درست اور ناقص اعمال (اکیسواں باب)

درست اور ناقص اعمال کے عنوان سےاکیسویں باب میں  حکمت نمبر 192 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

اکیسواں باب

درست اور ناقص اعمال اور احوال کے میزان کے بیان میں حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔
192)إِذَا الْتَبَسَ عَلَيْكَ أَمْرَانِ، فَانْظُرْ إِلَى أَثْقَلِهِمَا عَلَى النَّفْسَ فَاتَّبِعْهُ، فَإِنَّهُ لَا يَثْقُلُ عَلَيْهَا إِلَّا مَا كَانَ حَقاً.
جب دو چیزیں تمہارے لئے مشابہ ہو جائیں، (یعنی دو چیزوں میں حق پوشیدہ ہو جائے ) تو تم یہ دیکھو کہ دونوں چیزوں میں سے تمہارے نفس پر کون زیادہ گراں ( نا گوار ) ہے۔ جو زیادہ گراں ہو، اسی پر عمل کرو۔ کیونکہ نفس پر وہی چیز گراں ہوتی ہے، جو حق ہوتی ہے۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ جو سائرین جہاد اکبر میں مشغول ہیں ، ان کے لئے یہ بالکل درست میزان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ تم لوگ اللہ کی راہ میں جہاد ( جد و جہد ) کرو۔ جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔
اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ وَٱلَّذِينَ جَٰهَدُواْ فِينَا لَنَهۡدِيَنَّهُمۡ ‌سُبُلَنَاۚ
جولوگ ہمارے راستے میں جد و جہد کرتے ہیں ہم اپنے راستوں کی طرف ان کی ہدایت رہنمائی کرتے ہیں یعنی ہم ان کو اپنے راستوں پر چلاتے ہیں۔
لہذا ہر وہ شے جومریدکے نفس پر گراں گزرے اور اس کا نفس اس سے نفرت کرے وہی حق ہے۔ اور مرید کے اوپر اس کی پیروی واجب ہے۔ یعنی مرید کو اسی پر عمل کرنا چاہیئے ۔ اور جوشے مرید کے نفس کو آسان اور ہلکا معلوم ہو ، وہ باطل ہے۔ اور اس میں نفس کا فائدہ ہے۔ لہذا مرید کے لئے اس سے پرہیز کرنا واجب ہے اور اس معاملے میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔ کیونکہ ایسا اکثر ہوتا ہے، کہ ایک نفس پر ایک شے گراں ہوتی ہے اور دوسرے نفس پر وہ گراں نہیں ہوتی ہے۔ کسی نفس پر خاموشی گراں وناگوار معلوم ہوتی ہے۔ اور کسی نفس پر گفتگو کرنا ، گراں گزرتا ہے۔ مثلا اس صورت میں جبکہ انکی تربیت خاموشی میں کی گئی ہو ۔
بعض نفس ایسے ہوتے ہیں جن پر گوشہ نشینی گراں گزرتی ہے ۔ اور بعض لوگوں سے ملنا جلنا ناگوار ہوتا ہے۔ کسی نفس کے لئے روزہ رکھنا شاق گزرتا ہے اور کسی نفس کے لئے افطار کرنا ۔ کسی نفس کے لئے مانگنا ، اتنا گراں اور شاق ہوتا ہے۔ کہ وہ سوال کرنے کے ساتھ ہی مر جاتا ہے۔ اور کسی نفس کے لئے مانگنا آسان ہوتا ہے۔ جیسا کہ اس کے لئے جس کو مانگنے کا حکم ملنے سے پہلے ہی ماننے کی عادت رہی ہو ۔ اس پر دوسری چیزوں کو بھی قیاس کرو۔
لہذا بندے کو ہوشیاری کے ساتھ اپنے نفس کی نگرانی کرتے رہنا چاہیئے ۔ اور اس کے ساتھ اس کی مرضی کے خلاف معاملہ کرنا چاہیئے ۔ اس طرح ہمیشہ ہر معاملے میں اس کے حکم ( خواہش کی مخالفت کرتا رہے۔ اور ان تمام معاملات میں اس کو ملامت کرتار ہے، جن کو وہ بہتر شکل میں پیش کرتا ہے۔
پھر جب نفس محسوس ظاہر سے پاک وصاف ہو جائے ۔ اور اس میں ظاہر کا ایک ذرہ بھی باقی نہ ر ہے، اس وقت بندے پر اس کی موافقت کرنی واجب ہے۔ اس لئے کہ اب اس کے اندر صرف اللہ تعالیٰ کی تجلی جلوہ گر ہوتی ہے اور وہ اب اس آیہ کر یمہ کا مصداق ہے :-
جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ حق آ گیا اور باطل مٹ گیا ۔ لہذا عارف کا معاملہ سائر کے بر عکس ہوتا ہے۔ سائر کو تدبیر و اختیار نقصان پہنچاتے ہیں اور عارف کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ سائر کے لئے لوگوں سے ملنا جلنا مضر ہے اور عارف کے لئے مفید ہے۔ سائر کے لیے کلام نقصان دہ ہے۔ اور عارف کے لئے نفع بخش ۔ سائر کو دنیا نقصان پہنچاتی ہے ۔ اس لئے اس سے بھاگتا ہے۔ اور عارف دنیا سے غائب ہوتا ہے۔ اس لئے دنیا اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے۔ بلکہ اکثر اوقات اس کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
حاصل یہ ہے :- عارف اپنے تمام معاملات میں سائر کے برعکس ہے۔ و بالله التوفيق
اور جو شخص اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا چاہتا ہے ، اس پر واجب ہے کہ اپنے نفس کو تربیت کر نیولے شیخ کے سپرد کر دے۔ کیونکہ اس کے نفس کے معاملات اس سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اور بالفرض اگر اس کو ان چیزوں کا علم بھی ہو ، جونفس کو گراں و ناگوار معلوم ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی وہ شیخ کی ہمت کے بغیر اپنے نفس سے جہاد کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہی سنت اپنے بندوں میں جاری ہے۔ کیونکہ نفس اپنی رائے اور خواہش سے کبھی ہٹنا نہیں چاہتا ہے۔ لہذا جو شخص نفس سے جہاد کرنے میں بندے کی مدد کرتا ہے، بندے پر واجب ہے کہ نفس کو اس کا فرماں بردار بنادے۔ اور اگر تم شرعی تکلیفات میں غور کرو تو تم ان کو کس کے خلاف پاؤ گے ۔ اور جو شخص اپنی قیادت شریعت کے حوالے نہیں کرتا ہے۔ وہ کافر ہے اور جو شخص بھی کافر ہوا ہے وہ خواہشات کی پیروی سے کافر ہوا ہے۔ واللہ اعلم
اور اس جگہ ایک دوسرا میزان بھی ہے۔ جس کے ذریعے تم اس عمل کو جس میں نفس کا فائدہ ہے اور اس عمل کو جس میں نفس کا فائدہ نہیں ہے، پہچان سکتے ہو۔ اور وہ میزان یہ ہے:۔
کوئی بھی عمل ہو۔ تم اس میں مشغول رہتے ہوئے نفس کے سامنے موت کو پیش کرو ۔ اگر نفس اس عمل میں مشغول رہتے ہوئے موت کے لئے راضی ہو جائے ۔ تو سمجھو یہ عمل درست ہے اور اگر نفس اس عمل میں مشغول رہتے ہوئے موت کے لئے راضی نہ ہو تو سمجھ لو یہ عمل باطل ہے یعنی اس میں نفس کی خواہش اور اس کا فائدہ ہے۔
اسی طرح انسان اس میزان پر اپنے نفس کو وزن کرے۔ تا کہ وہ یہ معلوم کر سکے کہ وہ اس عالم سے سفر کر چکا ہے۔ یا ابھی اسی عالم میں باقی ہے۔ لہذا آرام اور بھلائی کی حالت میں وہ اپنے نفس پر موت کو پیش کرے۔ اگر اس کا نفس موت کو قبول کرے اور اس سے پیچھے نہ ہٹے۔ تو اس کو معلوم کر لینا چاہیئے کہ وہ یقینا اس عالم سے کوچ کر چکا ہے۔ اور اگر اس کا نفس موت کو نہ قبول کرے اور زندگی چاہے تو اس کو سمجھنا چاہیئے ! اس عالم میں اس کا نفس اتنا ہی باقی ہے، جتنا وہ موت سے بھاگتا ہے۔ وبالله التوفيق


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں