانے کے مراحل کو تنزلات مراتب اور تنزلات ستہ کہتے ہیں
هويت وجود خارجی کے معنی میں بھی استعمال ہوتی ہے اس کے مترادفات جوہر۔زندگی اورہونا ہیں ۔ ہویت غیریت کا مقابل ہے ۔
ہویت لفظ ھو سے مشتق ہے جو غائب کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال میں آتا ہے ہویت سے حق تعالی کی کُنْہ( ماہیتِ الٰہی جو ادراک سے پرے ہے۔انتہا، غایت) ذات کی طرف اشارہ ہے
غیب ہویت(ذات احدیت) غیب الغیب، ذات بحت، اور مرتبہ ہویت اسی ہویت کے اظہار کیلئے استعمال ہوتے ہیں