انسان کامل ( تنزلات ستہ کا مرتبہ سابعہ)

انسان کامل ( تنزلات ستہ کا مرتبہ سابعہ)

تنزل سادس

ساتواں مرتبہ تعین ششم ہے جو تمام مراتب کا جامع ہے جس میں اللہ تعالیٰ کامل طور پر دیگر مخلوقات کی نسبت عالم ناسوت میں انسان کی بشری صورت میں روح جسمانی کے پرتو میں ظاہر ہوا۔ یعنی حق تعالیٰ نے نور محمدی سے روح قدسی ، روح قدسی سے روح سلطانی ، روح سلطانی سے روح سیرانی اور روح سیرانی سے روح جسمانی کی صورت میں انسان یعنی بشر میں ظہور فرمایا۔ لیکن وہ انسان جس میں یہ ظہور کامل مکمل اور اُتم ہوا وہ انسان کامل ہے

اللہ تعالی نے ذات یعنی احدیت سے وحدت میں، وحدت سے واحدیت میں ،واحدیت سے جبروت میں، جبروت سے ملکوت میں اور ملکوت سے ناسوت میں نزول فرمایا۔ گویا اللہ تعالی کی ذات نے ہر شے میں ظہور فرما کر کائنات کو قائم کیا ہوا ہے۔

چھٹا تنزل انسان ہے۔ انسان کے معنی ہیں مردمک چشم(آنکھ کی پتلی) کہتے ہیں جب مردمک سر سب کو دیکھے اور خود اپنے ہی کو نہ دیکھے، تو انسان ہے ۔ جب کہ احکام وحدت میں حقیقت وحدت حقیقی کے ساتھ تھی تو احکام کثرت پر غالب تھے ، بلکہ احکام کثرت تھے ہی نہیں پھر الگ الگ مظاہر میں ظاہر ہوئی کہ ان میں سے ایک مظہر بھی دوسرے مظہر کا جامع نہ تھا۔ اب احکام وحدت پر احکام کثرت غالب ہوئے اور یہاں امر وحدت مخفی ہوا۔

حق تعالی نے ارادہ فرمایا کہ اپنی ذات کو مظہر کلی میں ظاہر کرے جو تمام مظاہر نوری ، مجالی ظلی ، حقائق سری، حقائق جہری ، دقائق باطنی اور دقائق ظاہری کا جامع ہو ، کیونکہ جامع کمالات و صفات اور جامع اسماء الہی کے طور پر اب تک ذات حق مدرک نہ ہوئی تھی کیونکہ اس کا ظہور صرف اپنے اپنے اس خاص مظہر، مجلا اور متعین کے مطابق ہوتا تھا، جس میں وہ ظاہر ہوئی تھی ۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ حق کا ظہور عالم ارواح میں ویسا نہیں ہے جیسا کہ عالم اجسام میں ہے کیونکہ ارواح میں (اس کا ظہور ) بسیط ، فعلی اور نورانی  ہے اور اجسام میں ظلمانی ، انفعالی اور ترکیبی ۔

اب معلوم ہونا چاہئیے کہ وہ مظہر کلی انسان( انسان یا آدم سے مراد ” انسان کلی ہے جو تجلی اعظم شان الوہیت (حق تعالیٰ کا الہ یعنی معبود ہونا)ہے جس کے مظاہر انسان ہائے جزئی ہیں ۔ انسان ہی کے ذریعہ سے حق تعالی نے جملہ موجودات کے قفل کھولے ہیں ، اسی وجہ سے انسان کو ” فاتحہ الکتاب” بھی کہتے ہیں اور ان سات صفات نفسیہ کی وجہ سے جو حق و عبد میں منقسم ہیں یعنی حیات، علم، ارادہ، قدرت ، سماعت، بصارت ، کلام انسان کو ، سبع مثانی ” بھی کہتے ہیں۔) ہے جو ذات مطلقہ کی مظہریت اور اسماء وصفات اور افعال کی مظہریت کے درمیان جامع ہے۔ اور حقائق وجوہی ،اسمائے الہیہ کی نسبتوں اور حقائق امکانی وصفات خلق کے درمیان جامع ہے ۔لہذا انسان کامل مرتبہ جمع اور مرتبہ تفصیل کے درمیان جامع ہوا اور محیط ہوا ، ان تمام چیزوں کو جو سلسلہ وجود میں ہیں کیونکہ وحدت اپنے مافیہا کے ساتھ تعین ثانی میں ظاہر ہوئی اور تعین ثانی ، اُس چیز کے ساتھ جس کے تحت تین عالم میں، انسان میں ظاہر ہوا لہذا (انسان) ان تمام موجودات کا جامع ہے جو ازل سے ابد تک پیدا ہوئے اور ہوتے رہیں گے ، اسی لیئے انسان کو جہان صغیر اور عالم صغیر کہتے ہیں۔ عالم بمنزلہ جسد ہے اور انسان مانند روح اسی لیے عالم کو انسان کبیر کہتے ہیں، یہ باعتبار صورت ہے اور با اعتبار مرتبہ ، عالم انسان صغیر یا جہان صغیر ہے اور انسان، عالم کبیر، کیونکہ یہ خلیفہ ہے اور خلیفہ اعلیٰ اور ارفع ہوتا ہے اُن سے جن پر اُس کو خلیفہ بنایا گیا۔ انسان کامل خلیفہ اللہ ہے ۔ اور متصرف ہے سارے عالم میں اس لیے اللہ تعالی کا فیض جس چیز کوبھی پہنچ رہا ہے، وہ انسان کے باطن کے توسط ہی سے پہنچ رہا ہے اور اسی وجہ سے فرشتوں نے اُس کو سجدہ کیا ۔ اگر چہ انسان تخلیق میں سب سے مؤخر ہے لیکن چونکہ وحدت کے مشابہ ہے اور مقصود تخلیق عالم ہے ، اس لیے اس کو عالم کی علت غائی، بھی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا فرمایا ہے ، یعنی اپنی صفات جلال و جمال ، اپنے اسمائے فعلی و انفعالی اور اوصاف اسمائے کیانی سے پیدافرمایا اور باقی عالم کو ایک ہاتھ سے پیدا فرمایا۔ یہ نکتہ ملا ئکہ طبیعیہ نہ سمجھ سکے، چنا نچہ ا نہوں نے کہہ دیا کیا آپ زمین میں، اس شخص کو خلیفہ بنا رہے ہیں جو اس میں فساد برپاکرے گا اورخوں ریزی کرے گا اور ہم آپکی تسبیح وتقدیس کرتے ہیں ۔

ملائکہ یہ نہ سمجھ سکے کہ وہ اللہ تعالی کے صرف اسی ایک اسم کی تسبیح کرتے ہیں، جس کے وہ مظہر ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ کے اسماء اور بہت سے ہیں جن کی ملائکہ کو خبر تک نہیں۔

انسان کا مل

اللہ تعالی نے آدم کو جو انسان کا مل ہیں، پیدا فرمایا اور تمام اسماء ان کو سکھائے کیونکہ انسان کامل ذات کا مظہر ہے، جو جامع ہے تمام اسماء کی۔ اس لیے اس کی تسبیح ملائکہ کی تسبیح سے کامل تر ہونی چاہیے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کو فرشتوں کے سامنے پیش کرکے فرمایا کہ اس کائنات کے اسماء مجھے بتاؤ یعنی وہ اسماء بتاؤ کائنات جن کی مظہر ہے اور ان اسماء کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ فرشتوں نے جو تکبر ے پاک ہیں، اعتراف عجز کیا اور آدم نے وہ سارے نام بتا دیئے ، اس طرح آدم کی فضیلت ظاہر ہو کر رہی ۔

