مراتب محبت وعشق
غواصان رموز بحر عشق و معرفت نے بڑی باریک بینی سے مسائل محبت و عشق پر موشگافیاں فرمائی ہیں۔ مراتب محبت کو کئی مدارج میں تقسیم
فرمایا ہے
ارادے کے نویں مرتبے کو صوفیہ کرام عشق کہتے ہیں ۔ مراتب ارادہ ان کے ہاں مندرجہ ذیل ہیں ۔
(1) اراده : ابتدائی میلان در نبت
وَلَع: ارادے سے ذرا شدید میلان قوی (2)
(3)صَبابت : طلب محبوب کی طرف جھکاؤ
(4)شَغَف :فریفتگی محبوب کے لیے فراغت کلی، محبوب کا خیال جب دل میں جاگزیں ہو جائے ۔
(5)- ھویٰ : غیر سے جب دل غافل ہو جائے دل تنگ ہونا
(6)- غرام : جب چاہت کے اثرات جسم پر بھی ظاہر ہونے لگیں ۔
(7)حُب : جب میلان و رغبت کی علتیں بھی درمیان سے ہٹ جائیں ۔
(8) وُد : جب میلان میں جوش آجائے اور محب فانی از خود ہو جائے ۔
(9)- عشق : حب محب اور محبوب میں امتیاز ختم ہو جائے
امیر کبیر میر سید علی ہمدانی نے مراتب محبت کو مندرجہ ذیل مدارج میں تقسیم فرمایا ہے :
(1) لحظہ: محبت کا مادہ اور مودت کی اصل ہے۔ گویا کہ نطفہ ہے محبت کا۔
(2)رمقه: محسوسات میں کسی خوبی کا ادراک کر کے اس کے نتیج کی جانب دل میں میلان کا پیدا ہونا۔
(3)ہوا: مودت و محبت کا ظہور ابتدائی محبت کے اصلی مراتب یہیں سے شروع ہوتے ہیں۔
(4) ود: ایک بہتر ہے جو کیفیت ہوا کے پیدا ہونے سے باطن محبت میں داخل ہوتا ہے۔
(5) خلّت: قوائے روحانی میں مودت و محبت کا جڑ پکڑ لینا اور اثر کا پیدا ہونا۔ جس کا ادنی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جملہ اعضاء محبوب سے پُر اور اغیار سے خالی ہو جاتے ہیں۔
(6) حب: وہ حالت جس میں قلب ماسوی المطلوب سے پاک ہو جائے۔
(7)عشق: افراط محبت، محبت کا انتہائی مرتبہ۔ اس لحاظ سے بعض عارفین کے نزدیک اس کا اطلاق حضرت صمدیت پر نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس حضرت میں افراط و تفریط کا گزر نہیں۔ لیکن بعض کے نزدیک محبت میں افراط کا کوئی مرتبہ یہاں افراط میں داخل نہیں۔ محبت کے لیے افراط ہو تو ہو لیکن محبوب کے لیے کسی طرح افراط نہیں۔
مجمع السلوک شرح رسالہ مکیہ میں محبت کے حسب ذیل مدارج بیان کیے گئے
(1) موافقت: دوست کے دوست کو دوست سمجھنا، اسے دل میں جگہ دینا اس کی تابعداری کرنا، دوست کے دشمن کو دشمن سمجھنا اور اس سے دور رہنا۔
(2) میل و موانست :اغیار سے وحشت و گریز اور دوست کی دھن میں ہر وقت مصروف
(3)مؤدت:خلوت میں دل کو عجز وزاری و غایت اشتیاق و بے قراری سے مشغول به دوست رکھنا۔
(4)ہوا:دل کو ہمیشہ مجاہدہ میں رکھنا اور کوشش میں جگر کو پانی کر دینا اور ہمیشہ مائل بہ محبوب رہنا۔ یہی محبت اصلی کی پہلی منزل ہے۔
(5) خلت: جملہ اعضاء کو دوست سے پُر اور غیر دوست سے خالی کر دینا۔
(6) محبت: اوصاف ذمیمہ سے پاک ہو کر اوصاف حمیدہ سے موصوف ہونا۔
(7)شغف: غایت حرارت و شوق سے حجاب دل کو پارہ پارہ کر دینا اور آنسوؤں کو پنہاں رکھنا تا که راز فاش نہ ہو الا جبکہ غلبہ حال سے ضبط محال ہو جائے۔
(8)تیم:بندہ محبت اور اسیر دوست بن کر تجرید ظاہری اور تفرید باطنی سے موصوف ہونا ۔
(9)ولہ: آئینہ دل میں جمالِ دوست کو محفوظ کر لینا اور مست شراب جمال دوست ہو کر ہمیشہ بیمار سا بنا رہتا۔
(10) عشق: بے قرار ہو کر خود کو گم کر دیتا۔
شیخ عبد العزیز رسالہ عشقیہ میں محبت کے دس مراتب اور ہر مرتبہ کے تحت میں پانچ پانچ مدارج تحریر فرماتے ہیں جو حسب ذیل ہیں:
(1) الفت: افعال وصنائع سے متاثر ہونا ، کتمان میلان اور مشقتوں و مصائب کا تحمل،تمنا اخبار دوست سے لطف لینا، تضرع ۔
(2) صداقت: صفا، غیرت، اشتیاق، ذکرمحبوب، تحیر
(3)مودت: گریه واضطرار، بکا، حسرت، تفکردرمحبوب ، مراقبه محبوب ۔
(4)ہوا: خضوع، بذل، صبر، تضرع، تسلیم ورضاء
(5) شغف: فرمانبرداری،محافظت باطن از غیر،دوست کے دشمن سے دشمنی، محبوبان محبوب سے محبت ،اخفاء
(6) خلت :اغیار کی نگاہ سے چشم پوشی، صدق، مرضی محبوب سے اگر شہرت حاصل ہو تو اُسے قبول کرنا، دوست ہی سے دوست کی شکایت کرنا مثل یعقوب علیہ
السلام یا ایوب علیہ السلام کے،اخفاء
(7) محبت : حسن اخلاق ،ملامت اور اظہار سکر اور حیرت۔ مشاہدہ غیوب۔ آرزوئے ملاقات دوست ، انس با محبوب
(8) عشق: فقدان یعنی اپنے گم کر دینا، تاسف کہ عمر وصال یار کے بغیرگزر رہی ہے۔ وجد دوست کی جدائی پر بے صبری، صیانت یعنی حفاظت
(9)تیم: تفرد یعنی دوست کے ساتھ ایک ہو جانا۔ استار بذل روح۔ انس و ہیبت
(10) ولہ: تضرع و اخلاص سے سوال، شراب سلسبیل عشق کا نوش کرنا ، سکر۔ اضطراب و بے خودی، تلف یعنی ذات محبوب میں فنا ہونا اور اس فنا سے بقادحیات سرمدی کا حاصل کرنا۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی مندرجہ ذیل مراتب محبت بیان فرماتے ہیں: (1) میل (2) رغبت (3) طلب (4) ولع یعنی فریفتگی اور اچھی چیز کی تمنا (5) صبابہ یعنی مطلوب کے نہ ملنے پر دل تنگ ہونا۔ (6) ہوا ۔ (7) شغف (8) اغرام یعنی طلب مطلوب میں اپنے کو ہلاک کر دینے کے درپے ہو جانا۔ (9) حب مطلق یا عشق
اور فرماتے ہیں کہ محبت اور ود مشترک ہیں درمیان محب اور محبوب کے۔
مرتبہ عشق میں عاشق معشوق کو دیکھتا ہے مگر پہچانتا نہیں ، ما عرفناك حق معرفتك معشوق کو دیکھ کر عاشق میں کوئی از خود رفتگی پیدا نہیں ہوتی۔ وہ سمندر کی طرح اتھاہ ہو جاتا ہے۔ تلوین ختم ہوچکی ہوتی ہے اور مقام تمکین پر فائزہ ہو جاتا ہے ۔ قیس عامری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب اس کے قریب سے گزرتے ہوئے لیلیٰ نے اس کو دعوت ہم کلامی دی تو مجنوں نے اس سے کہا میرا راستہ چھوڑ دے اور مجھے لیلی ہی میں مشغول رہنے دے حالانکہ اس وقت خود لیلی اس سے مخاطب تھی۔ یہ وصل و قرب کا انتہائی اعلیٰ مقام ہے۔ اس میں عارف اس چیز ہی کا انکار کر دیتا ہے جس کی اس نے شناخت کی تھی ۔ پھر نہ کوئی عارف رہتا ہے اور نہ معروف نہ عاشق نہ معشوق صرف عشق باقی رہ جاتا ہے۔ جو ذات محض کا نام ہے جس کا نہ اسم ہے نہ رسم نہ نعت نہ وصف ۔
نه اسمم نه جسمم نه اینم نه آنم
چہ را ز عیا نم با چه سر نہانم
نہ اسم ہوں نہ جسم ہوں نہ یہ ہوں نہ وہ ہوں ۔ کیا راز عیاں ہوں کیا سر نہاں ہوں ! )
اور اسی منزل پر پہنچ کر ایک اور عاشق کہہ اٹھتا ہے :
العشق نار الله الموقده
غروبھا وطلوعها على الأفقده
عشق اللہ تعالی کی بھڑکاتی ہوئی وہ آگ ہے جس کا طلوع اور غروب دلوں پر ہوتا ہے
محبت ایک مقناطیسی کشش ہے جو کسی کو کسی کی جانب کھینچتی ہے۔ کسی میں حسن و خوبی کی ایک جھلک دیکھ کر اس کی جانب طبیعت کا مائل ہو جانا ، دل میں اس کی رغبت ، اس کا شوق اس کی طلب و تمنا اور اس کے لیے بے چینی کا پیدا ہو جانا ، اس کے خیال میں روز و شب رہنا، اس کی طلب میں تن من دھن سے منہمک ہو جانا اس کے فراق سے ایذا اور اس کے وصال سے راحت پانا ، اسکے خیال میں اپنا خیال اس کی رضامیں اپنی رضا ، اسی کی ہستی میں اپنی ہستی کو گم کر دینا ، یہ سب محبت ہی کے کرشمے ہیں ۔
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نہ گوید بعد ازیں ، من دیگرم تو دیگری
میں تو ہو جاؤں تو میں ہو جا۔ میں جسم ہو جاؤوں تو جان ہو جا تا کہ بعد میں کہیں یہ نہ کہہ دے کہ میں اور ہوں ، تو اور ہے)
محبت ایک عالمگیر جذبہ ہے۔ ظہور حیات کے اختلاف مدارج کی مناسبت سے ظہور محبت کے مراتب میں بھی اختلاف واقع ہوتا ہے اور پھر یہی محبت مختلف مدارج میں مختلف ناموں سے پکاری جاتی ہے ۔ غیر ذی روح مادی ذرات میں اسے کشش کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور ذوی الارواح میں اس کشش کا نام محبت ہو جاتا ہے اور جب ارفع و اعلیٰ ہستیوں میں محبت بھی اپنی اعلیٰ اور ارفع قدروں کے ساتھ نمایاں ہوتی ہے تو اُسے عشق کہتے ہیں ۔
یہ قطعی غلط ہے کہ عشق کا لفظ صرف عشق مجازی ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ لفظ عشق ہر دور میں عشق حقیقی اور پاکیزہ محبت کے معنی میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ بالخصوص صوفیہ کرام کے پاس توعشق نام ہی معراج محبت کا ہے ۔ اسی لیئے تو وہ دنیا و آخرت دونوں سے دونوں ہاتھ اٹھا کر اپنے محبوب حقیقی کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کی رسم بسم اللہ ہی ترک دنیا ترک عقبی سے ہوتی ہے۔
محبت معرفت کی محتاج ہے اور معرفت محبت کی محبت کو معرفت پر تقدم حاصل ہے اور معرفت کو محبت پر ۔ بظاہر یہ ایک متضاد بات معلوم ہوتی ہے لیکن در حقیقت اس میں کوئی تضاد نہیں، محبت، معرفت کا نتیجہ ہے اور معرفت محبت کا یعنی معرفت کے بغیر محبت پیدا نہیں ہوتی اور بغیر محبت کے معرفت میں ترقی نہیں ہوتی۔ محبت سے قبل اجمالی معرفت کی ضرورت ہوتی ہے اور محبت کے بعد حق تعالیٰ کی طرف سے تفصیلی معرفت بطور انعام محبت عطا فرمائی جاتی ہے جو لازمہ ہوتی ہے قرب ووصال کا ۔
عشق چونکہ محبت کا اعلیٰ وارفع مقام ہے اس لیئے یہ صرف انسان ہی کے حصہ میں آیا ہے جو مخلوقات میں سب سے اعلی وارفع مخلوق ہے حتی کہ فرشتے بھی اس عشق سے محروم ہیں۔
حضرت خواجہ فرید الدین عطار فرماتے ہیں :
قدسیان را عشق بست و درد نیست
درد را جز آدمی در خورد نیست
(فرشتوں کو عشق ہے لیکن درد نہیں۔ اور دردانسان کے علاوہ کسی کے لائق بھی نہیں)
درد اس قلق اور سوز دروں کا نام ہے جو ایک عاشق فراق محبوب اور آرزوئے وصال میں محسوس کرتا ہے اور یہ صرف انسان کا حصہ ہے ۔ فرشتے تو اس کائنات کے مشینی پرزے ہیں۔ ان کا عشق کشش ذرات سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ذرات میں احساس نہیں ہوتا اور فرشتوں کو اس کا احساس ہے ۔ اسی احساس کی بناء پر فرمایا ” قدسیان را عشق بست درد و تڑپ البتہ ان سے مفقود ہے ۔ نہ تمنائے قرب ہے ، نہ آرزوئے وصال ۔
یہ عشق اک آگ ہے جو ہر وقت عشاق کے دلوں کو جلاتی رہتی ہے اور یہ عشق ہی ہے کہ جس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی ۔ کیوں ؟ اس لیے کہ محبت کے بغیر معرفت نہیں ملتی اور جس کی معرفت ہی نہیں اس پر ایمان و یقین کامل کس طرح ہو سکتا ہے۔ عبادت اس شق کے بغیر ناقص رہتی ہے ۔ امام بے حضور ہوتا ہے اور نماز بے سرور ۔ سجدے کھو کھلے ہوتے ہیں اور دعائیں رسمی ۔ عشق کے بغیر عبادت بے سود اور عبادت کے بغیر عشق بے فیض ۔ جو اطاعت محبت سے کی جائے وہ اس اطاعت سے ہزار درجہ بہتر ہے جو خوف سے کی جاتی ہے ۔ عبادت بغیر عشق زہد خشک ، اور زہد خشک سے بدتر کوئی آزار نہیں ۔ عشق دنیا و آخرت کے سارے غموں سے آزاد کر دینے والی چیز ہے۔ سلوک کا دار و مدار اسی عشق پر ہے۔ ادھر تحبون الله ہے تو ادھر بحبكم الله – محبت ادھر بھی ہے اور اُدھر بھی۔ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوتی ۔