اسم مضل کا مظہر

ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ میں آدم سے بہترہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے اور آدم کو کیچڑ سے پیدا کیا ہے۔

گویا ابلیس نے آدم کو کیچڑ سمجھا اور یہ نہ جانا کہ اس میں ذات تمام صفات و اسماء اور تمام حقائق عالم کے ساتھ ظاہر ہوئی ہے اور اب یہ مظہر جامع ہے۔ ابلیس نے اس مظہر کے مقابلے میں تکبر کیا جو اسے نہ کرنا چاہیئے تھا اور اسی وجہ سے مردود ہوا ۔

ابلیس ایک جن تھا اور اسم مضل“ کا مظہر ، اس لیے ممکن ہی نہیں کہ اس سے گمراہی کے علاوہ کچھ اور صادر ہوتا۔ اسی لیے اس نے کہا تھا :

اے رب ! قسم ہے تیری عزت کی، میں انسانوں کو ضرور گمراہ کر کے چھوڑوں گا

لہذا گمراہ کرنے کی خدمت اس نے قبول کی تاکہ اس اسم مضل کا ظہور ہو۔ انسان کامل اگر چہ باطن میں تمام اسماء کا جامع ہے لیکن بصورت ظاہری اسم ہادی کا مظہر ہے ، اسی لیے اللہ تعالی نے شیطان کو انسان کا دشمن فرمایا ۔ چنانچہ انسان کامل سے ہدایت کے سوا کچھ اور ظاہر نہیں ہوتا ، اگر کبھی اس سے معصیت سرزد ہو بھی جاتی ہے تو فوراً ہی توبہ و استغفار کرتا ہے یہ بھی ہدایت کا ایک اثر ہے اور اسماء  تواب ، عفو ، غفور کے ظہور کا سبب ۔

قائم الولایت

جب انسان کامل مرتا ہے تو فوراً دوسرا اس کا قائم مقام ہو جاتا ہے تاکہ دنیا باقی رہے ۔ حب انسان کامل بالکل باقی نہ رہے گا اور قائم الولایت  (مقام محمدی ﷺ ” بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر کے مصداق ہے ۔ جملہ مخلوقات میں حضور ہی سب سے اعلی وا رفع ہیں۔ آپ ہی انسان کامل با لذات ہیں اور باقی تمام انسان کامل ، بالعرض ہیں۔ اس لیے آپ ہی خلیفہ اللہ ہیں اور دوسروں کو یہ مقام و مرتبہ آپ کے طفیل میں آپ کی پیروی و اتباع اور محبت سے ظلی طور پر حاصل ہوتا ہے ۔)وفات پا جائیں گے تو قیامت قائم ہو جائے گی ۔ انسان ناقص اگر چہ ایک طرح کی جمعیت رکھتا ہے اور فرشتے اس کے ساجد اور فرمانبردار ہیں لیکن یہ سجدہ اس پر و بال ہوتا ہے کیونکہ اس کا شیطان اس کا ساجد نہیں بلکہ اس پر غالب ہوتا ہے بلکہ یوں کہو کہ وہ شیطان کا تابع ہو کر اس کا ہر حکم بجا لاتا ہے اور شیطان جلدی میں اس کی مدد کرتا ہے۔ فرشتے فی الواقع اس کے تابع ہونے کے باوجود مانع نہیں ہوتے ۔ اور جب وہ نیکی کا ارادہ کرتا ہے تو اگرچہ فرشتے راضی ہوتے ہیں لیکن شیطان مزاحم ہوتا ہے ۔ غرض شیطان کی پیروی کی وجہ سے نوبت کفر اور شرک تک جا پہنچتی ہے اور پھر اس مرحلے میں انسان کی صرف صورت باقی رہتی ہے مگر حکم اس پر جانور کا لگتا ہے اور وہ اسفل السافلین میں جا گرتا ہے ۔

وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقه سيدنا محمد و على آله وصحبه اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمين


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں